عمران خان کی للکار


 پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاناما کیس کے فیصلہ نے نواز شریف کا اصل چہرہ واضح کردیا ہے اور اب وہ آصف زرداری کا پیچھا کریں گے۔ بدین میں کل رات ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے واضح کیا کہ وہ بد عنوانی میں ملوث ہر شخص کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ اس طرح جمعرات کو پاناما کیس کا فیصلہ سامنے آنے اور وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے استعفیٰ کا مطالبہ مسترد کرنے کے بعد اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں کے درمیان اشتراک عمل کی جو امید پیدا ہوئی تھی، وہ ازخود دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان کے دو ٹوک اور واضح مؤقف سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تحریک انصاف متعدد سیاسی پنڈتوں کی رائے کے برعکس اس سال یا اگلے سال متوقع عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر انتخاب لڑنے کے کسی منصوبہ کو تسلیم نہیں کرے گی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر پی ٹی آئی اور پی پی پی انتخابی اتحاد کرلیں تو وہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے لئے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔

بدین میں خطاب کے دوران عمران خان نے الزام لگایا کہ آصف علی زرداری خوف طاری کرکے سندھ پر حکومت کررہے ہیں۔ وہ شوگر ملز کے ذریعے دولت سمیٹ رہے ہیں لیکن گنا پیدا کرنے والے کسان بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے اگر پنجاب میں اپنی بادشاہت قائم کی ہے تو زرداری نے سندھ پر قبضہ جمایا ہؤا ہے۔ انہوں نے اپنا دیرینہ الزام بھی دہرایا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اندرون خانہ ملے ہوئے ہیں تاکہ وہ اقتدار میں باریاں لیتے رہیں اور ملک کو لوٹتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز اور زرداری دونوں نے بیرون ملک دولت جمع کی ہے اور دونوں منی لانڈرنگ کے ذریعے لوٹ کا مال باہر لے کر گئے ہیں۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ زرداری سے پوچھیں کہ انہوں نے اتنی دولت کیسے حاصل کی ہے۔

آصف علی زرداری کے خلاف عمران خان کے اس تازہ تند و تیز بیان کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک نئی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ یہ صورت حال حکمران مسلم لیگ (ن ) کے لئے دو طرح اطمینان کا باعث ہوگی۔ ایک تو وزیر اعظم پر استعفی سے مطالبہ کرتے ہوئے ان دو بڑی اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد مشکوک ہونے سے انہیں سیاسی سپیس مل جائے گی۔ دوسرے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان دونوں پارٹیوں کے لیڈر ایک دوسرے پر بھی کیچڑ اڑائیں گے جس سے عام لوگوں کا یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ سیاست دانوں کا واحد مقصد اقتدار کا حصول ہے۔ انہیں ملک کے حالات یا حکمرانوں کی بدعنوانی سے کوئی غرض نہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کے لئے کوئی ایسا احتجاج منظم کرنا بھی آسان نہیں رہے گا جس کی وجہ سے فوج مداخلت کرنے پر مجبور ہوجائے اور نواز شریف کو بہر صورت وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینا پڑے۔

مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں اب بھی بالا دستی حاصل ہے۔ اکثر تبصرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ پاناما کیس سے اڑنے والی دھول کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بنک کو نقصان نہیں پہنچا۔ اور وہ آئندہ انتخاب میں اگر 2013 جیسی کامیابی نہ بھی حاصل کرسکی تو بھی اسے پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے کے لئے معقول اکثریت حاصل ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ صورت حال اس صورت میں تبدیل ہو سکتی ہے اگر پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف مل کر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کریں یا اہم سیٹوں پر انتخابی اشتراک کرنے پر راضی ہو جائیں۔ تحریک انصاف میں ایک بااثر گروہ کی رائے میں یہ ایک اچھا آپشن ہے۔ آصف علی زرداری پنجاب میں 25 سے 50 نشستیں حاصل کرنے کے لئے کسی بھی قسم کا معاہدہ یا سیاسی اشتراک کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم عمران خان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی بدعنوان سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ دونوں مل کر سیاسی ڈرامہ رچاتے ہیں۔ اس طرح کسی حد تک بد اعتمادی بھی موجود ہے۔

عمران خان کو یہ بھی یقین ہے کہ آئیندہ انتخابات میں ان کی پارٹی آسانی سے اکثریت حاصل کرسکے گی۔ وہ سابقہ انتخابات سے اپنی حمایت میں آنے والے جس سونامی کا انتظار کرتے رہے ہیں ، وہ اب تک اس سے مایوس نہیں ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ گزشتہ بار انہیں دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا تھا لیکن وہ اس بار ایسی دھاندلی نہیں ہونے دیں گے اور میدان مار لیں گے۔ ان کی ان توقعات سے سیاسی مبصر اور ان کی اپنی پارٹی کے بعض عناصر بھی متفق نہیں ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ کوئی بھی عمران خان کی رائے بدلنے اور انہیں مفاہمت کی سیاست کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ یہ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے لئے اچھی خبر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali