مقدر، سکندر اور جلندر کی کہانی


جلندر بے چارے اس وقت سفر کی حالت میں تھے جب سکندر نے حالت حضر میں ان کے خلاف ایک خطرناک ترکیب سوجھی۔ اگرچہ وطن اصلی سے دوری کی وجہ سے جلندر کے حق میں شریعت کے احکام بھی نرم ہوئے تھے لیکن سکند ر پھر بھی اُن سے درگزر کرنے کیلئے تیار نہیں تھے اور پھر وہ بدنصیب دن بھی آ پہنچا جب جلندر کے طیارہ کو ہوائی اڈے پر لنگر انداز ہونے کی اجازت تک نہیں ملی، قریب تھا کہ طیارہ کریش کر جاتا لیکن کریش ہونے سے بال بال بچ  گیا۔

شاید قابل رحم جلندر نے اسی وقت کوئی نذر مانی تھی کہ مقدر نے ان کا ساتھ دے سکندر کے شر سے مامون کر دیا۔ خطرہ ٹل گیا تھا ، جلندر کو عافیت کے ساتھ ساتھیوں نے ریسیو کیا البتہ سکندر کے برے دن شروع ہونے لگے۔ یہ اپنے اہل وعیال سمیت عیش کدے سے نکال کرمضبوط سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اگرچہ ایسا کرنے پرانہیں عبرت کانشان بنانے کا اٹل فیصلہ ہو چکا تھا لیکن خدا کو منظور کچھ اور تھا ۔ ایک عرب دوست ملک کے اولیا کی دعاوں اور مساعی کے طفیل انہیں عبرت ناک موت کے چنگل سے رہائی ملی۔ موت سے نجات پانے کے علاوہ انہیں حجاز جیسی مقدس سرزمیں پر آٹھ سال تک اپنے خاندان کے ساتھ نہایت عزت و اکرام کے ساتھ مہمانی بھی نصیب ہوئی۔ مقدر کا سکندر جیسے لقب سے پہلے بھی وہ یاد ہوتے تھے البتہ اس دفعہ خطرناک بلاوں سے بچ کر یہ لقب ان کے نام کے ساتھ سابقہ بن گیا اور پھر مسرت کے وہ ایام بھی انہیں نصیب ہوئے جب انہیں وطن اصلی واپس آنے کی اجازت دی گئی۔

اُن کے چہرے پر مسکراہٹیں پیہم آنکھ مچولی کر رہی تھیں، دیار غیر سے آکر وطن اصلی میں دوبارہ سکونت نصیب ہوئی اور ماضی کی طرح اپنے مشیروں اور خدام کے وسیع حلقے میں گھل ملے ۔ سکندر کے ساتھ مقدر نے پھر یاوری کی اور انہیں تیسری مرتبہ بھی ایک وسیع علاقے کی سلطنت عطا کی گئی۔ تیسری مرتبہ سلطان بننے کے بعد چند خوشامدیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ مقدر کا سکندر کیا بلکہ مقدر ان کے ایک دفادار اور سگے بھائی بنے ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتے کہ جلندر کے خلاف موت کی پلاننگ کے باوجود وہ عبرت کا نشان نہ بن سکے بلکہ الٹا حجاز کی مبارک سرزمین پر آٹھ سال تک مہمانی نصیب ہوئی اور اس پر مستزاد یہ کہ عزت کے ساتھ وطن اصلی آکر تیسری مرتبہ بھی سلطان بنے ، وہ خود بتائیں’ مقدر کا بھائی اب نہیں تو پھر کب؟

اپنے مشیروں کی ایسی حوصلہ افزائیاں سن سن کر سکندر باقاعدہ طور پرایک پوٹو پیائی جزیرے Utopian island)) کا باسی بنتا رہا۔ وہ سوچنے لگا کہ اُن کے حاسد مشیروں نے انہیں صرف مقدر کا سکندر جیسا کمزور لقب دینے پر اکتفا کیا ہے، حالانکہ وہ مقدر کے سکندر ہیں اور نہ ہی مقدر کے سگے بھائی بلکہ خود مقدر اس میں حلول کرگیا ہے ۔ مقدر کو اپنے آپ میں تحلیل محسوس کرکے سکندر غضب کا دلیر بن گیا۔ اس تحلیل کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے جلندر کو ایک بار پھر للکارنے کی ٹھان لی اور کراچی میں نظربندی کے باوجود انہیں چھیڑنا شروع کیا۔ چونکہ مقدر جلندر کو بھی تھوڑا بہت رعایت دیا کرتا تھا یوں ایسی شرارت سوجھنے پر سکندر سے ایک مختصر عرصے کیلئے ہاتھ کھینچ کر جلندر کا ساتھ دے دیا اور پھر کیا ہوا کہ چند دن ہی گزرے تھے کہ وطن عزیز کا ڈی چوک ہزاروں افراد کی شکل میں سکندر کے خلاف امڈ آیا یہاں تک کہ اس جم غفیر کو متبرک بنانے کیلئے کینیڈا سے بھی پیر و فقیر ہزاروں عقیدت مندوں سمیت پہنچ گئے۔

ضعیف روایات سے قطع نظرانتہائی ثقہ راویوں اور مستند روایات (Reliable sources) کے مطابق یہ انسانی سمندر ایک سو چھبیس دن تک سکندر کے خلاف طغیانی میں مصروف عمل رہا۔ پھر بھی سکندر کو خدا جزائے خیر دے کہ جلندر کو ریلیکسیشن دینے پر حامی بھرلی ۔ طغیانی راتوں رات تھم گئی ۔ برسر بازار سب وشتم کرنے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور سڑکیں دوبار ٹریفک اور پیدل راہ گیروں کے لئے کھل گئیں۔ حالات سدھر گئے ، اضطراب کی جگہ سکون نے لے لی اور معمولات زندگی بحال ہونے لگے۔ غیبی ہاتھ پھر سکندر پر مہربان ہوگئے اور ان کے سر پر لٹکتی تلوار کوواپس آسمانوں پر لے گئے۔ عرصہ بعد جلندر ریڑھ کی ہڈی کاعلاج کرانے کی غرض سے بیرون ملک چلے گئے ۔ سال ڈیڑھ سال کا عرصہ بمشکل گزرا ہوا ہو گا کہ سکندر ایک اور شرارت کے نرغے میں آگئے، اگرچہ اب کی بار اس شرارت میں جلندر ملوث تھے اور نہ ہی ڈی چوک والے اشرار۔ بلکہ وسطی امریکہ جیسے دوردراز علاقے میں ان کے خلاف سازشیں سراٹھانے لگے ۔منہ پھٹ عالمی ذرائع ابلاغ نے ہزاروں ایسے نام اگلوادیئے کہ مجھے قرآن کریم کی”زلزال‘ جیسی مبارک سورة یاد آئی۔

اس انکشاف میں ان بدقسمت اشراف کے نام تھے جنہوں نے باپ اور دادا کی جائیدادوں کا ایک مناسب حصہ دیار غیر کی زمین میں چھپا رکھا تھا۔ ان ناموں کی فہرست میں سکندر کے خاندان کا نام بھی جلی حروف سے لکھا ہوانظر آرہا تھا ،جس کی آڑ لے کر ڈی چوک والوں نے پھر انگڑائیاں لینی شروع کیں جبکہ سکندر کا مقدر اونگھ کی آغوش میں چلا گیا۔ ہرطرف سے انہیں صلواتیں سننا پڑیں ۔ جولوگ سکندر کے تھوڑے بہت خیر خواہ تھے وہ پانامہ پانامہ کے گیت گاتے البتہ ڈی چوک جیسے پرانے اعدا نے پانامہ کو پاجامہ جیسے مترادف لفظ میں کنورٹ کرکے خوب کردار کشی پر اترآئے۔الزام میں چونکہ کافی وزن تھا ، سو ڈی چوک والے کے اورمعاون بھی نمودارہوئے جو یہ دلیل بھی دیتے کہ ’ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاناچاہیے‘۔بات بتنگڑ بنتی بنتی دور تلک نکل گئی اور سکندر وضاحت پر وضاحت پیش کرتا رہا۔اس معاملے میں قضاة وقت (ججز) حکم Mediators ٹھہرائے گئے جبکہ طرفین نے دستاویزات کے ڈھیرلگاتے دیئے۔سکندر نے اپنے تئیں قطری شیخ کا ایک مستند نامہ Recognised letter بھی قضاة کے سامنے پیش کیا جبکہ ڈی چوک والے فریق اور ساتھیوں نے تو اخبارات کے وہ تراشے بھی دکھائے جس میں سکندر بے چار ے کے تعزیتی بیانات چھپے تھے۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ قول فیصل سنایا تو گیا مگر ابہام کے ساتھ ’البتہ اس ابہام سے پھر بھی یہ مترشح ہوتا ہے کہ مقدر سکندر سے مزید اکتا گیا ہے ۔ اس ابہام  کو بنظر غائر دیکھ کر یہ نتیجہ ہم اخذ کر سکتے ہیں کہ سکندر آئندہ مقدر کا سکندر بھی نہیں کہلائے گا۔بے شک اس مبہم فیصلے کا لب لباب یہی نکلتا ہے کہ مقدر سکندر کا بھائی رہے گااور نہ ہی مقدر نمک کی طرح آئے دن سکندر میںتحلیل ہوگا‘۔البتہ یہ اور بات ہے کہ مٹھائیاں بانٹی جائیں گی ، بھنگڑے ڈالے جائیں گے اور شکرانے کے نوافل ادا ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).