مولانا احمد لدھیانوی اور صحافتی تقاضے


نومبر 2013 میں راولپنڈی میں جب سانحہ تعلیم القرآن رونما ہوا تو اس وقت میں راولپنڈی کے ایک مقامی اخبار کا بیوروچیف تھا، میرا دفتر لیاقت باغ سے متصل پلازہ میں واقع تھا۔ حالات کی سنگینی باعث ہم دفتر تک ہی محدود رہے اور مختلف مذہبی جماعتوں کی پریس ریلیز اور نیوز ایجنسی سے ملنے والی خبروں کے الفاظ ہی آگے پیچھے کرکے شہر کی خبریں نیوزروم کو بھیجتے رہے۔

حادثے کے اگلے دن چیف مدیر یاسر ملک صاحب کا فون آیا، حال احوال دریافت کرنے کے بعد انہوں نے ہدایت دی کہ سانحے میں شہدا کی نماز جنازہ پڑھانے مولانا احمد لدھیانوی آرہے ہیں، میں نے ان سے وقت لے لیا ہے، آپ اپنی ٹیم لے کر مدرسہ تعلیم القرآن میں چلے جائیں اور ان کا اس حوالے سے موقف اور موجودہ صورتحال پر ایک رپورٹ بناکر بھیج دیں۔

میں ہنس پڑا

متعجب ہوکر بولے۔ اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے؟

میں نے کہا جناب آپ کا بیوروچیف علی سجاد، آپ کا رپورٹر علی عباس اور آپ کا فوٹو گرافر عسکری بلتی، اندازہ لگائیں ان تین ناموں کے حامل لوگ سانحہ تعلیم القرآن میں جاکر اپنا تعارف کروائیں گے اور جو جذبات اس وقت وہاں لوگوں کے ہیں، آپ کو لگتا کہ کسی کو ہمارے ناموں سے ہمارے مسلک متعلق مغالطہ بھی ہوگیا تو ہمارا کیا حشر ہوگا؟

کہنے لگے بات تو تمھاری ٹھیک ہے مگر انٹرویو اور رپورٹ مجھے کل ہر حال میں چاہیے، سو کوئی تدبیر بناؤ۔

میں اگلے دن ایک دوسرے اخبار کے فوٹوگرافر کو لے کر مدرسہ پہنچ گیا، وہاں بات چیت اور صورتحال دیکھ کر رپورٹ بنائی اور اسے فائل کردیا، اگلے دن وہ رپورٹ بطور لیڈ شائع ہوئی۔ چند احباب نے رپورٹ کے انتہائی یک طرفہ ہونے کا اعتراض کیا، میرا جواب تھا کہ جو کچھ دیکھا اور جو کچھ وہاں کہا جارہا تھا، اسے فلٹر کرکے بیان کردیا، اب اسے میں بیلنس کہاں سے اور کیسے کروں؟ کوئی کالم یا رپورٹر کی ڈائری تھوڑی ہے۔

اگلے روز میں علامہ ساجد نقوی صاحب سے ملا اور ان کا مفصل انٹرویو کرکے اسے فائل کردیا۔ یہ انٹرویو سپرلیڈ شائع ہوا، اس بار بھی انٹرویو کے جانبدارانہ اور پلانٹڈ ہونے کا الزام لگا مگر معترضین وہ تھے جو ایک دن قبل مجھے سانحہ تعلیم القرآن کی رپورٹنگ پر سراہ چکے تھے۔

اس سے اگلے دن میں نے سی پی او، راولپنڈی اختر لالیکا کا ایکسکلوسیو انٹرویو فائل کیا جس میں انہوں نے کہا کہ سانحہ راولپنڈی میں گیارہ افراد شہید ہوئے مگر ان میں مدرسہ تعلیم القرآن کا ایک بھی طالب علم یا معلم نہیں تھا۔ سب باہر سے آئے ہوئے افراد تھے۔ انہوں نے گرفتار شدگان کی تفصیلات بھی مہیا کی جنہیں میں نے انٹرویو میں من و عن مذکور کردیا۔

اس مرتبہ دونوں اطراف سے مجھے بکاؤ رپورٹر قرار دیا گیا اوردھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔
( محترم انعام رانا کی ویب سائٹ مکالمہ کے نیوز ایڈیٹر محترم طاہر یٰسین جو اس وقت اس اخبار کے نیوز ایڈیٹر تھے، سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے)

سوشل میڈیا بلاگرز کی ویب سائٹ ”ہم سب“ ابتدا سے ہی سیکولرو لبرل اقدار کے حامل احباب کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اس ویب سائٹ کو پاکستان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی سوشل میڈیا بلاگرز سائٹ بنانے میں سیکولر و لبرل قارئین کی محبت شامل ہے۔

اب جس بات کا مجھ جیسے عطائی قاری کو ادراک ہے، کیا اس کا فہم جناب وجاہت مسعود کو نہیں ہوگا جن کا صحافتی و ادارتی تجربہ میری عمر سے بھی زیادہ ہے۔

اپنے ہزاروں قارئین کی پسند کے برعکس ایک ایسا قدم اٹھانا جس پر ہر طرف سے تنقید کے ڈونگرے برسائے جائیں، میری نگاہ میں بذات خود ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے۔ بطور قاری آپ ”ہم سب“ پر تنقید کرسکتے ہیں۔

آپ مولانا احمد لدھیانوی سے ملاقات کی روداد پر پیڈ اور پلانٹیڈ کی پھبتی کس سکتے ہیں مگر اگر آپ صحافی ہیں یا صحافت کے بارے میں ننھی سی بھی جانکاری رکھتے ہیں تو جان لیں کہ پریس کانفرنس، انٹرویو اور ملاقات میں بہت فرق ہوتا ہے۔

مولانا احمد لدھیانوی اگر پریس کانفرنس کریں گے تو میں، عدنان خان کاکڑ صاحب اور پیارے وصی بابا وہاں جاکر تلخ سے تلخ سوال داغ سکتے ہیں، اور ان کی پریس ریلیز کے ساتھ اپنے سوال اور ان کے جواب کو ملا کر رپورٹ کرسکتے ہیں

اگر انٹرویو ہوگا تو اس میں آپ ہم سب والوں سے تلخ سوالات نہ پوچھنے اور یک طرفہ انٹرویو شائع کرنے پر بھی شکوہ کرسکتے ہیں

مگر اسلام آباد میں دو صحافیوں نے مولانا احمد لدھیانوی سے ملاقات کی ہے، ایسی ہی ملاقاتیں حامد میر، سلیم صافی سے لے کر سلیم شہزاد تک سب نے کی ہیں۔ انٹرویو ہوتا تو جن سوالات کے جوابات مولانا نے آف داریکارڈ کہہ کر دیے ہوتے، ان کو چھوڑ کر باقی سب رپورٹ کرنا مذکورہ احباب کی صحافتی ذمہ داری تھی، یہاں ملاقات کی گئی ہے اور ملاقات میں ہونے والی باتوں کو میزبان کی اجازت سے ہی شائع کیا جاسکتا ہے۔

کل کلاں کو یہی صاحبان راجہ ناصر عباس یا امین شہیدی سے ملاقات کرینگے تو دوسری جانب سے ان پر یہی الزامات عائد ہوں گے جو آج پہلی جانب سےکیے جارہے ہیں۔

اور اگر ہم سب والے چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے ہوں اور ان کا دفتر خدانخواستہ نذر آتش کردیا جائے تو کسی قادیانی عالم سے ملاقات کرکے ان کا موقف شائع کرنے کی جسارت کرکے دیکھ لیں

اگر غداری کا لیبل لگوانا چاہتے ہیں تو کسی معتوب بلوچ یا مہاجر سیاستدان سے ملاقات کرکے اس کے گلے شکوے شائع کرکے آزما لیجیے

اور اگر حرف غلط کی طرح مٹنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کے دفتر سے چند کلومیٹر کی دوری پر لاہور کی ہی ایک صحافی کی والدہ کی زندہ لاش موجود ہے۔ ان کے گھر تشریف لے جائیں اور ان کی آنسووں میں ڈوبی ہوئی فریاد ہم سب کی زینت بناکر دکھا دیں۔

بات کسی اور طرف جارہی ہے، فقط اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جو سلسلہ مولانا احمد لدھیانوی سے ملاقات کے بہانے شروع کیا گیا ہے، اس کو مزید آگے بڑھایا جائے اور مخالفین کی تنقید اور حامیوں کی واہ واہ کو یکسر نظر انداز کردیا جائے۔

اس راہ میں کسی کو زیادہ عرصے تک خوش نہیں رکھا جاسکتا، بہتر ہے سب روٹھے ہی رہیں۔


میں آ گیا ہوں اب فکر کی کوئی بات نہیں: مولانا محمد احمد لدھیانوی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).