پیاری بیٹی، تم میرا فخر ہو


وہ دن لد گئے جب بیٹی کے پیدا ہونے پر باپ سمیت پورے خاندان کے منہ پر بارہ بجے ہوتے تھے، باپ کو ننھی پری پیاری تو بڑی لگتی تھی مگر وہ جو جہان بھر کی کھا جانے والی نظریں ہوتیں تھیں اسے اندر ہی اندر مار دیتی تھیں، وہ باپ بیچارہ کھل کر یہ اظہار بھی نہیں کر پاتا تھا کہ جس نرم ملائم سی گلابی سی ننھی جان کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہے وہی اس کی نئی زندگی ہے۔ وہ اس بیٹی کی مدھم سی دھڑکن کو اپنی ہتھیلیوں پر محسوس کرتا جاتا اور سوچتا جاتا کہ جب چاچے مامے یہ بولیں گے کہ ”ویسے تو بڑا دبنگ بنا پھرتا تھا مگر لڑکی ہی پیدا کر سکا“ تو وہ اس کا کیا جواب دے گا۔ اور پھر معصوم جان کے کان میں اذان دینے سے پہلے ہی ماں جی کی آواز گونجتی ”چل پتر کوئی نہیں اللہ سے دعا کر، اگلی واری بیٹا دے گا“۔

یہ تو نہیں کہتی کہ ایسے مناظر اب بالکل بھی نہیں ہوتے ہوں گے، یہ دعوی بھی نہیں کہ اب بھی بیٹی پیدا کرنے پر ماں کو ڈیلیوری کے فوری بعد طعنے سننے کو نہیں ملتے ہوں گے، نہ کسی ایسی خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ الٹراساونڈ میں بچے کی جنس ”بیٹی“ دیکھ کر ماں کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ جاتے ہوں گے اور باپ ڈاکٹر سے ”بچہ ضائع“ کرنے کے فیس پوچھتا ہوگا، اور یہ تو خیر سے یقین ہے کہ آج بھی پانچ بیٹیاں پیدا کرنے والی بیوی کو دھمکی دی جاتی ہوگی کہ ”لگتا ہے بیٹے کے لیے دوسرا ویاہ کرنا پڑے گا“۔

مگر اب ماحول بدل رہا ہے، بیٹیاں رحمت بھی ہیں اور نعمت بھی، اب مائیں قادر غوری جیسے بیٹے پروان چڑھا رہی ہیں جو بڑے فخر اور اہتمام سے بیٹیوں کا پورا ہفتہ مناتے ہیں۔ قادر غوری پیشے سے صحافی ہیں مگر فی الحال ہمیں ان کے صحافی ہونے نہ ہونے سے غرض نہیں وہ اپنی بہت ہی پیاری بیٹی کے بہت ہی ”مغرور ابو“ ہیں۔ انہیں لگتا ہے ان کی چُھٹکی زمانے بھر میں ان کی پہچان بنے گی درست لگتا ہے۔ وہ ” ہماری بیٹیاں ہمارا فخر ” کے نام سے پورا ہفتہ منا کر مجھ سمیت ساری بیٹیوں کو یاد دلاتے ہیں کہ ہم سب لڑکیاں کتنی اہم ہیں۔ جمیل الدین عالی نے معرکتہ الارا نظم لکھی

ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں
قوموں کی عزت ہم سے ہے

اے دور نو تیری قسم، آگے ہی جائیں گے قدم
ہم تیری صف تیرا علم، تیری حقیقت ہم سے ہے

کیا ہی بہترین بیانیہ ہے، عالی جی نے تو آج سے تیس سال قبل نئے دور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہم بیٹیوں کا حوصلہ بڑھایا، پھر اس قوم کو بے نظیر بھٹو، سبین محمود، ارفع کریم، ملالہ یوسف زئی، شرمین عبید، منیبہ مزاری، نرگس موال والا، ثمینہ بیگ جیسی کچھ ایسی بیٹیاں بھی ملیں جنہیں دیکھ کر ہر باپ نے خواہش کی کہ مولا میرے گھر بھی بیٹی دے۔

کبھی غور سے دیکھیں، کیسے فخر سے ملالہ کے والد کینیڈین وزیراعظم کے ساتھ کھڑے تھے، اچھا چلیں آپ کے لیے ملالہ متنازعہ ٹھہری، تو سنیں اس ملک کے اچھے اچھوں کے لیے مشکل ہے کہ بل گیٹس کیا اس کے سیکرٹری سے ہی ملاقات کرلیں مگر ذرا وہ تصویر دیکھیں کیسے شان سے ارفع کریم اور ان کے والد بل گیٹس کے ساتھ پوز دے رہے تھے۔ کون باپ نہیں چاہے گا کہ اس کی بیٹی ثمینہ بیگ کی طرح سنگلاخ پہاڑون کا سینہ چیرتی ہوئی ماونٹ ایورسٹ کی چوٹی کو زیر کرے۔ یا پھر کس کی خواہش نہ ہوگی کہ بیٹی ہو اور وہ بھی پروفیسر نرگس ماول والا جیسی جو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کشش ثقل کے ثقیل راز کھول رہی ہے۔

کسی بھی عورت کی زندگی میں پیدائش کے بعد کسی مرد سے جو سب سے پہلا رشتہ اور رابطہ بنتا ہے وہ اس کا باپ ہوتا ہے۔ بچیاں بڑی ہوتی جاتی ہیں اور وہی باپ اس بچی کے لیے ”سپر ہیرو“ بن جاتے ہیں، باپ بچی کا سہارا بنتے بنتے اسے اپنا یقین بخش کر خود سے بھی زیادہ توانا کرسکتے ہیں، یقین جانیں، یہ جو لڑکیاں عزت وطن، تکریم ملت ہیں یہ وہی بیٹیاں ہیں جن کے والد نے انہیں اپنا غرور بخشا، جن کے والد نے انہیں یہ نہیں کہا کہ ” یہ تو میری بیٹی نہیں بیٹا ہے“ بلکہ یہ یقین دلایا کہ ” بیٹی تمہی میرا فخر ہو“۔

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi