سرگودھا میں جہالت کا مظاہرہ اور خانقاہی نظام


سرگودھا میں اکیس افراد کے قتل کا دلخراش واقعہ مشال خان کے قتل کی خبروں کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہوا ہی تھا کہ پانامہ کا ہنگامہ ایک بار پھر زور و شور سے جاری ہو گیا جو تادم تحریر جاری و ساری ہے۔ یہ ہے ہمارے میڈیا کی اصلیت جو عوام اور سماج کی بھلائی کا دعویدار ہے۔ معافی چاہتا ہوں اگر کسی کا دل دکھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج کا میڈیا ”دِکھتی ہے تو بِکتی ہے“ کے اصول پر کاربند ہے۔ بہرحال! سرگودھا کے ایک مزار میں اکیس افراد کے وحشیانہ قتل کو خانقاہی نظام کے خلاف جہالت کی کوکھ میں پروان چڑھنے والی ایک سازش (دانستہ یا نادانستہ) سے تعبیر نہ کیا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ شاہینوں کا شہر سرگودھا، جس کے بیٹے دین کے نام پر قائم ہونے والے اس وطن کی حفاظت میں جان دینے اور جان لینے کے جذبے سے ہمیشہ معمور رہے۔ وہ سرزمین جہاں پیر کرم علی شاہ ؒ، خواجہ معظم الدین ؒ، خواجہ محمد حسینؒ اور خواجہ حافظ غلام سدیدالدینؒ جیسے پاکباز صوفیا ءنے جنم لیا اور علم و عرفان کی شمع روشن کی، اسی سرزمین پر ایک جاہل نفسیاتی مریض کے وحشیانہ عمل کو بنیاد بنا کر کچھ لوگ پاکباز صوفیا کے قائم کئے گئے خانقاہی نظام پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں محترم رعایت اللہ فاروقی صاحب جیسے صاحبان علم کی خاموشی ایک زاویے سے قابل تحسین ہے تو دوسرے زاویے سے ان جیسی روادار شخصیات کوالہی نظام کے پرچار کے لئے قائم ہونے والے خانقاہی نظام کی ان خصوصیات پر ضرور لکھنا چاہیے (رعایت اللہ فاروقی صاحب دیوبند مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے صاحب قلم ہیں اوران کا استدلال یہ ہے کہ اس موضوع پر قلم اٹھانے سے کہیں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ دوسرے مسلک پر تنقید کی جارہی ہے ) جس کی بدولت برصغیر پاک وہند میں اسلام کی روشنی پھیلی اور معاشرے میں روادری اور بھائی چارے کو فروغ ملا۔

جس دن سے یہ خبر آئی ہے دل درد سے مغموم ہے۔ نہ صرف اس دلخراش سانحے پر بلکہ بعض دانش فروشوں کی حاشیہ آرائی پر بھی، سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی بپا ہے، اس واقعے کی آڑ لے کر اولیاءاللہ اور ان کے مزارات کے روشن اور مثبت کردار کو گہنانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک نام نہاد پیر کے وحشیانہ عمل کو بنیاد بنا کر دانستہ اور غیر دانستہ طور پر خانقاہوں اور صوفیا پر تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ برصغیر کے باسی آج بھی حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ کی تعلیمات کو نشان راہ قرار دیتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سید ہجویر مخدوم امم، حضرت داتا علی ہجویری ؒ، حضرت لعل شہباز قلندر، حضرت بہاؤالدین زکریاؒ اور حضرت شاہ رکن عالمؒ ؒجیسی مقدس ہستیوں نے اس سرزمین کو اپنا مسکن بنایا اورپھر خواجہ معین الدین چشتی ؒ، خواجہ نظام الدین اولیاؒ، حضرت امیر خسروؒ، حضرت صابر کلیریؒ، حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ، حضرت میاں میر ؒ، حضرت میاں حاجی علی ؒ، حضرت بابا تاج الدین ؒناگپوری اورحضرت سید محمد عظیم برخیا ؒ المعروف قلندر بابا اولیاؒ جیسے صوفیا بھی تواسی دھرتی کے بیٹے ہیں۔ خانقاہی نظام کے ان روشن ستاروں سے پھوٹنے والا علم وعرفان کا نور اس قدر طاقتورتھا کہ اس نے برصغیرپاک وہند کی دھرتی پر بسنے والے بیٹے بیٹیوں کو بلاتفریق مذہب و ملت اپنے احاطے میں لے لیا۔ اللہ کے آخری نبیﷺ کی تعلیمات کے عین مطابق نوع انسانی کو احترام آدمیت کا سبق دینے والی ان مقدس ہستیوں کی روح آج کس قدراذیت سے دوچار ہوگی کہ ان کے قائم کئے گئے پاکیزہ ترین نظام کی آڑ لے کر جاہلوں کا ایک ٹولہ اپنی بداعمالیوں سے انہیں بدنام کرنے پر تل گیا ہے۔ عقل والے لیکن جانتے ہیں کہ چاند پر تھوکنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

بخدا عبدالوحید جیسے نام نہاد پیروں کا رحمتہ العالمین ﷺ کی صفات سے متصف ان صوفیا کی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ دولت پرستی کی ہوس میں مبتلا عبدالوحید جیسے نام نہاد پیروں کی نذر نذرانے کے حلوے کی پلیٹ سے آگے دیکھنے کی سکت نہیں رکھتی۔ جہالت کی چھری سے سادہ لوح عوام کو ذبح کرنے والے یہ نام نہاد گدی نشین اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ سلطان الہند نے ایک ہندو کی دل شکنی کے ڈر سے اپنا روزہ توڑ کر رزق کے چند لقمے کیوں نوش فرمائے تھے۔ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ان صوفیا کے مسلک میں ایک انسان کی دل شکنی کس قدر بڑے جرم کی حیثیت رکھتی ہے، چہ جائیکہ نام نہاد چوہدراہٹ اور چند ٹکوں کی خاطر اکیس جانوں کا وحشیانہ قتل۔ افسوس مگر اس بات کا ہے کہ ذاتی تعصبات کے اسیر بعض نام نہاد اہل دانش معاملے کو سمجھنے کی بصیرت سے عاری ہیں۔ شیطان کے چیلوں اور رحمان کے پیروکاروں میں زمین آسمان کا فرق ہے، جسے سمجھنے کے لئے عقل کو استعمال کرنے اور تعصب کی عینک کو اتار پھینکنے کی ضرورت ہے۔ علم کے نور اور جہالت کی تاریکی کوعمومی نظر سے پہچاننا تو مشکل ہے ہی تعصب کی عینک سے یہ فرق دیکھنا ناممکن ہے۔

فیصل آباد کے مولانا اسحاق مدنی، خدا ان کی روح کو ابدی سکون سے ہمکنار کرے، جو مسلکی اختلافات کے باوجود انتہائی ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے سننے والوں کو اس بات پر قائل کیا کرتے کہ بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث اور شیعہ فقہی اختلافات کے باوجود اصل میں ایک ہیں، کسی علامہ، مفتی اور مولانا کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کلمہ توحید اور ختم نبوت کی شہادت دینے والے پر کفر کا بہتان تراشے، لیکن مسلکی تعصب سے بالاتر ہونے کی سزا جن کو یہ دی گئی کہ ان کے اپنے بھی ان سے بیگانے ہوگئے۔ بے شک، خلوص دل کے ساتھ وہ ہر کلمہ گو کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت کے نام پر ایک ہونے کی تلقین کرتے تھے۔

 عرض مدعا یہ ہے کہ ہمیں اگر صوفیا کی تعلیمات پر بات کرنی ہے تو حضرت داتا علی ہجویریؒ کے کردار کا جائزہ لینا ہوگا، بغداد کے اس ماں کے تربیتی نظام پر نظرڈالنی ہوگی جس کے کمسن بچے نے مال کے نقصان کے ڈر کے باوجود جھوٹ نہیں بولا، حضرت بہاؤالدین زکریا ؒ ملتانی کا مخلوق سے حسن سلوک دیکھنا ہوگا، جن کی درگاہ کے بالکل ساتھ ہندوؤں کے قدیم پرہلاد مندر کے آثار آج بھی نمایاں ہیں، جس کی عمارت کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد شدید نقصان پہنچایا گیا۔ ہمیں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے افکار کو کھنگالنا ہو گا جن کے مزار پر آج بھی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں ہندو اور سکھ روزانہ حاضر ہوتے ہیں، کیوں ؟اس لئے کہ گور پیا کوئی ہور۔

بر صغیر میں خانقاہی نظام کے بانیوں کی حیثیت رکھنے والے یہ صوفیا انسانیت سے پیاراورمخلوق خدا سے محبت پر مبنی اپنی تعلیمات کی وجہ سے آج بھی کروڑوں دلوں میں زندہ ہیں۔ مسلم دنیا کے ہر کونے میں آپ کو کوئی نہ کوئی ایسی ہستی ضرور ملے گی جس نے علم کی روشنی سے معمور سینوں میں عشق الہی کی جوت جگائی، خود بھی امر ہو گئے اور اپنے شاگردوں کو بھی امر کر دیا۔

مولوی مولا نہ شد مولائے روم

تاغلام شمس تبریزی نہ شد

خود ہمارے وطن پاکستان میں بھی ایسی ہستیاں موجود ہیں، شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ کی سرزمین سندھ کے دارلخلافہ میں آج بھی خواجہ شمس الدین عظیمی نام کے ایک مرد قلندر موجود ہیں، انسانیت سے محبت کا سمندر جن کے سینے میں ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث اور شیعہ جن کی اقامت میں ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ہندو، سکھ اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے مردوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی صرف اس لئے ان کے پاس روحانی علوم سیکھنے آتی ہے کہ علم کے اس منبع کی تعلیمات کی بنیاد رسول اللہ ﷺکی صفت رحمتہ العالمین سے متصف ہیں۔ جو اس صفت سے متصف ہو جاتا ہے وہ بلاتفریق مذہب وملت معاشرے میں امن و سکون اور محبت کا علم بردار ہوتا ہے اور خانقاہی نظام اس کے سوا اور کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).