میں ایک مخبوط الحواس بابا ہو چکا ہوں


سکول کے زمانے میں ایک حکایت پڑھی تھی کہ ایک کمر خمیدہ بڑھیا کو گلی کے بچے چھیڑتے تھے کہ اماں یہ کمان کہاں سے حاصل کی تو اس نے کہا کہ بیٹے جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو ایسی کمان تمہیں بھی مل جائے گی تب ہم اس حکایت پرہنساکرتے تھے اور اب یہی حکایت یاد آتی ہے تو رونا آتا ہے کہ بڑھیا نے بھی کیا پتے کی بات کی تھی ویسے اپنی عمر ابھی اتنی نہیں ہوئی کہ ہمیں وہ کمان خود بخود حاصل ہو جائے لیکن بڑھاہے میں اور کمانیں بھی ہوتی ہیں جو آپ نہ بھی چاہیں تو قدرت کی جانب سے مل جاتی ہیں اور ان میں ایک کمان مخبوط الحواسی کی ہے جو الحمد للہ مجھے مل چکی ہے بچپن میں ہی جب ہم مخبوط الحواس بوڑھوں کے قصے سنتے تھے تو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ یہ وقت ہم پربھی آئے گا

مثلاً مجھے چراغ دین دکاندار یاد آتا ہے جو ہر صبح اپنی دکان کھول کراس میں خود ہی جھاڑو دیا کرتا تھا جھاڑو دیتے ہوئے گرد اٹھتی تو اسے احساس ہوتا کہ یہ گرد اس کے کپڑوں پرپڑ رہی ہے وہ اسی جھاڑو سے اپنے کوٹ کی گرد صاف کرتا اورپھرسے صفائی میں مشغول ہو جاتا اسی بازار کے ایک صاحب نے چراغ دین کو کہا کہ بھئی تم اسی جھاڑو سے اپنا کوٹ بھی صاف کر لیتے ہو تو کیا یہ مناسب ہے تو چراغ دین نے جواب دیا تھا کہ چوہدری صاحب جھاڑو صفائی کے لئے ہوتا ہے نا۔ فرش نہ صاف کیا اپنا کوٹ صاف کر لیا تو اس میں حرج کی کیا بات ہے چراغ دین یوں تو نہایت ہوشیار کاروباری تھا لیکن آخری دموں تک اپنے کوٹ کو جھاڑو سے ہی صاف کرتا رہا۔

ان دنوں مجھے بھی محسوس ہو رہا ہے کہ میں کچھ کچھ چراغ دین ہوا جا رہا ہوں یعنی مجھے بھی مخبوط الحواسی کی کمان عطا ہو گئی ہے یعنی پین میں سیاہی بھری ہے لکھنے کے لئے کاغذ میز پر رکھے ہیں اوراسی دوران بھول گیا ہوں کہ پین میں سیاہی بھر چکا ہوں تو دوبارہ بھرنے لگتا ہوں اور حیرت زدہ ہوتا ہوں کہ کمال ہے رات کواسی پین سے چھ صفحے ناول کے لکھ چکا ہوں اور ابھی تک اس میں کافی مقدار میں سیاہی موجود ہے یوسفی صاحب اس نوعیت کے حوالے دیتے تھے تو ہم سمجھتے تھے کہ موصوف مزاح تخلیق کرنے کی خاطر بے سروپا باتیں بیان کرتے ہیں اور اب جا کر کھلا ہے کہ بے چارے اپنی عمر بیان کر رہے ہیں ہم اسے مزاح کے کھاتے میں ڈال رہے تھے اسی پین میں دوبارہ سیاہی بھرنے سے یاد آیا کہ یوسفی صاحب نے کہیں لکھا ہے کہ اب تو یہ حالت ہے کہ لوٹا ہاتھ میں تھامے حیران کھڑے ہیں کہ غسل خانے سے ہو آئے ہیں یا ابھی جانا ہے اگر ابھی جانا ہے تو لوٹا خالی کیوں ہے اور اگر جا کے آرہے ہیں تو پیٹ میں ابھی تک گڑگڑ کیوں ہو رہی ہے۔

غسل خانے کا تذکرہ چل نکلا ہے تو چلئے ابھی دوچار روز پیشتر جو ہم پر بیتی ہے وہ بیان کر دیں اور بے شک ہماری بیگم سے دریافت کر لیجیے کہ یہ وقوعہ جوں کاتوں گذرا تھا چونکہ ان دنوں پانی کی ٹینکی ادھر بھریں تو ادھر خالی ہو جاتی ہے کیونکہ گھر کے فرش کے نیچے پائپ ایک مدت سے دفن زنگ آلودہ ہو چکے ہیں اور ان میں کوئی شگاف پیدا ہو چکا ہے چنانچہ سارا پانی بہہ جاتا ہے اور جانے کہاں جاتا ہے متعدد پلمبر حضرات آئے ہیں ادھرادھرسے ٹھونک بجا کر فرش اکھاڑ کر دیکھ چکے ہیں تھوڑی بہت مرمت کے بعد اعلان کر چکے ہیں کہ لیجیے تارڑ صاحب آپ کی ٹینکی میں سے اگر پانی کا ایک قطرہ بھی ضائع ہو تو مجھے پھانسی لگا دیجئے گا جو معاوضہ ادا کرتا ہوں اس سے میری جیب خالی ہو جاتی ہے اور کچھ دیر بعد پانی سے بھری ہوئی ٹینکی بھی خالی ہو جاتی ہے یعنی خالی ٹینکی دیکھ کر پلمبر کوپھانسی لگانے کا ارادہ کر لیتا ہوں لیکن اس دوران اس کا نام بھول جاتا ہوں چنانچہ ارادہ ترک کرنا پڑتا ہے۔ اب میں گلی گلی گھوم کر یہ آواز تو نہیں لگا سکتا کہ وہ کون ساپلمبر ہے جس نے میری ٹینکی ٹھیک کی تھی، پلیز وہ آ جائے میں اسے پھانسی لگانا چاہتا ہوں بہرحال ٹینکی خالی ہونے سے ٹھنڈا پانی بھی کم دستیاب ہوتا ہے تو بھلا گرم پانی کہاں سے آئے گا چنانچہ اس کے حصول کے لئے روایتی اور ثقافتی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے یعنی چولہے پر دیگچہ چڑھا کرپانی گرم کر لیا جاتا ہے اورپھراسے کسی نہ کسی طرح اٹھاکرغسل خانے میں رکھی بالٹی میں الٹا دیا جاتا ہے۔

دوچار روز پیشتر نہانے کی تیاری کی ہے ابلتے ہوئے پانی کا دیگچہ بمشکل اٹھایا ہے، غسل خانے میں گیا ہوں اور وہ پانی سنک میں انڈیل کر دیگچہ واپس باورچی خانے میں رکھا ہے غسل خانے کو مقفل کر کے نہانے لگا ہوں اور پانی کا درجہ حرارت چیک کرنے کے لئے بالٹی میں ہاتھ ڈالا ہے تو وہ ٹھنڈا ٹھار۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنا ابلتا ہوا پانی ٹھنڈے پانی میں انڈیلا ہے تو وہ بدستور ٹھنڈا کیوں ہے اسی ٹھنڈے پانی سے ٹھٹھرتے ہوئے اشنان کیا باہر آ کر ہیٹر جلایا، اپنے آپ کوسینکا اور بیگم سے رہنمائی چاہی اس نے حلفیہ بیان دیا کہ تم میرے سامنے گرم پانی کا دیگچہ اٹھا کرغسل خانے میں گئے ہو اور پھر خالی دیگچہ اٹھائے واپس آئے ہو ویسے تم نے گرم پانی بالٹی میں ہی انڈیلا تھا ناں اور تب جا کر یکدم یاد آیا کہ اوہو اسے تو سنک میں انڈیل آیا تھا میں نے کیوں ایسا کیا تھا اس کی کوئی نفسیاتی وجہ بھی ہوسکتی ہے لیکن آپس کی بات ہے میں کچھ کچھ نہیں بہت کچھ چراغ دین ہو چکا ہوں۔

میں اور میری بیگم نہایت باقاعدگی سے ہر صبح ماڈل ٹاؤن پارک میں سیر کے لئے جاتے ہیں پارک میں داخل ہوتے ہی ہم مخالف سمتوں میں چلنے لگتے ہیں کہ بھلا ایسی پر فضا صبح میں اگر پھر ایک دوسرے کے چہرے ہی دیکھنے کو ملیں تو فائدہ۔ سیرسے فارغ ہو کر میں دوستوں کے ہمراہ بیٹھ جاتا ہوں اور وہ کچھ فاصلے پر خواتین کے ایک گروپ میں شامل ہو کر گپیں لگانے لگتی ہے نو بجے کے قریب میں اٹھتا ہوں تو وہ بھی اپنی سہیلیوں سے اجازت لے کر چلی آتی ہے اور ہم گھر لوٹ آتے ہیں پچھلے ہفتے میں اس کے اٹھنے کا منتظر رہا لیکن وہ نہ آئی سب دوست چلے گئے اور میں اس کا انتظار کرتا رہا۔ چونکہ میں کبھی بھی ادھر نہیں جاتا جدھر خواتین کا اجتماع ہوتا ہے اس لیے بیٹھا رہا اس دوران شیخ ایوب تشریف لائے اور کہنے لگے تارڑ صاحب خیریت ہے ابھی تک بیٹھے ہیں میں نے کہا کہ جی وہ بیگم وہاں سے اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتیں وہ کہنے لگے میں اپنی بیگم کو لینے ادھر جا رہا ہوں تو آپ کی بیگم کو بھی اطلاع کر دوں گا کہ آپ انتظار کر رہے ہیں تھوڑی دیر بعد شیخ صاحب مسکراتے ہوئے واپس آئے اور کہنے لگے تارڑ صاحب میری بیگم کہتی ہیں کہ آپ کی بیگم تو آج سیر کے لئے آئی ہی نہیں تو وہاں کیسے ہوسکتی ہیں اور تب یاد آیا کہ اوہو واقعی آج تو میں اکیلا ہی پارک میں آیا تھا قارئین میں اپنی ہڈ بیتی بیان کر رہا ہوں مزاح تخلیق کرنے کی کوشش نہیں کر رہا اس لیے ہنسنے کی کوئی ضرورت نہیں میری عمر کو پہنچیں گے تو اسی نوعیت کا مزاح تخلیق ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar