افغان فوجی اڈے پر حملہ


شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف کے ایک فوجی اڈے پر طالبان نے حملہ کیا ہے جس کے نتیجہ میں 140 فوجی جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کا اندیشہ ہے۔ یہ حملہ فوجی اڈے میں واقعہ مسجد میں نماز جمعہ کے فوری بعد کیا گیا۔ دھماکہ کرنے کے بعد حملہ آور کینٹین کی طرف بھاگ گئے اور مورچہ بند ہو کر لڑائی شروع کردی۔ افغان فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ لڑائی کئی گھنٹے جاری رہی اور اس میں دس حملہ آور جنگجو مارے گئے ہیں ۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ شمالی افغانستان میں طالبان ٹھکانوں پر سرکاری فوج کے حملوں اور ان میں کئی سینئر طالبان لیڈروں کی ہلاکت کا انتقام لینے کے لئے کیا گیا تھا۔ افغان فوج کے خلاف یہ اب تک کیا جانے والا سب سے شدید حملہ ہے جس میں کثیر تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ افغان فوج اور طالبان کے درمیان جھڑپوں اور لڑائی کا سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے۔

مزار شریف کے اس فوجی اڈے پر بین الاقوامی فوج کے افسر بھی تعینات ہوتے ہیں ۔ یہاں پر افغان فوجیوں کو تربیت دینے کا مرکز بھی قائم ہے۔ تاہم ایساف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملہ میں کوئی غیر ملکی فوجی ہلاک نہیں ہؤا۔ اس حملہ کی وجہ سے طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مصالحت اور کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو مزید نقصان پہینچے گا۔ افغانستان کی حکومت اگرچہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور امن قائم کرنے کے عزم کا اعلان کرتی ہے لیکن دونوں فریقوں کے درمیان بد اعتمادی کی فضا موجود ہے اور وہ ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے جنگ بندی کا کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا۔ اس حملہ کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی اور غیر ملکی فوجوں کے نکلنے کا راستہ مسدود ہو جائے گا۔ طالبان مذاکرات کے لئے یہی شرط عائد کرتے ہے ہیں کہ وہ غیر ملکی فوجوں کی اپنے ملک میں موجودگی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ تاہم اس عذر کے باوجود یہ جنگ دراصل افغانستان کی قبائلی جنگ ہے جس میں مختلف گروہ حصہ دار ہیں۔

سابق صدر اوباما کے دور میں افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد کم کرکے دس ہزار کے لگ بھگ کر دی گئی تھی۔ ان کا زیادہ تر کام افغان فوجیوں کی تربیت ہی ہے۔ تاہم طالبان کی طرف سے جارحیت میں اضافہ کی وجہ سے امریکہ افغانستان میں فوج میں اضافہ کرنے پر غور کرسکتا ہے۔ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک افغانستان کے بارے میں کسی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن افغانستان مین داعش کا اثر و رسوخ بڑھنے پر امریکہ کو شدید تشویش ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران امریکہ نے ننگر ہار کی پہاڑیوں میں دس ہزار کلو وزنی سپر بم پھینکا تھا جو کئی کلو میٹر علاقے کو تباہ کردیتا ہے۔ امریکہ کا مؤقف تھا کہ یہ بم افغانستان میں داعش کے ٹھاکانوں کو تباہ کرنے کے لئے پھینکا گیا تھا۔

صدر ٹرمپ داعش کے خلاف حتمی جنگ کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ اس لئے افغانستان میں داعش کی موجودگی اور طالبان کی طرف سے جنگی کارروائیوں میں اضافہ کی وجہ سے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ایک بار پھر امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی میں اضافہ کرے یا وہاں زیادہ شدت سے فضائی حملوں کا آغاز کیا جائے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لئے بھی شدید تشویش کا سبب ہوگی کیوں کہ طالبان کی طرف افغانستان کے کسی بھی علاقے میں کارروائی دیکھنے میں آئے، اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کہتا رہا ہے کہ اس کا طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کوششوں کے باوجود طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات شروع کروانے میں ناکام رہا ہے۔ اس میں پاکستان کی عدم دلچسپی سے زیادہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کو طالبان پر اس قدر اثر رسوخ حاصل نہیں ہے جس کے دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان میں متعدد طالبان لیڈروں کی موجودگی اور آمد و رفت کی وجہ سے افغانستان میں حملوں پر پاکستان کو جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ طالبان کی کارروائیوں اور افغانستان میں بھارت کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصہ میں پاکستان میں ہونے والے حملوں کا الزام افغانستان میں مموجود گروہوں پر عائد کیا تھا جس کی وجہ سے اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہؤا ہے۔

کل مزار شریف میں ہونے والا حملہ اگر طالبان کی طرف سے جارحیت میں اضافہ کا اعلان ہے تو اس کے افغانستان کی صورت حال کے علاوہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے علاوہ روس اور چین کی طرف سے افغان طالبان کو امن کے لئے آمادہ کرنے کی کوششیں بھی بار آور نہیں ہو پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali