اسلام اور سیکولرازم


 ہماری نسل جس نے 90 کی دہائی میں کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ان کو یاد ہو گا کہ یہ زمانہ تھا جب ہم نے یہود و نصاریٰ کی مدد سے شروع کئے گئے جہاد میں روس کو شکست دے کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور سیکولرازم کے بت کو پاش پاش کر دیا تھا۔ جہاد کا جھنڈا کشمیر کی تحریک آزادی میں پھڑپھڑا رہا تھا۔ تعلیمی اداروں میں اکثر جہادی رہنماﺅں کی تقریریں سننے کو ملتی تھیں جن میں بڑی شدمد سے لادینیت کو چیلنج کیا جاتا تھا اور اس عزم کا اعادہ کیا جاتا تھا کہ لادینیت کے جس بت کو ہم نے روس کی شکل میں توڑا ہے اب بھارت میں بھی ایسا کریں گے۔ اس دور میں سوشلزم اور سیکولرازم کا ترجمہ لادینیت ہی کیا جاتا تھا۔ مذہبی جماعتوں کے طلبہ ونگز نے ہماری اس سوچ کو کافی پختہ کر دیا تھا لیکن ہم ٹھہرے انسان تو ہمارا دماغ بھی سوالات کرنے اور سوچنے سے نہ رک سکا ۔

یہ سیکولرازم آخر کیا بلا ہے جس کا نام لیتے ہی ہمارا ایمان لرز جاتا ہے؟ جب تھوڑا مطالعہ بڑھا اور سوچ میں وسعت آئی تو اس بات کا ادراک ہوا کہ سیکولرازم کی تشریح جو عوام کی عقل میں دانستہ گھسائی گئی اس کے پیچھے ایک خاص مقصد تھا تاکہ رائے عامہ کو ہموار کر کے جہاد کی فیکٹری کے لئے ایندھن کا بندوبست کیا جا سکے۔ اس کے پیچھے جو ذہن کارفرما تھے اصل میں وہ خود ہی اس سیکولرازم کے علم برادر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے معاشروں کی تشکیل اسی رہنما اصول پر ترتیب دی ہوئی ہے جہاں پر معاشرے کے ہر شخص کو بلا لحاظ رنگ و نسل یا مذہب تمام بنیادی حقوق حاصل اور مکمل شخصی آزادی حاصل ہے۔ آج انہی غیر مسلم اور ہماری تشریح کے مطابق لادین معاشروں میں مسلمانوں کو وہ مذہبی آزادی حاصل ہے جو خود مسلم معاشروں میں بھی نہیں ہے جب ہم نظریات کے یہ دو رخ دیکھتے ہیں تو ذہنوں میں یہ سوال کلبلاتا ہے کہ دو میں سے صحیح کون ہے؟  اور اسلام سیکولرازم کی تشریح کیسے کرتا ہے؟

ہمارے علما کا کہنا ہے کہ سیکولرازم کا مطلب ایک مادر پدر آزاد معاشرہ ہے جس میں ہر کسی کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے اور جہاں پر ریاست کا کوئی مذہب نہیں۔ جب میں اس پر سوچتا ہوں تو ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ٹھیک ہے ان ریاستوں کی حکومتوں کا کوئی مذہب نہیں لیکن ان ملکوں میں ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی تو ہے اور یہی اصول ہمیں دنیا کی پہلی مسلم ریاست مدینہ میں نظر آتا تھا جو ہمارے پیارے نبیﷺ نے قائم کی تھی۔ اس ریاست کے بنیادی اصولوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مدینہ کی ریاست میں ہر مذہب کے لوگو ں کو اپنے مذہب کی مکمل آزادی حاصل تھی اور ریاست کا انتظام احسن طریقے سے انجام پا رہا تھا اور یہ ریاست ایک معاشرتی معاہدہ پر قائم تھی جو اس ریاست کے شہریوں نے آپس میں کیا تھا اگر اس بنیادی اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو لگتا ایسا ہے کہ ریاست کے کچھ بنیادی رہنما اصول ہوتے ہیں جن پر وہ قائم ہوتی ہے اور وہ شہریوں کے مذہبی عقائد میں مداخلت نہیں کرتی ہے اور یہ اصول ہی آپ کو مغربی ممالک کارفرما نظر آتا ہے

مجھے اپنی ناقص عقل کے مطابق لگتا ہے کہ ہمارے علما اور اہل دین کو چاہیے کہ سیکولرازم کو اسلام سے ہم اہنگ کریں۔  اور ہمارے مسلم معاشروں کو زیادہ سے زیادہ مذہبی روادار بنائیں جس سے اسلام کی اصل روح دنیا کے سامنے اجاگر ہو گی اور دنیا کواسلام کے ان پہلوﺅں کو بھی سمجھنے کا موقع ملے گا جو کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی میں دب کر رہ گئے ہیں اور مشعال خان جیسے نوجوان جو سوچتے اور سوال کرتے ہیں اس تعصب کی بے رحم موجوں کی نذر نہ ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).