ملفوظات مولانا لدھیانوی پر تبصرہ


مکالمہ کبھی بھی ہو، کہیں بھی ہو، کسی سے بھی ہو۔ اس کا ایک فائدہ بہرحال مسلم ہے اور وہ یہ کہ اس سے مصالحت کے دروازے کھلے رہتے ہیں، جذبات کسی حد تک قابو میں رہتے ہیں اور اگر گفتگو کا سلسلہ چلتا رہے تو بہت امکان رہتا ہے کہ فریقین کسی حل یا کم از کم نرم روی کی طرف بڑھ جائیں۔ ’ہم سب‘ پر مولانا احمد لدھیانوی صاحب کے خیالات پڑھے۔ انہیں کی زبانی ان کے تدبر اور معاملہ فہمی، صلح جوئی و نرم روی اور پر امن بقائے باہم کی حکایتیں بھی پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ چشم ما روشن دل ما شاد ۔

مولانا نے جو کچھ فرمایا ان میں سے بہت سی باتیں لائق ستائش ہیں اور کئی باتیں معنی خیز۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ قابل تعریف باتوں کو سراہا جائے اور جو باتیں معنی خیز بلکہ یوں کہا جائے ذومعنی ہیں انہیں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

ایمانداری سے کہوں تو مولانا کے بارے میں میرا نظریہ جس طرح کا تھا ان کے خیالات پڑھ کر مجھے تعجب ہوا۔ ان کی بہت سی باتیں مثبت تھیں اور شیعوں کا ذکر انہوں نے کافی نرمی سے کیا جبکہ انٹرنیٹ پر موجود ان کے ویڈیو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شیعہ فرقے کے بارے میں وہ کافی متشدد رائے رکھتے ہیں۔ مولانا نے شیعہ سنی لڑائی کو سیاسی لیڈروں کے سر ڈال دیا۔ یہ انہوں نے بہت اچھا کیا۔ بس ایک ذرا سی بات رہ گئی اور وہ یہ کہ اگر سیاسی لیڈر شیعوں کو بہکا رہے تھے کہ مولانا لدھیانوی صاحب ان کے دشمن ہیں تو اس بہکانے کے لئے ان کو کہیں کوئی نہ کوئی بنیاد تو ملی ہوگی۔ مثلا مولانا کا کوئی بیان، کوئی سرزنش نما دھمکی یا پھر نیک نیتی سے کی گئی کوئی بازپرس۔ بہرحال کوئی نہ کوئی تل تو رہا ہی ہوگا جس سے تاڑ بنایا گیا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مولانا صاحب کے حوالے سے کچھ ہو ہی نہ اور سیاسی لیڈر ایک پوری برادری کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جائیں کہ مولانا ان کے دشمن ہیں۔

یہ جان کر اچھا لگا کہ مولانا چٹکیوں میں فساد رکوا دیتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ محرم کے پیش نظر انتظامیہ فکر مند تھی۔ میں گورنر کے پاس گیا اور کہا کہ میں مرکزی امام باڑوں کے علاقے سے گزر کر آیا ہوں اس سے سمجھ جائیے کہ شہر میں امن ہے۔ سبحان اللہ، قربان جانے کو جی چاہتا ہے مولانا پر۔ کتنی ہوشیاری سے کتنی بڑی بات کہہ دی۔ گویا مولانا فرما رہے تھے کہ اگر میں اس شرپسند علاقے سے محفوظ نکل آیا تو سمجھ لیجیے کہ شہر میں امن ہے۔ مولانا یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ شیعہ سنی دونوں محلوں میں حالات پرسکون ہیں لیکن انہوں نے مرکزی امام باڑوں کے علاقوں سے محفوظ نکل آنے کی جو پھلجھڑی چھوڑی اس کا جواب نہیں۔

بہت سی اچھی اچھی باتوں کے بعد مولانا فرماتے ہیں کہ ناموس صحابہ کا قانون بن جائے تو ہمارا ہدف حاصل ہو جائے گا۔ بالکل ٹھیک فرمایا لیکن جمہوریت میں صرف آپ کا ہی ہدف کیوں حاصل ہو؟ کیا فریق ثانی کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے اور اپنی ثقافت کے تحفظ کے لئے قانون سازی کروا سکے؟ کیا بریلوی، خانقاہی اور ہاں قادیانی یا پھر ہندو بھی ایسے ہی حقوق رکھتے ہیں یا نہیں؟ اگر کسی کو مولانا اور ان کی جماعت کا کام ناپسند ہے تو اسے حق ہے کہ وہ قانون سازی کی مدد سے ان کی جماعت پر پابندی لگوانے کی کوشش کرے؟ اگر ایسا کچھ ہوگا تو مولانا کو ناگوار تو نہیں گذرے گا نہ؟

مولانا نے اپنے بیان میں مسلکی جھگڑے کی پشت پناہی کا ٹھینکرا بھارت اور ایران پر ڈال دیا۔ مولانا کی بات اگر ذرا دیر کو مان بھی لیں کہ ایران پاکستان کی شیعہ تنظیموں کی فنڈنگ کر رہا ہے تو لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں کو پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ کیا مولانا کو یہاں پر اس مخصوص ملک کا نام نہیں لینا چاہیے تھا جس کی فنڈنگ سے مولانا سمیت تمام باخبر افراد واقف ہیں۔ ہاں اگر مولانا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ایران شیعوں کے قتل عام کے لئے لشکر جھنگوی اور اس جیسی تنظیموں کو مدد دے رہا ہے تو یہ عمدہ انکشاف ہے۔

مولانا فرماتے ہیں کہ ہماری منشا بس اتنی سی ہے کہ صحابہ کی توہین نہ ہو۔ مولانا کی اس بات سے کون اختلاف کرے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پوری کی پوری عزاداری کو صحابہ کی توہین سمجھ لینا غلط ہے۔ جو کوئی اس قسم کی گفتگو کرتا ہے اس پر کارروائی ہو نہ کہ ایک عمومی رائے قائم کر لی جائے۔ یہاں پر بتا دوں کہ ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ی نے فتوی دے کر صحابہ کرام اور امہات المومنین میں سے کسی کی بھی شان میں نامناسب کلمات کہے جانے کو پہلے ہی حرام قرار دے دیا ہے۔

مولانا لدھیانوی صاحب کو، مجھے، آپ کو ہر ایک کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ انسان جمہوری فطرت پر پیدا کیا گیا ہے۔ ہر ایک کو فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی گئی ہے اور علم پر تاکید کی گئی ہے ایسے میں یہ سوچنا کہ میں ساری دنیا کو ویسا کر دوں جیسا میں خود ہوں یہ ماچس کی تیلی سے سمندر سکھانے کی کوشش کرنے جیسا ہے۔


میں آ گیا ہوں اب فکر کی کوئی بات نہیں: مولانا محمد احمد لدھیانوی

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter