اپنے بیان کی جنہیں پہچان تک نہیں


میں ٹورنٹو سے قریبی شہرملٹن جانے کے لئے ہائی وے پر جارہا تھا کہ مجھے اندازہ ہوا کہ میرے پیچھے پولیس کار ہے۔ میں نے اپنی رفتار برقرار رکھی کچھ ہی وقت کے بعد پولیس کار کی بتیاں جلنے بجھنے لگیں اور یہ اشارہ تھا کہ مجھے رکنا ہوگا۔ میں نے اشارہ دے کر سڑک کے ایک طرف گاڑی لگادی۔ یہاں کے قانون کے مطابق مجھے کار میں ہی رہنا تھا۔ میں شیشے میں دیکھ رہا تھا، ایک پولیس آفیسر مجھے آتا دکھائی دیا۔ اس نے بڑی احتیاط سے میرا اور گاڑی کا جائزہ لیا اور پوچھا کہ ’’کیسے ہو‘‘ میں مسکرایا ہاں سب ٹھیک ہے۔ کیا کچھ غلط ہوگیا ہے؟میرے ہاتھ میں میرا لائسنس تھا، ہاں تمہاری گاڑی کی بریک لائٹ کام نہیں کررہی ابھی تو دن ہے لیکن شام کو مشکل ہوسکتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ تم اس کو جلد از جلد ٹھیک کرالو۔ بس میں تمہیں خبردار کررہا ہوں۔ اپنا خیال رکھنا اور وہ واپس اپنی گاڑی میں چلا گیا۔ میں نے ایک لمبا سا سانس لیا اور گاڑی کو اسٹارٹ کیا۔ مجھے اپنا پاکستان کا تجربہ یاد آگیا۔ میں اسلام آباد سے لاہورجارہا تھا۔ گوجر خاں کے قریب میرے ڈرائیور نے بتایا صاحب سامنے پولیس والے گاڑی رکنے کا اشارہ کررہے ہیں۔ میں نے غصہ سے کہا تو پھر روک کر معلوم کرو کہ کیا معاملہ ہے۔ گاڑی روکنے پر ہمارے پاس کوئی نہیں آیا، تو میرا ڈرائیور اتر کر ان کے پاس گیا۔ اس وقت تک وہ دو ا ور گاڑیوں کو روک چکے تھے۔ میرے ڈرائیور نے آکر بتایا وہ چالان کررہے ہیں کہ ہماری رفتار زیادہ تھی۔ مجھے ذرا حیرانی بھی ہوئی، خیر اتنی دیر میں موٹر وے پولیس کے نوجوان آفیسر نے بتایا آپ مقررہ حد سے زیادہ رفتار پر جارہے تھے کیمرے نے آپ کی گاڑی کی نشاندہی کی ہے۔ میں نے کہا، ہوسکتا ہے، جرمانہ 700روپے جو آپ ابھی بھی ادا کرسکتے ہیں۔ڈرائیور نے کہا صاحب ہماری رفتار قانون کے مطابق تھی۔ مجھے ڈرائیور پر یقین تھا ،میں نے کہا کیا میں کیمرہ کا ریکارڈ دیکھ سکتا ہوں۔ اس نے غیر یقینی انداز میں مجھے دیکھا اور بولا، پھر جرمانے کی رقم بڑھ سکتی ہے۔ ڈرائیور نے مجھے دیکھا، ہمارے پاس وقت کم تھا۔ خیر جب کیمرہ پر ریکارڈ دیکھا تو میں نے پوچھا، ان تین گاڑیوں میں سے ہماری گاڑی کون سی ہے۔ وہ فرمانے لگے دو کا تو چالان ہوچکا ہے، آپ کا ہونا ہے اتنے میں شور مچا وی آئی پی گاڑیاں آرہی ہیں۔ ا یک اور ٹریفک اہلکار نے ہمیں اشارہ کیا کہ آپ لوگ جلدی سے نکل جائیں۔ ڈرائیور نے گاڑی ا سٹارٹ کی، میں نے اس کو کہا، یہ مناسب نہیں۔ وہ بولا صاحب مناسب کی بات نہیں وہ بڑے لوگوں کے لئے مصروف ہیں۔ میں نے کہا اچھا چلو، مجھے ڈرائیور پر غصہ بھی تھا۔ وہ سابقہ فوجی ہے اور اصول و قانون کا خیال رکھتا ہے۔ اس نے اگلے دن بتایا، صاحب آپ کو اس ملک کا کیا معلوم ۔ ادھر سب ایسے ہی چلتا ہے۔ میرا آج تک چالان نہیں ہوا جب بھی کوئی ٹریفک والا روکتا ہے میں ان کو کہتا ہوں ، بچوّ میں بھی ملازم ہوں۔ بس یہ جملہ بہت کام کا ہے۔ پولیس میں ملازم کی بڑی عزت ہے، فوج میں ملازم نہیں ہوتے وہ سب بندے ہوتے ہیں۔ صاحب یہ ملک بندوں کا نہیں ملازموں کا ہے۔

میں سوچ رہا تھا کہ کینیڈا میں بھی ملازم اور بندے ہیں مگر وہ کسی تفریق میں نہیں جاتے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ مجھے امریکہ جانا تھا۔ میرے ٹریول ایجنٹ نے کہا آپ پولیس سے اپنے فنگرپرنٹس کی رپورٹ احتیاط کے طور پر بنوالیں۔ میں پولیس اسٹیشن گیا ان کو کہا کہ فنگر پرنٹس کی رپورٹ چاہئے۔ وہ بولے کیوں لینی ہے، بتایا ا مریکہ جانا ہے۔ وہ مسکرایا ، پھر کہنے لگا جب تم ویزا کی درخواست دو گے تو وہ سارا کام خود ہی کرلیں گے۔اپنے پیسے ضائع نہ کرو۔ میں ذرا حیران ہوا ، خیر ویزا تو مل گیا مگر فنگر پرنٹس انہوں نے ائیر پورٹ پر لئے۔ عام حالات میں پولیس والا آپ کا مددگار ہی ہوتا ہے اور ہرجگہ وہ آپ کو نظر نہیں آتا جبکہ ہمارے ہاں معاملہ بالکل مختلف ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر اسلام آباد ائیر پورٹ پر جو سلوک ناروے کے مسافروں کے ساتھ کیا گیا اس پر جو ردعمل سامنے آیا مانا کہ اس میں مسافروں کی غلطی بھی ہوسکتی ہے، مگر تشدد اور مارپیٹ کے جو مناظر سوشل میڈیا پر نظر آرہے ہیں وہ تو ریاست کی حیثیت کو مشکوک بنارہے ہیںوزیر داخلہ نے کارروائی تو ڈال دی ہے مگر نتیجہ نظر نہیں آتا۔ پھر ملک کی اعلیٰ عدالت نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے کیا ملازمین کے لئے سزا ہی کافی ہوگی یا ریاست کے نظام اور ترتیب میں تبدیلی ہو گی۔ابھی چند دن پہلے جو کچھ مردان کی ایک سرکاری جامعہ میں تشدد اور قتل کا واقعہ ہوا ہے بظاہرشاخسانہ مقامی سیاست کا جو نظر آتا ہے، مگر جس طریقہ سے ایک بدمست ہجوم نے قتل کیا ہے جبکہ پولیس کو قتل کی اطلاع مل چکی تھی اور مناسب کارروائی سے یہ معاملہ کنٹرول کیا جاسکتا تھا مگر ہٹ دھرمی، بدمستی جو اب ہماری سیاست کا حصہ ہے۔ خیبر پختونخوامیں جتنی بھی سیاسی اشرافیہ ہے وہ کپتان کی جماعت کی حکمرانی ماننے کو تیار نہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک بڑا سیاسی اور دینی اجتماع ہوا جس میں تمام دیگر جماعتوں کے لوگ مدعو تھے۔ صرف تحریک انصاف کے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا۔ اس کے باوجود تحریک انصاف نے سرکاری طور پر ان کو مکمل تحفظ مہیا کیا۔ صوبے خیبر پختونخوا کی ا شرافیہ ملک کے دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہے۔وہاں ایک عرصہ تک ترقی پسند سیاسی جماعت اور طالبان کے حمایتی لوگوں کی حکومت رہی۔ عمران خان کی جماعت نے صوبے کو بدلنے کی کوشش کی ہے مگر مرکز کی طرف سے ان کے لئے مسلسل رکاوٹ کا سامنا ہے۔ اب صوبے کے سرکاری لوگ چین کے ساتھ ترقی کے لئے منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ اس معاملہ میں پہلے امریکی کافی دخل انداز رہے، مگر ان کو شکایت رہی کہ ترقی کے کاموں میں نوکرشاہی امدادی رقوم میں خوردبرد کرتی ہے اور اب بھی اخباروں میں امریکی امدادی ادارے کے اشتہارات چھپ رہے ہیں کہ اگر کسی جگہ مالی بدانتظامی ہو رہی ہو اور آپ اطلاع کریں تو آپ کو تحفظ کے علاوہ آپ کی خدمت بھی کی جائے گی۔ اب امریکہ اپنی جگہ چین کے لئے خالی کرتا نظر آتا ہے جبکہ چین افغانستان کے مسئلہ پر امریکی پالیسی سے متفق نظر آتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں افغانستان کے اندر بھارتی کردار چین اور پاکستان کے لئے تشویشناک ہے اور اب امریکہ کو اندازہ ہے اور اس لئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر پاکستان اور بھارت سے بات چیت کرتے نظر آرہے ہیں۔بات پاکستان کی نوکر شاہی اور پولیس کی ہورہی تھی اصل میں ہماری ریاست کی سیاست میں نوکر شاہی کا کردار معاملات خراب کررہا ہے۔ یہ حکمرانوں کو قانون قاعدے سے مبرا رکھتے ہیں۔ ان کی خواہشات کو کسی بھی تناظر میں انکار نہیں ہونے دیتے۔ ہماری قومی اسمبلی کے لوگ کسی ایسے معاملہ پر جو ملکی مفاد کا ہو، فقط قرارداد منوا کر اپنے خول میں بند رہتے ہیں بقول محسن؎

عجب لوگ بستے ہیں تیرے شہر میں محسن

مرمت کانچ کی کرتے ہیں، پتھر کے اوزاروں سے

اس سے اندازہ لگا لیں کہ ہم کتنے بالغ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).