عورتوں کے پیشے ۔ ۔ ۔ ورجینیا وولف کی تقریر (2)


میں ایک دفعہ پھر اپنی کہانی کی طرف لوٹتی ہوں۔ وہ ’فرشتہ‘ مر گئی تو پھر باقی کیا بچا؟ خوابگاہ میں کاغذ اور دوات کے سامنے بیٹھی ہوئی جوان عورت۔ جس نے جھوٹ سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ وہ اب اپنے دل کی حقیقت اور ذات کی سچائی لکھ سکتی ہے۔ لیکن اس کی دل کی ’حقیقت‘ کیا ہے ذات کا ؔسچ‘ کیا ہے؟۔ میرا مطلب ہے عورت کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا سچ کیا ہے؟ میں نہیں جانتی اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی نہیں جانتیں اور میرا ایمان ہے کہ وہ حقیقت اس وقت تک نہیں جانی جا سکتی جب تک اس کے سب رنگ ان تمام فنون اور پیشوں میں نہ بکھیر دیے جائیں جو انسان نے آج تک سیکھے ہیں۔ اسی لیے میں آج آپ سب کے سامنے حاضر ہوئی ہوں۔ احترام کے ساتھ۔ آپ وہ عورتیں ہیں جو اپنے تجربات اور اپنی ناکامیوں اور اپنی کامیابیوں کے ساتھ اس خاکے میں رنگ بھریں گی جس سے عورت کی حقیقت اور تشخص اجاگر ہوگا۔

میں اپنے پیشہ ورانہ تجربات کی کہانی کو ایک قدم آگے بڑھاتی ہوں۔ مجھے پہلے اپنے مضمون پر جو تھوڑی سی رقم ملی میں نے اس کی بلی خرید لی۔ ایک بلی بہت اچھی چیز ہے لیکن کافی نہیں۔ ’مجھے ایک موٹر کار خریدنی چاہیے‘ یہ سوچا تو میں نے ناول لکھنے شروع کیے۔ یہ عجیب بات کہ آپ لوگوں کو کہانی سنائیں اور وہ آپ کو کار خریدنے کا موقع دیں اور اس سے بھی عجیب تر یہ کہانیاں سنانے سے زیادہ دلچسپ اور کوئی بات نہیں۔ کسی کے ناول پر تبصرہ لکھنے سے کہیں زیادہ دلچسپ۔

 اب اگر میں آپ کی سیکرٹری کا مشورہ مانوں اور اپنے پیشہ ورانہ تجربات سے آگاہ کروں تو مجھے آپ کو وہ عجیب و غریب تجربہ سنانا پڑے گا جو ناول لکھنے کے دوران مجھے پیش آیا۔ اس تجربہ کو سمجھنے کے لیے آپ کو ایک ناول نگار کے ذہن کو تصور کرنا پڑے گا۔ مجھے امید ہے کہ میں ناول نگاروں کے پیشہ ورانہ رازوں سے پردہ نہیں اٹھا رہی۔ ایک ناول نگار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ جتنا تحت الشعور میں رہے بہتر ہے۔ وہ ایک لامتناہی ہستی کا خیر مقدم کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ زندگی ایک خاص رفتار سے آگے بڑھتی رہے

خاموشی کی فضا نہ ٹوٹے۔ اس کے ذہن میں چہروں‘ کتابوں اور واقعات کی جو فلم چل رہی ہے اس میں خلل نہ پڑے۔ اس کے تصور کے تہہ خانوں سے جو ہیرے اور موتی سطح پر آنے والے ہیں اور سمندر کی گہرائیوں سے جو چیزیں نکل کر ساحل پر بکھرنے والی ہیں اس عمل میں فرق نہ آئے۔ یہ عمل مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہے۔ ناول لکھنا ایک خواب کی حالت میں زندہ رہنے کی طرح ہے۔ ایک ایسی لڑکی کا تصور کریں جو اپنے کمرے کی میز پر کاغذ اور قلم لے کر منٹوں کیا گھنٹون بیٹھی رہتی ہے اور قلم کو دوات میں نہیں ڈبوتی۔ اس لڑکی کے تصور سے ،یرے ذہن میں اس مچھیرے کا خیال آتا ہے جو اپنے خوابوں کی جھیل میں کانٹا ڈالے ساحلِ زیست پر مدتوں بیٹھا ہے اور اپنے تصور سے پانی کی گہرائیوں کو چھونا چاہتا ہے۔ اس موقع پر ایک ایک ایسا تجربہ ظہور پزیر ہوتا ہے جو مردوں کی نسبت عورتوں کو زیادہ میسر آتا ہے۔ لڑکیوں کی انگلیوں سے قلم نکل جاتا ہے۔ اس کا تصور بھاگنے لگتا ہے۔ وہ لاشعور کی گہرائیوں میں پتھروں اور چٹانون سے ٹکراتا ہے جھاگ ابھرتی ہے ہر چیز تتر بتر ہو جاتی ہے۔ تصور نے کسی سخت چیز سے ٹکر کھائی ہے۔ لڑکی خواب سے بیدار ہو جاتی ہے۔ اس کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔ اس کا اپنے جذبات‘ جسمانی جذبات سے سے سامنا ہے۔ اگر اس نے ان جذبات کو اظہار کر دیا تو مرد غش کھا جائیں گے۔ اسے اس بات کا شعور ہو جاتا ہے کہ مرد اس کے جذبات کے سچے اور کھرے اظہار سے ناخوش ہیں۔ یہ خیال اس کے قلم کی زنجیر بن جاتا ہے اور وہ قلم رکھ دیتی ہے۔ وہ اب کچھ نہیں لکھ سکتی۔ یہ تجربہ بہت سی ادیب عورتوں کا المیہ ہے۔ وہ مردوں کی روایات کی مسحور ہیں۔ مرد اپنے لیے نئے تجربات کی آزادی کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن جب عورتوں کی آزادیِ اظہار کی بات آتی ہے تو پیمانے بدل جاتے ہیں۔

یہ میری زندگی کے اہم تجربات تھے۔ میری پیشہ ورانہ زندگی کے اہم معرکے۔ پہلا مرحلہ ’گھریلو فرشتے‘ کو قتل کرنا تھا۔ وہ مرحلہ تو میں نے خوش اسلوبی سے عبور کیا۔ دوسرا مرحلہ اپنی ذات اور اپنے جسم کے تجربات کو سچائی سے قلم بند کرنا تھا۔ میں اس معرکے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ میرا نہیں خیال کہ کسی عورت نے آج تک اس مرحلے سے انصاف کیا ہے۔ اس کی راہ میں جو دشواریاں ہیں وہ بہت طاقتور ہیں اور ابھی تک غیر واضح ہیں بظاہر کتابیں لکھنے میں کوئی دشواری نظر نہیں آتی لیکن درپردہ مسئلہ بہت سنگین ہے۔ عورتوں نے ابھی کئی اور آسیب دیکھنے ہیں اور کئی اور تعصبات سے نبرد آزما ہونا ہے۔ ابھی عورتوں کو کافی انتظار کرنا ہے اس سے پیشتر کہ وہ کسی آسیب یا خوف سے متاثر ہوئے بغیر حالِ دل تحریر کرسکیں۔ اگر ادب کا یہ حال ہے جس میں آزادی زیادہ ہے تو ایسے پیشوں کا کیا ذکر جو ہمارے معاشرے میں ابھی کم ہیں۔

اگر میرے پاس زیادہ وقت ہوتا تو میں آپ سے بہت سے سوال پوچھتی۔ میں نے اپنے پیشہ ورانہ تجربات کو اس لیے اہمیت دی کہ وہ آپ کے بھی تجربات ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کی نوعیت مختلف ہو۔ بظاہر بہت سے دروازے کھل چکے ہیں۔ عورتیں ڈاکٹر بن سکتی ہیں‘ وکیل بھی اور سول سرونٹ بھی بن سکتی ہیں لیکن بہت سی مشکلات ابھی بھی راہ کی دیوار بنی ہوئی ہیں۔ ان سب پر تبادلہِ خیال کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان مشکلات کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے مقاصد اور منازل پر بھی تبادلہِ خیال کرنا چاہیے۔ میرے چاروں طرف عورتیں ہیں۔ آج کا ہال مختلف پیشوں کی عورتوں سے بھرا پڑا ہے۔ آپ لوگوں نے اس گھر میں جو مردوں کی ملکیت ہے اپنے لیے ایک کمرہ حاصل کر لیا ہے ۔ آپ اب کرایہ دینے کے بھی قابل ہو گئی ہیں۔ سال میں پانچ سو پائونڈ بھی کما لیتی ہیں لیکن یہ آزادی ہماری پہلی منزل ہے۔ آپ کو کمرہ تو مل گیا ہے لیکن وہ کمرہ ابھی خالی خالی ہے۔ اسے آپ نے ترتیب دینا ہے۔ اس کے لیے فرنیچر خریدنا ہے اسے سجانا ہے اور پھر فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کسے اس کمرے کا شریک بنائیں اور کن شرائط پر۔

یہ سب سوال بہت دلچسپ اور اہم ہیں۔ تاریخ میں پہلی دفعہ آپ یہ سوال پوچھ سکتی ہیں اور اپنی مرضی سے اس کا جواب دے سکتی ہیں۔ کچھ فیصلے کر سکتی ہیں۔ میں آپ سے ان سوالوں اور جوابوں کے بارے میں تبادلہِ خیال کرنے کو تیار ہوں لیکن آج رات میرا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے مجھے اب اجازت دیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments