نواز شریف کب استعفیٰ دیں گے؟


ملک کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ اب لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں بار کے صدر چوہدری ذوالفقارعلی نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ یہ مطالبہ کرتے ہوئے نواز شریف کو متنبہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے ایک ہفتہ کے اندر استعفیٰ نہ دیا تو ملک کے وکلا 2007 سے بھی بڑی اور موثر تحریک چلائیں گے۔ وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگرچہ متفقہ نہیں ہے لیکن پانچوں جج اس بات پر متفق ہیں کہ نواز شریف اور ان کے بیٹے اپنے مالی معاملات کے بارے میں اٹھائے گئے سوالوں کے جواب نہیں دے سکے۔ اس لئے ان کے پاس اس عہدہ پر فائز رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہ گیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کوئی بھی تحقیقاتی کمیٹی برسر اقتدار وزیراعظم کے خلاف غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں کرسکتی۔ اس لئے انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کےلئے اپنے عہدے سے عارضی طور پر علیحدہ ہو جانا چاہئے۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی پارٹی نے 20 اپریل کو فیصلہ آنے کے بعد جس طرح شادیانے بجائے تھے اور مٹھائیاں بانٹی تھیں، اس کی روشنی میں یہ قیاس کرنا ممکن نہیں ہے کہ نواز شریف سیاسی جماعتوں یا وکیلوں کا یہ مطالبہ ماننے کےلئے تیار ہیں۔ ملک کی سیاست میں اخلاقیات کو معیار کی حیثیت حاصل نہیں ہے، یہی وجہ ہے اس کا اطلاق صرف اس شخص پر کیا جاتا ہے جس کی گردن کسی مشکل صورتحال میں پھنسی ہو۔ اگر اخلاقیات پاکستانی سیاست میں کوئی معنی رکھتیں تو پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کو بچانے کےلئے عدالتی احکامات ماننے سے انکار نہ کرتی اور نہ ہی خود کرپشن کے الزامات سے لدے پھندے آصف زرداری، اب بڑھ چڑھ کر وزیراعظم پر بداعتمادی کا اظہار کر رہے ہوتے۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مطالبہ میں کسی حد تک وزن ہے لیکن اس کے ساتھ ہی تحریک چلانے کا نوٹس دے کر اس تنظیم نے بھی اپنے موقف کو کمزور کردیا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جبری برطرفی کے معاملہ پر وکیلوں کی تحریک کا جواز موجود تھا۔ ایک تو یہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ کا معاملہ تھا۔ دوسرے یہ فیصلہ باقاعدہ ادارے کی بجائے ایک فوجی آمر نے کیا تھا جو دھونس اور دھمکی کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی خود مختاری ختم کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ 8 سالہ فوجی تسلط کے دور میں لوگ حکومت سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ ایسے میں عدلیہ بحالی تحریک ان کے کےلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی اور وہ جوق در جوق اس میں شامل ہو گئے تھے۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور سول سوسائٹی بھی اس احتجاج کی حمایت کر رہی تھی۔ اس تحریک کا مقصد بھی عدالت کا احترام اور خود مختاری بحال رکھنا تھا۔ تاہم اگر ملک کے وکیل اب ایک سیاسی مقصد اور وزیراعظم کے استعفیٰ کےلئے تحریک چلانے کی کوشش کریں گے تو انہیں شاید اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو۔ البتہ ملک کی اپوزیشن پارٹیاں اگر کسی قسم کا اتحاد بنا کر وکیلوں اور معاشرے کے دیگر طبقوں کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں تو شاید یہ تحریک کوئی فیصلہ کن سیاسی نتیجہ سامنے لا سکے۔ اس کا امکان فی الحال تو نظر نہیں آتا۔ ایک تو اس قسم کا گرینڈ اپوزیشن الائنس بننا آسان نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ہی وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے میں پیش پیش ہیں۔ تحریک انصاف کے سوا دوسری دونوں پارٹیاں ناقابل اعتبار ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پر سنگین بدعنوانی کے الزامات عائد ہیں اور اس حوالے سے وہ بھی عوام میں اتنی ہی بے توقیر ہے، جتنا احترام نواز شریف عام رائے میں کھو چکے ہیں۔ جماعت اسلامی نے ماضی قریب میں اقتدار میں آنے اور اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کےلئے ہر ہتھکنڈہ اختیار کیا ہے۔ اس لئے عام آدمی کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ بدعنوانی کے خلاف جدوجہد نہیں اقتدار کےحصول کی جنگ ہے۔

یوں تو پاکستان تحریک انصاف بھی برسر اقتدار آنے کی ہی جدوجہد کر رہی ہے۔ اسی لئے عمران خان نے 2013 کے انتخابات میں ملک میں اقتدار نہ ملنے کے بعد سے مسلسل احتجاج کیا ہے۔ وہ روز اول سے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں تاہم گزشتہ سال پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد اس مطالبہ میں شدت آئی تھی۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد یہ مطالبہ درست بھی دکھائی دیتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف ملک پر حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے نہ تو کبھی ماضی میں سیاست میں اخلاق اور اصول کو بنیاد بنانے کےلئے کام کیا تھا اور نہ وہ اب اس بات کی خواہاں ہیں کہ ملک میں جمہوری نظام مستحکم کرنے کی بات کرتے ہوئے جمہوری روایات کو مضبوط کیا جائے۔ ہر پارٹی کے اندر انتخابات کی روایت ڈالی جائے۔ سیاست پر خاندانوں کی بالا دستی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ منتخب قیادت کو پارٹی معاملات چلانے کا موقع دیا جائے اور اسے پارٹی کے طاقتور اداروں کے سامنے جوابدہ بنایا جائے۔ ایسے امیدواروں کو پارٹی کے ٹکٹ دیئے جائیں جو تعلیم یافتہ اور روشن خیال ہوں اور اسمبلیوں میں جا کر قانون سازی اور اہم پالیسی معاملات میں مناسب اور صحت مند تبدیلیاں لانے کا باعث بنیں۔ ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت اس معیار پر نہ تو پوری اترتی ہے اور نہ اسے اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عمران خان نے پارٹی میں انتخابات کروانے کی روایت استوار کرنے کا قصد کیا تھا لیکن وہ خود اپنے ہی الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو ماننے میں ناکام رہے۔ اور اب تحریک انصاف پر فرد واحد کی حکمرانی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح یہ پارٹی بھی صرف صلاحیت کی بنیاد پر امیدوار سامنے لانے میں ناکام رہی ہے۔ اسے بھی ان لوگوں کی تلاش رہتی ہے جو اپنے اپنے علاقے میں اپنے بل بوتے پر انتخاب جیت سکیں۔ کسی پارٹی میں منشور اور ایجنڈے کو اہمیت حاصل نہیں ہے۔

ان حالات میں جب اپوزیشن کی سیاسی پارٹیاں اخلاقی بنیادوں پر وزیراعظم سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرتی ہیں تو وہ خوشگوار سیاسی نعرے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کے خلاف ملک کی سب سیاسی پارٹیاں کسی ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو کر کوئی اتحاد قائم کر سکتی ہیں۔ جو تین پارٹیاں اس وقت نواز شریف کے استعفیٰ پر متفق ہیں، ان کے باہمی اختلافات سامنے آتے بھی دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے دراصل 2018 یا اس سے قبل منعقد ہونے والے انتخاب میں اپنی جگہ بنانے اور مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن کمزور کرنے کےلئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔ اس لئے انتخاب کا راستہ ہموار ہوتے ہی ان کے اختلافات بھی نمایاں ہونے لگیں گے۔ تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان پیپلز پارٹی کی قیادت کے بارے میں بھی اسی بداعتمادی کا اظہار کرتے رہتے ہیں جس کا اظہار وہ اس وقت نواز شریف کے بارے میں کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کا استعفیٰ ان دونوں پارٹیوں کا ہدف نہیں، نعرہ ہے۔ وہ اس نعرہ کی بنیاد پر نواز شریف کو مسلسل دفاعی پوزیشن میں رکھنا چاہتی ہیں تاکہ اپنی جیت کےلئے میدان ہموار کرتی رہیں۔ ایسے میں اگر نواز شریف واقعی استعفیٰ دے کر کسی دوسرے شخص کو وزیراعظم بنا دیں تاکہ 2018 کے آخر تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم رہے تو وہ ایک ہی جھٹکے میں پی ٹی آئی اور پی پی پی کے خوابوں کو چکنا چور کر سکتے ہیں۔ لیکن نواز شریف خود اپنی کمزوریوں اور انا پسندی کے اسیر ہیں۔ وہ انتہائی مجبوری کے علاوہ یہ قدم اٹھانے سے گریز کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

نواز شریف کی انتہائی مجبوری صرف یہ ہو سکتی ہے کہ اگر ملک میں مظاہروں اور بدامنی کی فضا میں فوج اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال دے تو نواز شریف کے پاس استعفیٰ دینے اور قبل از وقت انتخابات کروانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ اپوزیشن کو بھی اپنی سیاسی قوت کا اندازہ ہے۔ اس نے اگر کوئی احتجاجی تحریک چلائی تو اس کا ٹارگٹ بھی یہ ہوگا کہ کسی طرح امن و امان کی ایسی صورت پیدا کر دی جائے کہ فوج وزیراعظم کو علیحدہ ہونے کا مشورہ دینے پر مجبور ہو جائے۔ اس طرح اگر سپریم کورٹ کے فیصلہ اور اس کے تناظر میں اپوزیشن کے اتحاد اور مطالبے کو دیکھا جائے تو یہ سب اپنے اپنے طور پر سول حکومت کے مقابلے میں فوج کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ ملک کی سیاسی قیادت اہم قومی معاملات میں فوج کے کردار کو قبول کر چکی ہے اور اس کو کم کرنے کےلئے کوئی اقدام کرنے پر متفق نہیں ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کےلئے فوج کی مداخلت اس وقت تک قابل قبول ہے جب تک وہ براہ راست آئین کو معطل کرکے خود اختیار سنبھالنے کا فیصلہ نہیں کرتی۔ کیونکہ اس طرح قومی مفادات کے خود ساختہ محافظ سیاستدانوں کے اقتدار کے مزے لوٹنے میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مک میں سیاسی انتشار کے ذریعے فوج سیاسی حکومت کے مقابلے میں مضبوط ہوتی ہے اور اس سے من چاہے فیصلے کروانے کے قابل ہو جاتی ہے۔ 2014 کے دھرنے کے دوران سول ملٹری تعلقات میں حالات کا پلڑا فوج کے حق میں جھکتا دیکھا جا چکا ہے۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلہ اور اپوزیشن کے رویہ کی وجہ سے بھی فوج کو منتخب حکومت پر بالا دستی حاصل ہوگی۔

نواز شریف کو اس صورتحال کا ادراک ہے۔ لیکن وہ جس طریق سیاست کی پیداوار ہیں، اس میں غلطی تسلیم کرنے کی بجائے اسے اپنی کامیابی ظاہر کرکے مخالفین کو خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) یہی کام کر رہے ہیں۔ اگر وہ فوج کی ضرورتوں کو پورا کرتے رہے تو انہیں یقین ہے کہ وہ 2018 تک اس عہدہ پر فائز رہ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali