تاریخی پانامہ فیصلے میں تاریخ کہاں ہے؟


(ہما بٹ)۔

میں کوئی کالم نگار نہیں اور نہ ہی کوئی لکھاری۔ میں نے اس سے پہلے کبھی قلم بھی نہیں اٹھایا۔ ایک عام پاکستانی جو حالاتِ حاضرہ پر اتنی ہی نگاہ رکھتی ہے جتنا کہ اخبار یا ٹی وی مجھے بتاتا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں سے ہم پانامہ کیس کے بارے میں سن اور پڑھ رہے تھے۔ کبھی سماعتیں جاری ہیں۔ سپریم کورٹ میں تو کبھی ٹی وی پر بیٹھ کر تجزیہ نگار اپنی رائے سے ہمیں آگاہ کر رہے ہیں۔ آخر کار فروری 23 کو سپریم کورٹ نے سماعتیں مکمل کی اور دونوں فریقین کے دلائل کے بعد فیصلے کو محفوظ کر لیا گیا۔ لیکن خیر کوئی مصلحت ہو گی۔ یہ سرکاری لفاظی مجھے سمجھ میں نہیں آتی۔

دو دن پہلے پھر ٹی وی پر خبر چلی کہ فیصلہ 20 اپریل کو آئے گا اور ایسا فیصلہ ہو گا کہ قوم برسوں یاد رکھے گی۔

صبح سے ٹی وی لگا کر سامنے بیٹھی رہی اور رات بھر سوچتی رہی کہ آج ملک کے وزیراعظم کو نیند نہیں آرہی ہو گی۔ کیونکہ فیصلہ ان کے بارے میں تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے مجھے اپنے رزلٹ کا انتظار ہوتا تھا اور اس رات نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہوتی تھی۔ لیکن وزیراعظم نے کہا کہ وہ 19 اپریل کو معمول کے مطابق اپنے سرکاری فرائض انجام دیتے رہے۔ بڑی حیرانگی ہوئی اور تعجب بھی کہ رزلٹ جیسا بھی ہو امیدوار پریشان تو ہوتا ہے۔ چاہے وہ کوئی اول آنے والا ہو یا پھر فیل ہونے والا، خیر یہ الگ بحث ہے۔ شاہد وہ میری طرح جذباتی نہیں ہوں گے یا پھر انہیں اپنے جذبات پر مکمل قابو ہو گا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار 20 کروڑ کر رہے تھے۔ اور 20منٹ میں 540 صفحوں کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ ایک عام پاکستانی ہونے کے ناطے مجھے اس فیصلے پر اعتراض ہے۔ 2 فاضل حج صاحبان نے فیصلہ سنایا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں ہے۔ باقی 3 حج صاحبان نے کہا کہ اگلے 7 دنوں میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جائے اور پھر 60 دنوں میں فیصلہ سنایا جائے۔ تو محترم سپریم کورٹ کے فاضل ججوں سے سوال ہے کہ جن 2 ججوں نے جن دلائل اور دستاویزات پر فیصلہ دیا ہے۔ تو باقی 3 کے پاس کیا اور دلائل اور دستاویزات تھے۔ جو ان کا فیصلہ مختلف ہے۔ پانامہ لیکس ایک خود ثبوت تھا۔ ثبوت کو ثابت کرنے کے لیے بھی دلائل چاہیے ہوتے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ ہوتے دیکھا ہے۔ خیر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کا بھی وہی فیصلہ ہو گا۔ جو سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کا ہے۔ ایک اور نیا لالی پاپ ہم غریب عوام کو دیا ہے اگلے 67 دنوں کے لیے۔

میری ناقص رائے یہ کہتی ہے کہ ہمارے ملک کو قیادت کی یا کسی گڈ گورننس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں ’’تربیت‘‘ کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں آپ ڈاکخانے میں چلے جائیں یا پھر کسی یونیورسٹی میں اور یا پھر عدالتوں میں ہی چلے جائیں۔ ہر اختیار، ہر طاقت، اپنا غلط استعمال کر رہی ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے اور جو کوئی بولے یا آواز اٹھانے والا نہیں ہے اور جو کوئی بولے یا آواز اٹھائے تو اس کو انصاف ملنا تو دور کی بات اس کی آواز چھین لی جاتی ہے اور دوست احباب بھی اسے یہ کہنے لگتے ہیں چھوڑو بھائی دفعہ کرو۔ ان طاقتوں کو معاف کرو اور بولو غلطی ہوئی ہے کہ آپ کو آئینہ دکھا دیا۔ کیونکہ تمہیں حق ملتا تو دور کی بات ہے۔ تمہارے جائز حقوق بھی تم سے چھین لیے جائیں گے۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم انفرادیت کا شکار ہو کر سوچتے ہیں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ قومی اور گروہی مفاد کیا ہوتا ہے۔ ہماری انتظامیہ کو تقسیم کرو اور حکومت کرو کا سبق دیا جاتا ہے اور وہ انہیں یاد بھی رکھتی ہے۔

آخر میں فاضل جج صاحبان کو بس یہی کہنا چاہوں گی کہ خوامخواہ قوم کو مزید 67 دن کا انتظار کروا رہے ہیں۔ آج ہی کہہ دیتے کہ وزیراعظم صادق اور امین ہیں۔ کیونکہ67 دنوں بعد جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے بھی یہی کہنا ہے۔ ہمیں اب آپ سے کوئی امید نہیں ہے اور نہ ہی ہم رکھتے ہیں۔ عوام خاموش ضرور ہیں لیکن بیوقوف نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).