تعلیم یافتہ طبقے میں انتہا پسندی کیوں؟


 انتہاپسندی اِس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی جا رہی ہے۔ انتہاپسندانہ سوچ کے حامل افراد اب صرف گلی کوچوں، غریب اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی یہ سوچ اب تعلیم یافتہ افراد تک بھی منتقل ہوتی نظر آرہی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہونے والے واقعات اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں اب تعلیم یافتہ افراد بھی ان انتہاپسند تنظیموں کا با آسانی شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پیش آنے والا نورین لغاری کیس بھی اِسی کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔ نورین لغاری کو لاھور سے گرفتار کیا گیا۔ نورین لغاری کو مسیحی برادری کے تہوار کے موقع پر خودکش دھماکے میں استعمال کیا جانا تھا۔ نورین لغاری لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائینر کی طالب علم ہے۔

نورین لغاری انتہائی پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہے اور نورین کا والد جامعہ سندھ میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہے۔ نورین لغاری کیس ایسا پہلا واقعہ نہیں اِس سے پہلے بھی ایسے بیشتر واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ 2015 میں سانحہ صفورہ گوٹھ اور سبین محمود قتل کیس میں ملوث ماسٹر مائنڈ سعد عزیز کا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے IBA سے تھا۔ سعد عزیز انتہاہی تعلیم یافتہ نوجوان تھا۔ یہی نہیں بلکہ 27 نومبر 2015 کو ڈپٹی جنرل منیجر کے- الیکٹرک سہام قمر کو سی ٹی ڈی نے کالعدم تنطیم حزب التحریر سے روابط کے الزام میں گرفتار کیا۔ 6 اکتوبر 2015 کو کراچی پولیس نے SZABIST سے تعلق رکھنے والے پروفیسر اویس راحیل کو گرفتار کیا ۔ اویس راحیل نوجوان طالب علموں کا برین واش کیا کرتا تھا۔ 18 آگست 2015 عبد لاحد نامی نوجوان پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ عبد لاحد القائدہ کراچی کا امیر اور مہران یونیورسٹی سے گریجویٹ تھا۔ یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انتہاپسندانہ سوچ اب تعلیم یافتہ طبقے میں بھی پروان چڑھ رہی ہے۔

انتہاپسند جب تک غریب اور متوسط طبقے کے افراد کا برین واش کرتے رہے تب تک انہیں صرف سپاہی ملتے رہے لیکن جیسے ہی اِن انتہاپسندوں نے جامعات اور تعلیمی اداروں کا رخ کیا تو انہیں ماسٹر مائنڈ ملنا شروع ہوئے اور شاید یہی وجہ ہے کہ تعلیمی ادارے اور تعلیم یافتہ لوگ بھی اب اس شدت پسندی کی لپیٹ میں آتے جارہے ہیں۔ کسی بھی تعلیم یافتہ شخص کو قائل کرنے کے لئے کسی نہ کسی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان تمام واقعات کو دیکھنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید اِن انتہاپسندوں کے پاس کوئی نہ کوئی ایسی دلیل موجود ہے کہ جس کے ذریعے یہ با آسانی تعلیم یافتہ لوگوں کا برین واش کرنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔ جہاں انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کیلئے تعلیم کا استعمال کیا گیا وہیں اب یہ انتہاپسند بھی تعلیم اور تعلیمی اداروں کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ یہ انتہاپسندی جب اپنی تمام تر حدیں عبور کرجاتی ہے تو پھر یہ ایک خوفناک دہشت گردی کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمہ اور روک تھام کیلئے مختلف آپریشن کئے لیکن اس بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کو روکنے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے ۔ اس بڑھتی ہوئی تعلیم یافتہ انتہاپسندی کو روکنے کی

ذمہ داری معاشرے کے ہر شخص، ہر فرد اور ہر شہری پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اگر یہی عالم رہا تو پھر ہر جامعہ سے نورین لغاری ، سعد عزیز اور ہر محکمہ سے سہام قمر جیسے انتہائی تعلیم یافتہ انتہا پسند پیدا ہوتے رہیں گے اور تعلیم یافتہ انتہا پسندی بھی مزید پروان چڑھتی رہے گی۔

٭٭٭   ٭٭٭

محترم عبدالباری سوال کرتے ہیں کہ تعلیم یافتہ طبقے کو انتہا پسندی پر قائل کرنے کے لئے کون سی دلیل استعمال کی جا رہی ہے؟ جواب سادہ ہے۔ ایسی تعلیم جو سوال اٹھانے کی بجائے قابل قبول جواب یاد کرنے کی تلقین کرتی ہے، وہ بذات خود انتہا پسندی ہے۔ ایسی تعلیم عملی میدان میں درپیش چیلنجز کا جواب دینے میں ناکام رہتی ہے اور ناگزیر طور پر انہدام پسندی کی طرف مائل کرتی ہے۔ ایسی تعلیم شرکت کی بجائے استخراج، نامیاتی ارتقا کی بجائے دھماکے، طریقہ کار کی بجائے حادثے اور شمولیت کی بجائے استرداد سکھاتی ہے۔ اجتماعی فراست سے کام لینے کی بجائے مسیحا صفت لیڈر پیدا کرتی ہے۔ ہم انتہا پسندی کی تعلیم دے رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں انتہا پسند ذہن پیدا ہو رہے ہیں۔

ملک کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں انتہا پسند وائس چانسلر براجمان ہیں۔ اعلیٰ سائنسی اداروں میں سائنسی فکر کی مخالفت کرنے والے سائنسدان بیٹھے ہیں۔ فوج کے اعلیٰ ترین مناصب پر غیر عقلی رجحانات رکھنے والے خود نوشت سوانح عمریاں لکھ رہے ہیں۔ اسمبلیوں میں انتہا پسند افراد موجود ہیں۔ پولیس میں ماورائے عدالت قتل کے حامی  موجود ہیں۔ صحافت میں اعلیٰ مقام رکھنے والے فاتر العقل افراد کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ پالیسی ساز عہدوں پر مقبولیت پسند ذہن کا راج ہے۔ اور ہمارے عزیز محترم پوچھ رہے ہیں کہ تعلیم یافتہ طبقے میں انتہا پسند ذہن کیوں فروغ پا رہا ہے؟ (مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).