عورتوں کے پیشے ۔۔۔ ورجینیا وولف کی تقریر (1)


ورجینیا وولف ایک ادبی گھرانے کی چشم و چراغ تھیں۔ ان کے گھر میں بہت سی ادبی شخصیتوں کا آنا جانا تھا۔ 1912 میں ان کی شادی لنرڈ وولف LEONARD WOOLFسے ہوئی جس کے بعد انہوں نے جم کر لکھنا شروع کیا۔ عمر بھر ان کو ڈیپریشنDEPRESSION کے دورے پڑتے رہے لیکن ان کے خاوند نے ہر موقع پر ان کا ساتھ دیا۔ ورجینیا وولف نے ادبی طور پر ایک بھرپور زندگی گزاری اور اپنی زندگی میں ہی عزت حاصل کی۔ انہوں نے نہ صرف شہکار ناول لکھے بلکہ ادبی تنقید میں بھی نام پیدا کیا۔ 28  مارچ 1941 کو انہوں نے اپنی جیبوں کو پتھروں سے بھرا اور دریا میں اتنی دور تک چلتی گئیں کہ ڈوب گئیں۔ خود کشی کے وقت بھی وہ ڈیپریشن کے چھٹے دورے کا شکار تھیں۔ خود کشی سے پہلے انہوں نے اپنے خاوند کو ایک محبت نامہ لکھا جس میں درج تھا۔ ’میرا نہیں خیال کہ کسی جوڑے نے مل کر اتنی خوشی کی زندگی گزاری ہوگی جتنی ہم نے گزاری ہے‘

1931 میں ورجینیا وولف نے عورتوں کی ایک انجمن کی دعوت پر مندرجہ ذیل تقریر کی۔

’جب آپ کی سیکرٹری نے مجھے فون کیا تو اس نے مجھے بتایا کہ آپ کی سوسائٹی عورتوں کی ملازمتوں اور پیشوں میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس نے مشورہ دیا کہ میں آپ لوگوں کو اپنے پیشہ ورانہ تجربات کے بارے میں کچھ بتائوں۔ یہ بات بجا کہ میں ایک عورت ہوں اور میرا ایک پیشہ بھی ہے لیکن اس پیشے کے تجربات کیا ہیں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ میرا پیشہ ادب ہے اور اس پیشے میں ایسے تجربات بہت کم ہیں جو صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ میں نے جس راہ پر چلنا شروع کیا اسے مجھ سے پہلے فینی برنی‘ ایفرابین‘ ہیریٹ مارٹینو‘ جین آسٹن‘ جارج ایلیٹ کے علاوہ بہت سی اور عورتوں نے‘ جن میں سے بعض مشہور ہوئیں اور بعض یا تو نام نہ پیدا کر سکیں یا بھلا دی گئیں‘آسان کر رکھا تھا۔ اس میں میری باری آنے تک راہ کافی حد تک ہموار ہو چکی تھی۔ ادب ایک با ادب اور بے ضرر پیشہ بن چکا تھا۔ قلم سے چند لکیریں کھینچنے سے خاندان کا امن و سکون خطرے میں نہ پڑتا تھا۔ خاندان کی مالی حالت بھی متاثر نہ ہوتی تھی۔ چند سکوں سے اتنے کاغذ خریدے جا سکتے تھے کہ شیکسپیر کے سارے ڈرامے لکھے جا سکیں۔ ۔ ۔ اگر کوئی لکھنا چاہے تو۔ میرے خیال میں کاغذ کی ارزانی عورتوں کی لکھنے کی طرف مائل ہونے کی اہم وجہ ہے۔ دوسرے فنون اور پیشوں کو اختیار کرنے کے لیے بہت سی رقم کی ضرورت ہے۔

اگر میں آپ کو اپنی ذاتی کہانی سنانا چاہوں تو وہ بہت سیدھی سادہ ہے۔ آپ ایک لڑکی کا تصور کریں جو اپنی خوابگاہ میں قلم لیے بیٹھی ہے۔ وہ دن کے دس بجے سے ایک بجے تک اس کاغذ پر بائیں سے دائیں قلم چلاتی ہے پھر اسے خیال آتا ہے کہ اس نے جو چند صفحے کالے کیے ہیں انہیں ایک لفافے میں ڈال کر کونے کے لیٹر بکس میں ڈال دے۔ اس طرح میں ایک جرنلسٹ بن گئی اور مہینے کی پہلی تاریخ کو مجھے ایک ایڈیٹر کا خط اور ساتھ ہی ایک پائونڈ دس شلنگ اور چھ پنس کا ایک چیک ملا جو میری مزدوری تھی۔ میں خوشی سے بے حال تھی۔ مجھے اپنی محنت کا پہلا معاوضہ ملا تھا۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ کیا میں اپنے آپ کو پروفیشنل عورت کہہ سکتی ہوں؟ مجھے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے کتنا تعلق ہے؟ میں نے اپنی پہلی تنخواہ سے نہ تو کھانے پینے کی چیزیں خریدیں‘ نہ گھر کا کرایہ ادا کیا‘ نہ جوتے خریدے اور نہ ہی قصائی کا بل ادا کیا۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ بازار جا کر ایک خوبصورت بلی خرید لائی۔ ۔ ۔ ۔ ایک پرسٹین بلی۔ ۔ ۔ جس نے جلد ہی میرے تعلقات میرے ہمسایوں سے کشیدہ کر دیے۔

مضامین لکھنا اور پھر ان کی آمدنی سے بلیاں خریدنا بظاہر ایک آسان کام لگتا ہے لیکن ذرا ایک لمحہ ٹھہریے۔ مضامین لکھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ مضامین کن موضوعات کے بارے میں ہوں گے۔ مجھے یاد ہے کہ میرا پہلا مضمون ایک مشہور آدمی کے ناول کے بارے میں تھا۔ جب میں اس ناول پر تبصرہ لکھ رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ اگر مجھے تبصرے لکھنے ہیں تو مجھے ایک آسیب سے نبردآزما ہونا پڑے گا اور وہ آسیب ایک عورت تھی اور جب میں نے اس آسیب زدہ عورت کو قریب سے دیکھا تو اسے ایک مشہور نظم کی ہیروئن کی یاد میں ’ گھریلو فرشتہ‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ وہ آسیب زدہ عورت میرے اور میری تحریروں کے درمیان حائل رہتی۔ وہ میرے کام میں مزاہمت پیدا کرتی۔ میں اس سے اتنی تنگ آئی کہ بالآخر میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ وہ عورتیں جو مجھ سے ایک نسل بعد پیدا ہوئی ہیں شاید اس کردار سے واقف نہ ہوں۔ آئیں میں آپ کا اس کردار سے مختصر سا تعارف کرواتی ہوں۔ اس کردار میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ وہ بہت ہمدرد دلچسپ اور بے غرض تھی۔ وہ قربانی کی بہت دلدادہ تھی۔ وہ ہمیشہ اوروں کا خیال رکھنے میں مصروف رہتی۔ اس کی اپنی نہ کوئی خواہش تھی اور نہ نظریہ۔ مختصر یہ کہ وہ بہت پاکباز اور مقدس تھی اور یہی اس کی سب سے بڑی خوبصورتی سمجھی جاتی تھی۔ ملکہ وکٹوریا کے آخری دنوں میں یہ آسیب‘ یہ گھریلو فرشتہ‘ یہ عورت ہر گھر میں بستی تھی۔

جب میں نے لکھنا شروع کیا تو بہت جلد میری اس سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ مجھے کاغذ پر اس کے پروں کی پرچھائیاں نطر آتیں اور کمرے میں اس کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی۔ جب میں نے ایک مشہور مرد ناول نگار کے ناول پر تبصرہ لکھنا شروع کیا تو اس نے سرگوشی کی ’میری پیاری! تم ایک نوجوان عورت ہو۔ تم ایک ایسی کتاب پر قلم اٹھا رہی ہو جو ایک مرد کی تحریر کردہ ہے۔ احتیاط سے کام لینا۔ تھوڑی سی تعریف‘ تھوڑی سی غلط بیانی اور اپنی جنس کا بہت سا عشوہ و انداز و ادا استعمال کرنا۔ کبھی کسی پر یہ ظاہر نہ ہونے دینا کہ تمہارا اپنا ایک نظریہ حیات ہے اور سب سے مقدم یہ کہ طہارت کا لبادہ اوڑھے رکھنا۔ اس نے میری قلم کی رہنمائی کرنی چاہی۔ اس مرحلے پر میں ایک لحاظ سے خوش قسمت تھی ۔ میرے آبا و اجداد نے میرے لیے اتنی رقم چھوڑی تھی کہ مجھے سال کے پانچ سو پونڈ مل جاتے تھے اس لیے میری زندگی کا دارومدار میری تحریروں اور عشوہ و اندازو ادا پر نہ تھا۔ میں نے بڑھ کر اسے گلے سے دبوچ لیا اور اسے جان سے مارنے کی پوری کوشش کی۔ اگر کوئی مجھے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتا تو میں کہتی کہ وہ اقدامات میں نے اپنی ذات کے دفاع کے لیے کیے تھے۔ اگر میں اسے قتل نہ کرتی تو وہ مجھے قتل کر دیتی۔ وہ میری تحریروں سے ان کا دل نوچ لیتی۔ ان کی روح چھین لیتی۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ کسی کے ناول پر بھی رائے دینا اتنا آسان نہیں۔ جب تک انسان کا اپنا کوئی نظریہ نہ ہو انسانی تعلقات‘ اخلاقیات‘ جنسی روابط کے بارے میں رائے نہ ہووہ چھوٹی سی تحریر بھی ٹھیک سے نہیں لکھ سکتا۔ ’گھریلو فرشتے‘ کی نظر میں عورتیں یہ کام نہیں کر سکتیں۔ اس کے خیال میں اگر عورتوں کو ترقی کرنی ہے تو انہیں تصنع اور جھوٹ کی زندگی گزارنی ہوگی۔ اس لیے جب بھی مجھے کاغذ پر اس کے پروں کا عکس یا پرچھائیاں نظر آئیں میں نے وہیں سیاہی کی دوات الٹ دی۔ اس نے سسک سسک کر جان دے دی۔ ایک آسیب کا قتل ایک حقیقت کے قتل سے کہیں زیادہ دشوار ہے۔ وہ چھپ چھپ کر میری تحریروں میں رینگ آتی ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ بالآخر میں اسے ختم کرنے میں کامیاب رہی لیکن مقابلہ بہت سخت تھا۔ میں نے جو وقت اس کے ساتھ نبردآزما ہونے میں صرف کیا وہ میں کہیں بہتر کاموں میں صرف کر سکتی تھی۔ میں یونانی سیکھ سکتی تھی۔ میں زندگی کے کئی اور معرکے سر کر سکتی تھی لیکن مجھے اس سے جبگ کیے بغیر چارہ نہ تھا اور صرف مجھے ہی نہیں اس دور کی ہر مصنفہ کو اس ’گھریلو فرشتے‘ سے مقابلہ کرنا ضروری تھا بلکہ اسے قتل کرنا مصنفہ بننے کے پیشے کے لیے اہم تھا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail