قوم کا درد رکھنے والا بادشاہ


 گئے گزرے زمانوں میں ایک ملک ہوتا تھا۔ وہاں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ہر طرف سکون اور امن دیکھ کر بادشاہ آرام سے انگڑائی لیتا اور ڈٹ کر کھانا کھاتا اورشام کو چہل قدمی کے لیے نکل جاتا۔ ایک دن بادشاہ نے واک کا روٹ بتائے بغیر بدل دیا۔ راستے میں کئی بدبودار جوہڑ نظر آئے، صدیوں کا ٹھہرا ہوا پانی اسے دکھائی دیا۔ سوکھے درخت، اجڑی گھاس، فاقوں سے کمزور جانور اور عجیب جھکی جھکی گردنوں اور کمروں والے انسانوں کا نظارا ملا۔بہت پریشان ہوا۔ پروٹوکول کے درباریوں سے پوچھا تو انہوں نے سر جھکا لیے، بھلا بادشاہ کو یہ بتلاتا کون کہ سرکار روٹ تو آپ نے خود بدلا تھا، بغیر بتائے بدلا تھا۔

بادشاہ اداس رہنے لگا۔ اب اس نے محل کی دوسری کھڑکیاں کھول کر ان میں سے بھی جھانکنا شروع دیا۔ سوائے اس ایک کھڑکی کے، وہ خوش کن نظارے اسے کہیں نظر نہیں آتے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ سب کچھ ٹیلرڈ تھا۔ اس کے وزیر اس کے لیے مصنوعی سین بناتے رہے اور وہ خوش ہوتا رہا۔ پھر اس نے چہل قدمی کا روٹ روزانہ بدلنا شروع کر دیا۔ ایک دن وہ اکیلا نکلا، سب محافظوں کو ڈانٹ کر بھگایا اور لوگوں کا ڈائریکٹ انٹرویو کرنے چل پڑا۔ سوکھے سڑے جسموں اور میلے کپڑوں والے کبڑے لوگ اس سے یرک کے ادھر ادھر ہو جاتے۔ بڑی مشکل سے چھ سات لوگوں سے بات کر پایا۔ سب نے ایک ہی جواب دیا، بادشاہ سلامت، اب برداشت نہیں ہوتا۔ بوجھ کافی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں کہتے تھے، یا شاید الفاظ ان کے پاس نہیں تھے۔

وہ محل واپس آیا اور سرکاری تھنک ٹینک کو بلا لیا۔ تمام دانشور مقررہ وقت پوری تام جھام کے ساتھ حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے مسئلہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے پوچھا کہ یہ لوگ کیوں اتنے پریشان اور بیمار دکھتے ہیں، ان کا پرابلم کیا ہے، پھر یہ کسی سوال کا جواب بھی نہیں دیتے، بس یہی کہتے ہیں کہ اب برداشت نہیں ہوتا، وزن کافی زیادہ ہے۔ دانشوروں نے ایک کمیٹی بنائی اور بادشاہ سے ایک ماہ کا وقت لیا۔ بادشاہ نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ ایک ماہ بعد کمیٹی کے نمائندے بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ سرکار، مسئلہ اس قدر نازک ہے کہ آپ ہم سب کو چھ ماہ کا وقت اور کھانے پینے کا سامان دے کر پہاڑوں پر پہنچانے کا بندوبست کیجیے، کمیٹی وہاں اس مسئلے پر غور کرے گی اور ٹھیک چھ ماہ بعد اس مسئلے کا حل بتائے گی۔ بادشاہ نے کچھ دیر سوچا، پھر خچروں پر چھ مہینے کا سامان خورونوش لادا اور دانشوروں کو اللہ کے سپرد کیا۔

وہ لوگ بال بچوں سمیت گئے تھے۔ چھ ماہ ناچتے گاتے ختم کیے اور واپس آ کر دربار میں حاضری دی۔ بادشاہ نے پوچھا کہ ہاں بھئی کیا نتیجہ نکالا۔ انہوں نے قرارداد پیش کر دی۔ وہ کہنے لگے کہ جہاں پناہ لوگوں پر یہ بوجھ ان کے سائے کا ہے۔ وہ ہر وقت اپنے سائے کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ سفارش ہے کہ وہ اپنے سائے سے آزاد ہوں ورنہ انہیں یہ بوجھ مار ڈالے گا۔ بادشاہ کو بات سمجھ میں آ گئی۔ اس نے اعلان کر دیا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر تمام لوگ اپنے سائے سے آزادی حاصل کر لیں، دوسری صورت میں نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ لوگ گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگنے لگے، کوئی لیفٹ کو بھاگتا، کوئی رائٹ کی طرف بھاگتا، کوئی چاروں سمتوں میں دوڑتا رہتا لیکن سایہ تھا کہ ہٹ کر ہی نہیں دیتا تھا۔ اس بھاگ دوڑ سے وہ اور زیادہ ہلکان ہو گئے۔ اب بادشاہ واک کو نکلتا تو لوگ عجیب افراتفری میں نظر آتے، پسینے بہہ رہے ہوتے، ہر کوئی بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہا ہوتا، ندی پر پانی اڑانے والی بالیاں بھی سائے سے پیچھا چھڑانے کے چکروں میں تھیں لیکن کوئی بھی یہ کام کر نہیں پا رہا تھا۔ جب ایک ہفتہ گزار کے بادشاہ نے دیکھا کہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے بڑھ گیا ہے تو تھنک ٹینک کو بلایا اور ان کی خوب کلاس لی۔ انہوں نے تین دن کا ٹائم مانگا۔ بہت مشکل سے بادشاہ مان گیا۔ تین دن بعد کمیٹی کی سفارشات یہ تھیں کہ اس بار انہیں صرف ایک سو بیس دن کی قلیل مدت درکار ہے۔ حکومت انہیں اس مختصر عرصے کے لیے کسی فائیو سٹار ہوٹل میں رکوا دے تاکہ وہ میٹنگ وغیرہ آرام سے کر سکیں۔ ان میں سے ایک بولا کہ ایک سو بیس دن میں اگر ہم مسئلہ حل نہ کر سکے تو ہم سب کو خاندان سمیت فیل خانے میں ڈلوا دیا جائے۔ ہاتھی روندیں یا ہڈیاں توڑیں، بس یہ ایک سو بیس دن آخری ہوں گے۔ بادشاہ اتنی تھوڑی مدت اور ایسی بڑی سزا دیکھ کے پھر تیار ہو گیا۔ سب کے لیے کمرے بک ہوئے، وہ دن رات جکوزی اور سوئمنگ پول میں گزارتے، منی بار سے چاکلیٹیں اڑاتے، من پسند بوفے کھاتے، ایک آدھ گھنٹے کی میٹنگ کرتے اور باقی وقت چوسر کھیلتے رہتے۔ یہ وقت بھی گزر گیا۔ اب کے میٹنگ کنندگان باہر آئے اور خوشی خوشی دربار میں پیش ہو گئے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ ہاں بھئی کیا نتیجہ نکالا، کہنے لگے: مائی باپ، آپ کا اقبال بلند، عوام کا اصل مسئلہ روشنی ہے۔ کوئی ایسا بندوبست کیجیے کہ رات کو چراغ نہ جل سکیں اور دن کو روشنی نہ ہو۔ جب یہ سب نہیں ہو گا تو سایہ بھی نہیں ہو گا، سایہ نہیں ہو گا تو بوجھ نہیں ہو گا، بوجھ نہ ہوا تو ستے خیراں۔

بادشاہ کو بات سمجھ آ گئی۔ اس نے ملک بھر میں تیل کی سپلائی بند کر دی، دن کی روشنی میں باہر نکلنے پر بھی پابندی لگا دی۔ جو شخص بھی روشنی میں چلتا نظر آتا اسے پچاس درے مار کے ترنت واپس بھیج دیا جاتا، اور وارننگ دی جاتی کہ آئندہ سائے کے ساتھ نظر آئے تو تمہاری ہی فلاح و بہبود کی خاطر تمہیں بے سایہ کرنے کا بندوبست سرکار خود کرے گی۔ رات کو ویسے ہی روشنی کا سین آف ہو گیا تھا۔ نہ تیل ہوتا نہ چراغ جلتا نہ سائے ہوتے نہ رادھا ناچتی۔ بادشاہ اب مطمئن تھا کہ وہ عوام کا بوجھ کم کر چکا ہے۔ عوام ویسے ہی سائے کے بغیر رہ رہ کر اتنے سیانے ہو گئے تھے کہ دور سے بھی کوئی بادشاہ نما نظر آ جاتا تو گردنیں اکڑا کر جعلی مسکراہٹ چہرے پر سجا لیتے۔ بادشاہ کو اپنے دانشوروں کا یہ فیصلہ اتنا پسند آیا کہ ان سب کو ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے دو چار ملکوں کی سیر پر بھجوا دیا۔

بعد میں پابندیاں کچھ نرم ہوئیں تو عوام دن کو نکل آتے لیکن سکون سے اپنے کام کرتے رہتے۔ نہ کسی کے منہ سے نکلتا کہ ہائے اب برداشت نہیں ہوتا، نہ کوئی کہتا کہ بوجھ بڑھ گیا ہے، سب خوشی خوشی اپنے دھندوں میں مست رہتے۔ کسی کو تھکن کا احساس بھی ہوتا تو وہ یاد کر لیتا کہ ضرور اس کا سایہ اسے تنگ کر رہا ہو گا اور وہ بغیر چراغ کی راتوں کا سوچتا تو اس کی تھکن ویسے ہی اڑ جاتی، وہ سب کا بھلا سب کی خیر مانگنے لگ جاتا۔

تھنک ٹینک والوں نے اس قرارداد کو صلح کل کا نام دیا۔ آج بھی بچوں کو سلیبس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس طرح ایک تاریخی ہیرو نے ایسے یاد رکھے جانے والے فیصلے کیے جن سے عوام بھی باغ باغ ہوئے اور خواص کی تو موجیں ہی لگ گئیں۔ بے شک وہ ایمان دار اور قوم کا درد رکھنے والا بادشاہ تھا، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔

(ترک کالم نگار عزیز نیسن کا ایڈوپٹڈ ورژن)

(بشکریہ روز نامہ دنیا)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain