کمیونسٹ مینی فیسٹو کی 168 ویں سالگرہ


\"masoodکمیونسٹ مینی فیسٹو سنہ اٹھارہ سو اڑتالیس (1848) میں فروری کے مہینے میں ’ انقلابِ فروری ‘ کے دنوں میں پیرس سے شائع ہوا تھا ، جسے اشتراکیوں کی تنظیم کے ایما پر کارل مارکس اور فریڈک اینگلز نے مل کر لکھا تھا ۔ اس پمفلٹ کا پہلا جملہ یہ تھا :” یورپ کے سر پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے۔ کمیونزم کا بھوت “۔

سماجی اور سیاسی طور پر وہ زمانہ یورپ کی تاریخ کا زبردست ڈرامائی اتھل پتھل کا زمانہ تھا۔ فروری سے جون 1848 تک کا انقلابی دور خصوصی نوعیت کا تھا کیونکہ اس زمانے میں محنت کش طبقے کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں بورژوا طبقے کے لئے ایک بہت بڑا اور سخت چیلنج بن گئی تھیں اور طبقاتی کشمکش بڑھ کر تصادم کی شکل اختیار کر گئی تھی۔

مارکس نے لکھا : \” محنت کشوں کے سامنے سوائے اِس کے کوئی راستہ ہے ہی نہیں کہ یا تو وہ ماریں یا مر جائیں۔ 22 جون کو محنت کشوں نے پہلی بڑی انقلابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں اس جدید سماج کے دونوں طبقے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے۔ یہ ایک معرکہ تھا جس میں بورژوا طبقے کو زندگی اور موت کا سامنا تھا ۔ یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا جہاں بورژوا طرزِ معاشرت کو نابود کرنے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ ہونا تھا۔ جب انقلاب کا آغاز ہوا تو کارل مارکس اور اس کی بیوی جینی کو بیلجیا سے گرفتار کر لیا گیا جہاں انہوں نے 1845ء میں پناہ لی تھی، اور انہیں ایک نئی جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔

کمیونسٹ مینی فیسٹو انیسویں صدی کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی دستاویز ہے، جو اپنے فلسفیانہ ، نظریاتی اور سیاسی مفہوم و معانی کے اعتبار سے انقلاب کی شاہراہ پر ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنے حجم میں اختصار کے باوصف یہ تحریر کارل مارکس کے فلسفیانہ، تاریخی اور سیاسی طرزِ فکر اور تجزیہ کاری کی معجز نما مثال تھی۔ یہ تحریر مارکس کی تاریخ فہمی اور ہم عصر تاریخی حقائق پر اس کی بے پناہ دسترس کی عکاس تھی ، جس میں بتایا گیا تھا کہ سرمایہ داری سماج کو کس لئے اور کس طرح تبدیلی کے عمل سے گزرنے \"Karl_Marx_001\"کی ضرورت ہے۔ اس تحریر کا مرکزی نقطہ وہ ہے جسے بعد میں تاریخ کے جدلیاتی عمل سے موسوم کیا گیا۔ اس نقطہ نظر کے مطابق تاریخ کا ارتقا دو طبقاتی کشمکش اور تحرک کا نتیجہ ہے جس میں ایک طبقے کے ہاں ملکیت کا تصور پیش پیش ہوتا ہے جو ایک پیداواری قوت کہلاتی ہے جب کہ دوسرا طبقہ سماجی صورتِ حال میں اپنی روز افزوں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوتا ہے۔ اور محنت کشوں کے حالات اور ان کے زیرِ استعمال آلات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ یہ دونوں پیداواری قوتیں ہوتی ہیں جن کی صورتِ حال مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ لیکن جب پیداواری صورتِ حال محنت کش طبقے کے حالات کو بہتر بنانے میں رکاوٹ بنتی ہے تو ارتقائی ترقیاتی عمل رک جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پیداواری عمل پر دباؤ بڑھ جاتا ہے تو پیداواری عمل میں اصلاح اور تبدیلی کی ضرورت ناگزیر ہو جاتی ہے۔

مارکس اور اینگلز کے نزدیک محنت کش انسان اہم ترین پیداواری قوت ہے۔ یہ زندہ انسانوں کی محنت کی طاقت ہے جو اقدار سازی کرتی ہے۔ لیکن پیداواری عمل کی نوعیت ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ایک طبقہ جو پیداواری سرمائے کا مالک ہے ، دوسرے طبقے کا ، جو محنت کش ہے ، استحصال کرتا ہے جس کی وجہ سے پوری انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ بن گئی ہے ۔

مارکس کی آواز مین اس قدر قوت تھی کہ وہ دردمند انسانوں کے دلوں کو چیرتی ہوئی چار دانگِ عالم میں پھیل گئی۔ اقبال نے مارکس کو جس طرح خراج تحسین پیش کیا وہ اس احترام کی گواہی ہے جو مارکس کے لئے اقبال کے دل میں تھا۔ وہ کہتے ہیں :

آں کلیمِ بے تجّلی ، آں مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمر و لیکن در بغل دارد کتاب

اقبال نے مارکس کو خدا کا بھیجا ہوا کلیم اور مسیح تو نہیں کہا لیکن اسے محنت کش یعنی مزدور طبقے کا وہ رہنما قرار دیا ہے جس کے پاس پیام بروں کی طرح ایک کتاب تھی۔ کون سی کتاب ؟ سرمایہ۔ داس کیپیٹال۔

اس مختصر تحریر میں ’سرمایہ ‘ کے اقتباسات پیش کرنا ممکن نہیں۔ ایک تو اس لئے کہ یہ تحریر کمیونسٹ مینی فیسٹو کی سالگرہ کے حوالے سے لکھی گئی ہے اور دوسرے ’ بورژوازی اور پرولتاریہ‘ کی بحث سرمائے کے وسائل پر قابض استحصالی طبقے اور استحصالی طبقے کے ہاتھوں قربانی کا بکرا بننے والا وسائل سے محروم طبقہ پرولتاریہ کی کہانی ہے جو ’ داس کیپیٹال ‘ کے طویل ترین باب کا موضوع ہیں ، جسے چھیڑنا ایک لمبی بحث میں پڑنے کے مترادف ہے۔

مارکس کی فکر کسی ایک عہد کی فکر نہیں تھی بلکہ تاریخ کا وہ جدلیاتی عمل ہے جس سے کسی زمانے میں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آج کا بورژوا طبقہ پاکستان کی خصوصی صورتِ حال میں مقتدر طبقہ ہے جو وسائل پر قابض ہے اور قانون کے بجائے کرپشن ، دھونس ، دھاندلی اور مصنوعی مہنگائی کے ذریعے عوام کا استحصال کرتا ہے اور خود تو اللوں تللوں میں عیاشی کی زندگی بسر کرتا ہے مگر عوامیہ کو پیشہ ور مجرموں ، قاتلوں اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ مارکس پاکستان میں کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے اور جب تک پاکستانی معاشرے کی کرسی پسند استحصالی قوتیں ، بشمول مذہبی تاجر ، دہشت گرد اور کالعدم تنظیمیں اور مذہب کے نام پر عام آدمی کا استحصال کرنے والی قوتوں کا عوام کے خلاف گٹھ جوڑ برقرار رہے گا، مارکسیت بھی زندہ رہے گی اور وہ لوگوں کو ظلم کے خلاف ا±ٹھ کھڑے ہونے پر اکساتی رہے گی۔

اس موقع پر ان سب دانشوروں، سیاسی کارکنوں، کامریڈوں اور قلمکاروں کو سلام و احترام پیش کرنا ضروری ہے جنہوں نے اپنی زندگی انسانی صورتِ حال کو بہتر بنانے اور اقدار سازی میں لگا دی اور کارل مارکس کو مذہب دشمن کے بجائے بجا طور پر انسان دوست سمجھا۔ اور ذوالفقار علی بھٹو کو بھی سلام جنہوں نے ’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘ کا نعرہ لگایا اور پھر کامریڈ حسن ناصر کو سلیوٹ!

(بشکریہ کارواں –  ناروے(

مسعود منور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مسعود منور

(بشکریہ کاروان ناروے)

masood-munawar has 19 posts and counting.See all posts by masood-munawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments