بابا میرا فخر ہیں


فیس بک پہ ایک ٹرینڈ نظر سے گزرا ’’بیٹیاں ہمارا فخر ہیں‘۔ میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں اپنے بابا کا فخر ہوں یا نہیں لیکن یہ یقین سے ضرور کہہ سکتی ہوں کہ وہ میرا فخر ہیں۔کبھی کبھار سوچتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ کہ میری پرورش محبت اور خیال کے کیسے حصار میں ہوئی ہے کہ جہاں نفرت کا گزر تک نہیں۔میرے بابا محبت ہی محبت ہیں۔وہ مجھے بے تحاشا جانتے ہیں لیکن کبھی کوئی ایسی بات یا فرمائش ہو جو سب کی نظر میں عجیب ہو تو بڑی سہولت سے مسکراتے ہوئے کہتے ہیں اس لڑکی کی سمجھ ہمیں آج تک نہیں آئی کسی اور کو کیا آئے گی۔یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ جو دل میں آیا ہے مت گھبراﺅ تجربہ کر کے دیکھو۔مجھے اپنی بات کہنا انہوں نے سکھایا ہے۔فرد کی آزادی کیا ہوتی ہے یہ میں نے ان سے سیکھا ہے۔وہ ہم سب بہن بھائیوں کے دوست ہیں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے کبھی مجھ سے سختی سے بات کی ہو، غصہ ہوئے ہوں۔ میں من مانیاں کرتی ہوں۔اجازت نہیں لیتی صرف بتاتی ہوں کہ اب یہ کرنے جا رہی ہوں وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں خود دیکھو ،سمجھو جو درست لگے کر لو۔یہ وہ فقرہ ہے جو میرے اندر وہ احساس ذمہ داری پیدا کرتا ہے جو مجھے ہر کام کرنے سے پہلے اس کا تجزیہ کرنے اور متوقع نتائج پر غور کرنے پہ مجبور کر دیتا ہے پھر کھلنڈرے پن کی جگہ ذمہ داری لے لیتی ہے۔اور وہ بات جس پہ انہیں تھوڑا بہت اعتراض ہواس کا جواب ہوتا ہے جیسے تمہاری مرضی کیونکہ وہ جانتے ہیں صاف لفظوں میں منع کیا گیا تو طوفان کھڑا ہو جائے گا۔اس ’’میری مرضی‘’ میں ان کے تمام خدشے سمٹے ہوتے ہیں جو مجھے محتاط کرتے ہیں۔ انہوں نے آزاد پرندے کو اتنی محبت دی ہے کہ وہ اڑان جہاں کی بھی بھرے خیال گھر کا ،ان کی محبت اور پیار کا ہوتا ہے۔

میں نہیں جانتی تھی کہ آنسو دل پہ گرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔لیکن جس دن میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے مجھے سمجھ آگیا کہ دل پہ گرنے والا آنسو کیا ہوتا ہے دل چاہا کہ جو اس کا سبب ہیں ان کا منہ نوچ لوں، بابا کا ہر دکھ چن لوں، وقت بدل ڈالوں پھر دیکھا تو جانا ان کو دکھ دینے والے بھی ان کے اپنے تھے اتنے پیارے تھے کہ جتنی میں۔عجیب بات ہے دکھ بھی تو اپنے اور پیارے ہی دیتے ہیں ناں۔ وہ قربانی دیتے ہیں لیکن اتنی خاموشی سے کہ پتہ ہی نہیں چلتاان لوگوں کو بھی جن کے لیے وہ قربانی دیتے ہیں۔ان کی محبت کا دائرہ کار مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا اور شاید نہ کبھی سمجھ آسکے گا۔ان میں وہ مروت اور رکھ رکھاو ہے کہ وہ زیادتی کو بھی اتنے پرسکون انداز سے برداشت کرتے ہیں کہ گمان تک نہیں گزرتا کہ وہ دکھ میں ہیں۔انہیں انسانوں کی عزت نفس اپنی ذات کے غرور سے زیادہ پیاری ہے۔

وہ اس بات پہ خوش ہوتے ہیں کہ میں وہ کرتی ہوں جو دل کرنا چاہے۔ کہتے ہیں یہ ٹھیک ہے دل کی سنتی ہے۔ کبھی میں پریشان ہوں، خاموش ہوں، تو امی سے کہتے ہیں اسے پوچھو کیا مسئلہ ہے بات کیوں نہیں کرتی۔جب کبھی میں ہمت ہارنے لگتی ہوں تو امی اور بابا کا سمجھانے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے، امی میری بات کو سن کر اور اگر مسئلہ خود ساختہ ہو تو نظر انداز کر کے مجھے سمجھا دیتی ہیں کہ انسان بنو۔ بابا کوئی ایسی بات کرتے ہیں یا مثال دیتے ہیں کہ جس میں بین السطور مسئلے سے نمٹنے کا اشارہ ہوتا ہے نہ کہ بھاگ جانے کا۔میں جب غیر محتاط انداز سے بات کرتی ہوں۔طے شدہ باتوں پہ سوال اٹھاتی ہوں ،بے لاگ بولتی ہوں ،جو انسان میری بات پہ بے ساختہ ہنس کے اتنا کہتا ہے لوگوں میں محتاط رہا کرو وہ میرے بابا ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ وہ مجھے کہنے سے منع نہیں کرتے لیکن یہ ضرور بتاتے ہیں کہ لوگ دیکھ کے بات کیا کرو۔وہ میرے گھر کے واحد فرد ہیں جو میری تحریر پڑھتے بھی ہیں اور رائے بھی دیتے ہیں۔

ان کی امی سے محبت عجیب انداز کی ہے۔گھر میں داخل ہوتے ہی وہ ان کا پوچھتے ہین کہ وہ کہاں ہیں۔اگر وہ موجود نہ ہوں اور واپسی میں تاخیر ہو تو بے چین ہوجاتے ہیں کہ کب لوٹیں گیاور جب وہ میرے ننیھال گئی ہوں یا اپنی دوست سے ملنے کے لیے گئی ہوں تو جتنے دن وہ واپس نہیں آتیں گھر واپسی پہ ان کا ذکر سب سے پہلے اور گفتگوکے دوران رہتا ہے۔زیادہ دن گزر جائیں تو یاد میں بھی شدت آجاتی ہے۔ ایک مرتبہ میں نے انہیں تنگ کرنے کے لیے گانا گایا ’چاندنی رات میں امیدوں کے دیپ جلائے تم نہیں آئے‘ وہ بے تحاشا ہنسے اور کہا تمہاری ماں کے بغیر گھر سونا لگتا ہے۔میں نے پوری زندگی میں اپنے والدین کو لڑتے نہیں دیکھا۔اگر کوئی مسئلہ ہو بھی جاتا ہے تو خاموشی ہوتی ہے اس وقت تک جب تک اس کا حل نہ نکل آئے۔ گھر کا سربراہ ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی حکمرانہ انداز نہیں اپنایا وہ سب کو اپنی بات کہنے کا،زندگی کے حوالے سے فیصلے لینے کا اختیار دیتے ہیں۔میں اتنا بولتی ہوں لیکن اس کے باوجود میں نے کبھی ان سے نہیں کہا کہ مجھے ان سے بے تحاشا محبت ہے۔میرا وجود ،میری سوچ ،میرا خیال ہر احساس ان کی وجہ سے ہے۔یہ جو بدلحاظی کے باوجود مروت کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے یہ مجھے ان سے وراثت میں ملی ہے۔خوف سے نکل کر دنیا کا سامنا کرنے کی جو ہمت ملی ہے ان کی وجہ سے ہے۔میرا حوصلہ ،اعتماد،ہمت ،برداشت کرنے کی صلاحیت سب انہی کی وجہ سے ہے۔میری غلطیاں میری اپنی وجہ سے ہوتی ہیں لیکن ان کو ماننے کا حوصلہ ان کی وجہ سے ہے کہ مجھے طعنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ ان کی محبت مجھے سمیٹ لے گی۔وہ میری ذات کا غرور میرا فخر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).