پانامہ کا وزیرِ اعظم اور بالزاک کا بڈھا گوریو


پانامہ کیس کا فیصلہ سننے کی زحمت بھی میں نے نہیں اٹھائی۔ اس لیے کہ میں اب سے پہلے بالزاک کا ناول بڈھا گوریو پڑھ چکا تھا۔

فیصلہ آرہا ہے، فیصلہ آرہا ہے —- ہر طرف غلغلہ تھا۔ سب کی طرح مجھے بھی اس کا انتظار تھا لیکن جب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تو مجھے ناول یاد آگیاورنہ میں دیکھ رہا تھا کہ لوگوں کا کیا حال ہو رہا ہے۔ کئی دفتروں میں حاضری کم ہوگئی، ایک دوست نے تصویر لگائی کہ آغا خان ہسپتال کے ڈاکٹرز لاؤنج میں کھانے کے وقت ڈاکٹر حضرات ٹیلی وژن کے گرد حلقہ زن ہوکر بیٹھ گئے۔ کئی اسکولوں، کالجوں میں طلبا نے اپنے لیے جلدی چھٹّی کا اہتمام کرلیا۔ دوسری طرف بہت سے لوگ اپنے اپنے معمولات میں اسی طرح مصروف رہے۔ میں کیا کرتا؟ مجھے کوئی بے تابی نہیں ہوئی۔ یہ فیصلہ بڈھا گوریو کے صفحات پر پہلے سے محفوظ تھا۔ اب سے کوئی دو سو برس پہلے لکھ دیا گیا تھا۔

”کیا پیرس سے باہر بھی لوگ یہ کہانی سمجھ سکیں گے؟ یہ بات ذرا مشکوک ہے….“ ناول کے پہلے صفحے پر مصنف نے خود ہی شک ظاہر کردیا ہے۔ مگر وہ اس کو ڈراما قرار دیتا ہے جس کی زد میں ہم جیسے دور بیٹھے بھی آ جاتے ہیں:

”آج کل ادب کی خستہ حالی کے زمانے میں یہ لفظ ڈراما اس بُری طرح گھِسا دیا گیا ہے اور اس کی شکل ایسی تڑ مڑ گئی ہے کہ اب یہ لفظ ہی بدنام ہو کے رہ گیا ہے، مگر اسے یہاں استعمال کرنے کے علاوہ چارہ بھی کیا ہے۔ کچھ اس لیے نہیں کہ یہ کہانی لفظ کے اصل معنوں میں ڈرامائی ہے لیکن شاید اسے پڑھتے ہوئے لوگوں کے آنسو نکل آئیں – اکیلے میں بھی اور دوسروں کے سامنے بھی ….“

یہ شان دار ناول مجھے اردو میں یاد آ رہا ہے۔ برسوں پہلے میں نے اس کا اردو ترجمہ پڑھا تھا جس پر محمد حسن عسکری کا دیباچہ تھا۔ عسکری صاحب نکتہ رس نقاد تو تھے، بے مثال مترجم بھی تھے۔ جب سے میں نے ان کا موبی ڈک کا ترجمہ پڑھا ہے، اس ناول کو اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں میں پڑھنا میرے لیے ممکن نہیں رہا، اصل انگریزی میں بھی نہیں۔ اس ترجمے پر سیدہ نسیم ہمدانی کا نام چھپا ہوا ہے مگر قرائن سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ عسکری صاحب کا قلم بھی لگا ہوگا۔ اصل سے ملا کر دیکھنے اور ترجمہ پسند کرنے کا ذکر انھوں نے دیباچے میں بھی کیا ہے، ممکن ہے مشورہ یا کسی قدر نظرثانی بھی کی ہو۔ ترجمہ بہرحال منھ سے بولتا ہے۔ بڈھے گوریو کا ڈراما جیسے اب بھی چاروں طرف جاری ہے اور اس کے کردار میرے چاروں طرف کٹھ پتلیوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔

پیرس کے ایک سستے سے بورڈنگ ہاؤس میں رہنے والا مفلس طالب علم راستیناک، بڈھے گوریو کو بدمست اور عیاش شخص سمجھتا ہے جس کی آنکھیں حد درجہ دل کش اور اعلیٰ درجے کی سوسائٹی میں گھومنے پھرنے والی خاتون کو دیکھ کر چمکنے لگتی ہیں۔ رفتہ رفتہ ہم اس صدمے سے دوچار ہوتے ہیں کہ وہ دلکش خاتون اس بڈھے کی محبوبہ نہیں، بیٹی ہے اور اپنی بیٹیوں کی خاطر نہ صرف وہ اپنا مال ودولت لٹا کر غربت اور تنہائی کی زندگی قبول کرلیتا ہے بلکہ اس کی محبت میں دیوانگی بڑھ کر قربانی کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ اولاد ہی اس کے لیے سب کچھ ہے اور اس کی خاطر وہ ذلّت بھی گوارا کرلیتا ہے۔

دوسری طرف گوریو کی بیٹیاں اپنے شوہروں کی خاطر اس سے روپے اینٹھتی رہتی ہیں ، وہ چاندی کے پرانے برتن پگھلا کر رقم حاصل کرتا ہے اور ان کے حوالے کردیتا ہے جب ان کی حرص و ہوس ختم نہیں ہوتی۔ پھر بیٹیاں اس کے ساتھ یہ سلوک بھی کرتی ہیں کہ بوڑھا باپ آخری دم پر ہے اور بیٹی اپنے گھر دعوت چھوڑ کر وہاں نہیں آسکتی؛ بوڑھے باپ کی قبر پر راستیناک دوچار آنسو گرا کر خود بھی دعوت میں شرکت کے لیے چل پڑتا ہے۔

معمولی سی تفصیلات کے ذریعے بالزاک جس طرح معاشرے کے نقوش اجاگر کرتا ہے اور انسانی صورت حال کے حوالے سے اور اس کے باکمل انداز کے بارے میں عسکری صاحب نے لکھا ہے:

” بالزاک کا اصل موضوع ہے انسانی فطرت اور اس کی الم ناک پیچیدگیاں، یا یوں کہیے کہ انسانی فطرت میں نیکی اور بدی، شیرینی اور تلخی، بلندی اور پستی، بے غرضی اور خود غرضی کا ایک عجیب امتزاج کہ ایک کو دوسرے سے الگ کرنا مشکل ہے بلکہ بعض دفعہ نیکی بدی بن جاتی ہے اور بدی نیکی۔ دراصل بالزاک کا تفکّر اسی کشمکش میں مبتلا ہے کہ نیکی اور بدی کا فرق کیا چیز ہے؟ جب وہ کو صحیح نتیجہ مرتب نہیں کرسکتا، یا پھر یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ ان دونوں میں امتیاز کرنا ممکن نہیں، تو اس کا تجسّس کلیت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ انسانی معاملات کی نیرنگیاں دیکھ دیکھ کر ابلیسانہ ہنسی ہنسنے لگتا ہے۔ لیکن اس ہنسی کے پیچھے یہ حسرت بھی پوشیدہ ہوتی ہے کہ انسان آخر اس سے بہتر کیوں نہ ہو سکا….“

اپنی اولاد کی خاطر دولت کا انتظام کرتے کرتے بڈھا گوریو مجھے اس وقت اس لیے نہیں یاد آیا کہ وہ پیغمبرانہ شان حاصل کر لیتا ہے بلکہ اس بات پر کہ وہ سب کچھ دیکھتے جانتے ہوئے بھی دیکھتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ اپنے آپ کو تباہی کے گڑھے میں گرائے چلا جا رہا ہے۔ وہ الم ناک بھی ہے اور قابل ملامت بھی۔ وہ حرص اور طمع کے ایک عجیب و غریب جال میں پھنستا جا رہا ہے جو مجھے اس ناول کے کسی کردار سے بھی زیادہ واضح اور نمایاں نظر آتا ہے۔ عسکری صاحب اس دیباچے میں لکھتے ہیں:

” راستیناک جس سماج میں رہتا ہے وہاں خدا، مذہب، اخلاقیات سب کو ترک کر یا گیا ہے۔ یہ زر اندوزی کی دنیا ہے۔ کامیابی یہاں کی دیوی ہے جس کی قربان گاہ پر نیکی، راست بازی، صداقت ،خلوص، محبت سب کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہے۔ اس سماج میں انسان کی خود پرستی بالکل بے لگام ہوگئی ہے، ہر قسم کی حد بندیاں انسان کے راستے سے دور ہوگئی ہیں اور اب وہ دوسروں کو روندتا ہوا جتنی تیزی سے چاہے اپنی اخلاقی موت کی طرف بڑھ سکتا ہے….“

بالزاک کے ناولوں کا نفسیاتی ڈراما اور معاشرتی جزرسی میں خوب سراہ سکتا ہوں لیکن اس کے پس منظر میں کارفرما پیچیدہ مالیاتی نظام پوری طرح سمجھ میں آئے بغیر بھی اپنی اہمیت کا احساس دلا دیتے ہیں۔ ناول کے پرانے پینگوئن ایڈیشن کے صفحات اب پیلے، بھورے پڑ گئے ہیں اور میں کتاب کو واپس الماری میں رکھنے کی ہمّت نہیں کر پا رہا۔ اپنے چاروں طرف دیکھتا ہوں تو جیسے جناب موصوف گوریو ہنستے ہنستے راستیناک بن گئے۔ گوریو اپنی بیٹی سے عشق کرنے لگا تھا اور چاہتا تھا دنیا کی تمام قدرومنزلت اس کے قدموں پر نچھاور کردے۔ مگر گوریو کے پاگل پن کی سزا پورے معاشرے کو کیوں ملے اور لوگ حق دق ہوکر کسی فیصلے کے انتظار میں گھڑیاں گنتے رہیں، جو سنایا بھی جا چکا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ بالزاک کا حوالہ پانامہ کیس فیصلے میں بھی درج ہوگیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کی نااہلی کا ارادہ کرتے ہوئے بالزاک سے منسوب ایک فقرہ نقل کیا۔ یہ فقرہ 70ءکی دہائی میں بہت زیادہ پڑھے جانے والے ناول ”دی گاڈ فادر“ کے مصنف ماریو پوزو نے دہرایا ہے۔ گاڈ فادر پر بڑی کامیاب فلم بھی بنی جس نے مارلن برانڈو کی وجہ سے بہت شہرت حاصل کی اور مجرم تنظیم مافیا کا تصور عام کردیا جو آج کی سیاست کے رنگ ڈھنگ دیکھتے ہوئے ہمارے لیے پوری طرح برمحل معلوم ہوتا ہے۔ پوزو نے ناول کے آغاز میں لکھا: “Behind every great fortune there is a crime”.، ان کی دولت کو دیکھتے ہوئے صرف ایک جرم نہیں بلکہ جرائم کا پورا سلسلہ۔

وزیراعظم صاحب کے دفاع میں آپ یہ استدلال پیش کرسکتے ہیں کہ بالزاک نے یہ کہا ہی نہیں تھا۔ بلکہ ان الفاظ میں نہیں۔ تحقیق کے نام پر دور کی کوڑی لانے والوں نے سراغ لگایا کہ ”بڈھا گوریو“ کا اصل فقرہ یوں نہیں تھا بلکہ اس طرح ہو سکتا ہے:

 The secret of a great fortune made without apparent cause is soon forgotten, if the crime is committed in a respectable way.

مجھے یاد آیا کہ نقاد جیمز سدرلینڈ نے بھی انیسویں صدی کے ادب کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فقرہ بالزاک کے حوالے سے دہرایا ہے۔ مگر اس معاملے کی چھان بین کرنے والوں نے حوالوں کی پوری لین ڈوری لگا دی ہے کہ فقرہ کہاں سے چلا، کہاں پہنچا اور کس طرح بدلتا رہا۔

اس کے باوجود فقرے کی دھار دیکھیے۔ اس کے بعد مزید کسی فیصلے کی گنجائش رہ جاتی ہے؟

”بڈھا گوریو“ کا جو نسخہ میرے پاس ہے اس پر تاریخ درج ہے۔ اس کو پڑھے ہوئے اتنے سال ہوگئے اس وقت میرا جی چاہتا ہے کہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوکر پاکستانی فلموں کے مشہور ادھیڑ عمر ہیرو کی طرح رندھی ہوئی آواز میں چیخوں -”جج صاحب! میرے اتنے سال واپس کردیجیے، جج صاحب!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).