کیا بات کہنے کی اجازت ہے؟


میں اس معاشرے کا حصہ ہوں جہاں روایت سے ہٹ کے سوچنا ،طے شدہ باتوں پہ سوال اٹھانا اور اپنا راستہ خود تلاشنا ایک جرم ہے۔جرم بھی ایسا کہ جس کی سزا ذہنی اذیت سے شروع ہو کے موت تک جا سکتی ہے یہ معاشرے میں ایک ایسی گھٹن کو جنم دیتا ہے جو چیخ کی صورت اختیار نہیں کرتی بلکہ اپنے اظہار کے لیے چور دروازے تلاشتی ہے۔جو مکالمے کی بجائے اختلاف کو پنپتی ہے،جہاں اپنی رائے کا حتمی ہونا انا کا مسئلہ ہوتا ہے،جہاں غلطی ماننا عزت کم ہونے کے مترادف ہوتا ہے،جہاں ہٹ دھرمی کسی دوسرے کو جگہ دینے پہ رضامند نہیں ہوتی۔جہاں نفرت کے لیے صرف اتنا ضروری ہے کہ اس کا نشانہ بننے والا آپ کی سوچ اور نظریے سے اختلاف رکھتا ہے۔جہاں سوچ کے دروازے پہ دستک دینے والوں کو گستاخ گردانا جاتا ہے۔جہاں سچائی کو تلاشنے والے مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں۔جہاں بہتری اور اصلاح کے لیے تبدیلی کے خواہش مندوں کو باغی مانا جاتا ہے۔

دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ ہر اس بات ،ہستی اور روایت کو تقدس کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کرتا ہے جس کے بارے میں یہ خیال ہو کہ اس کے بدلنے سے سماج کے خیالی قائم کردہ معیارات پہ ضرب پڑے گی۔برتری کا زعم خطرے میں پڑ جائے گا۔صرف ان موضوعات پہ بات کرنا منع نہیں ہے جو مقدس سمجھے جاتے ہیں بلکہ اس کے دائرہ کار میں وہ سب بھی شامل ہے جسے معاشرہ ٹیبو بنا کر پیش کرتا ہے جسے سات پردوں میں چھپا کے قالین کے نیچے کا کوڑا بنا دیتا ہے۔یہ اس خاموشی کو جنم دیتا ہے جو ہر پل، ہر لمحہ چیختی ہے لیکن کسی کو بھنک تک نہیں پڑنے دیتی۔ جہاں طے کردہ اصولوں اور عقائد پہ بات کرنا گستاخی ہو وہاں خاموش باغیوں کا ایسا گروہ جنم لیتا یے جو صحیح راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ راستہ چنتا ہے جو نہ ان کے لیے بھلائی کا باعث ہوتا ہے نہ سماج کے لیے۔

دوسری طرف انہی عقائد اور نظریات کی ترویج کے لیے ایسے گروہ بھی وجود میں آتے ہیں جو اپنے قائم کردہ نظریات اور حدود پر بات کرنا تک جرم خیال کرتے ہیں اور اپنے گرد ایسا دائرہ بنا لیتے ہیں جو نہ تو کسی کو آمد کی دعوت دے سکتا ہے نہ ہی اس بات کا موقع فراہم کر سکتا ہے کہ بات چیت کے ذریعے کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے۔اسی وجہ سے عدم برداشت کو فروغ ملتا ہے۔ نظریات گڈ مڈ ہونے لگتے ہیں، کوئی بھی چیز اپنے درست مقام پر نہیں ہوتی۔توازن بگڑتا ہے تو بد صورتی تشکیل پاتی ہے جو ہر چیز کے حسن کو مسخ کر دیتی ہے۔انتہائیں جنم لیتی ہیں، اعتدال عنقا ہو جاتا ہے۔پھر الجھن اور ابتری کی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے جہاں کچھ بھی سمجھنا سمجھانا بہت مشکل ہے۔وہاں معاشرے کی بہتری کے لیے کوشاں لوگوں کے لیے بھی بات کرنا مشکل ہوتا ہے انہیں مصلحت کی چادر میں خاموشی کی بکل مار کے بیٹھنا پڑتا ہے۔جو ایسا نہیں کرتے انہیں بڑی قربانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس معاشرے میں بھلائی کیونکر پنپے گی جہاں انتہاﺅں پر موجود لوگ بات کرنے اور سننے کو رضامند نہ ہوں اور وہ جو اعتدال کا راستہ ڈھونڈتے ہیں وہ مصلحتاً خاموش ہوں یا خاموش کروا دیے جاتے ہوں۔

اس صورتحال میں کیا یہ ممکن ہے کہ سچائی کے ساتھ اس معاشرے میں جیا جا سکے؟اپنی رائے کے اظہار کے حق کو بلا خوف و خطر استعمال کیا جا سکے؟اس خوف میں مبتلا ہوئے بغیر کہ مجھے باغی یا گستاخ سمجھ لیا جائے گا سوال کیا جا سکے؟کیا یہ ممکن ہے کہ تقدس کے میناروں پہ سجے نظریات سے اختلاف ہونے کے باوجود محفوظ زندگی گزاری جا سکے؟ایک عام آدمی کے لیے ایسا کرنا مشکل ہے۔یہاں صاحب اختیار لوگ بھی ایسا نہیں کر پاتے۔ایک سیاستدان کا انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں پاکستان میں بنائے گئے ایک قانون کے متعلق سوال تھا۔سوال دو مختلف تناظر میں دہرایا گیا ہر مرتبہ جواب یہی تھا کہ اس پہ کوئی واضح رائے نہیں دی جا سکتی۔ کیا اپنی رائے کا اظہار نہ کرنے کی یہ وجہ ہو سکتی ہے؟ووٹ بینک کمزور پڑ جائے گا یا یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مخالفت کا وہ طوفان اٹھ کھڑا ہو گا جس کا سامنا کرنا ممکن نہیں ہے۔مصلحت کی یہ خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ اپنی واضح رائے کا اظہار کرنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔جو لوگ سچ کو سچ کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ان معاملات کے بارے میں بات کرتے ہیں جن پہ بات کرنا سختی سے منع ہے۔معاشرہ انہیں ذہنی طور پہ پریشان کرنے سے لے کر موت تک پہنچانے میں بھی گریز نہیں کرتا۔

کیا اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ خوف کی اس فضا سے نکلا جائے؟کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو غلط بات کو غلط صرف اس وجہ سے نہیں کہہ پاتے کہ سماج میں ان کے لیے جگہ تنگ ہو جائے گی انہیں وہ نام نہاد عزت و احترام نہیں ملے گا جو سماج میں بقا کے لیے ضروری ہے۔اگر خوف کی یہ فضا جس نے ہر سچائی اور واضح بات کو اپنی دھند میں لپیٹ رکھا ہے معدوم ہو جائے، دوسرے کی بات سننے اور اختلاف کے باوجود اسے برداشت کرنے کی روایت پیدا ہو جائے۔تو کیا ہمیں ہر دوسرے دن ظلم کی داستان کا سامنا کرنا پڑے گا،کیا پھر بھی ہمارے قلم نوحے لکھیں گے ،کیا تب بھی زندگیاں اختلاف رائے کی بھینٹ چڑھیں گی؟نہیں بالکل بھی نہیں وہ سماج جہاں اختلاف برداشت کرنے کی روایت ہو ،جہاں لوگ دوسروں کی رائے کا اختلاف کے باوجود احترام کریں ،جہاں جینے اور جینے دو کا اصول سب اصولوں پہ حاوی ہو وہاں صحت مند سوچ جنم لیتی ہے۔وہ معاشرہ مثبت تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ اس تبدیلی کے لیے ایک عرصہ درکار ہے لیکن سفر کا جاری رہنا ضروری ہے۔وہ خوف جو خاموشی میں پنپ رہا ہے جس نے سالوں میں معاشرے میں تعفن پیدا کیا ہے وہ جانے میں اور اس کے اثرات ختم ہونے میں وقت لگے گا لیکن تب تک اپنی بات کہنے کا اور دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ تو پیدا کیا جا ہی سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).