روس بغیر گولی چلائے گرم پانی تک پہنچ گیا: میاں افتخارحسین


عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل میاں افتخار حسین 5 اپریل 1958 ء کو پبی ضلع نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں محمد رفیق ایک محنت کش انسان تھے، جنہوں نے فوج میں بہ طور وائرلیس آپریٹر فرائض انجام دیے۔ میاں افتخار حسین نے باچا خان کے غیرسرکاری مدرسے پبی اسلامی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج پشاور میں تعلیم پانے کے دوران پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوئے۔

1997ء کا صوبائی الیکشن جیتا۔ صوبائی اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی سیکریٹری رہے۔ 2008ء میں صوبائی وزیر اطلاعات، ٹرانسپورٹ اور کلچر مقرر کیے گئے۔ 2013ء  کے انتخابات میں ناکام رہے۔ اس وقت وہ اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں۔ ان کے اکلوتے بیٹے میاں راشد حسین کو چند سال قبل دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا۔

٭٭٭  ٭٭٭

سوال: اے این پی راہ نماؤں کے بقول 2013ء کے انتخابات کے وقت ہمارے ہاتھ باندھے گئے تھے، کیا 2018ء کے متوقع انتخابات کے لیے آپ آزاد ہیں؟

میاں افتخار حسین: دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا تھا وہ غیرجمہوری تھا۔ ہمیں نشانہ بنایا گیا، ہمارے سینکڑوں کارکن اور منتخب نمائندوں کو شہید کردیا گیا، ہمیں واضح پیغام دیا گیا تھا کہ باہر نکلنے کی صورت میں تمہیں مار دیا جائے گا۔ آپ ہی بتائیں کہ جب کسی پہلوان کے ہاتھ باندھ دیے جائیں تو وہ کس طرح مقابلہ کر اور جیت سکتا ہے۔ اس لیے 2013ء کے انتخابات پر ہمارے بہت سے تحفظات اور خدشات تھے، لیکن ملکی نازک حالات کے تناظر میں اور جمہوری عمل کے تسلسل کو آگے بڑھانے کی خاطر ہم نے انتخابی نتائج تسلیم کیے، جو ہمارے لیے ایک تکلیف دہ مرحلہ بھی تھا، لیکن ہم نے قومی مفاد اور امن کی بحالی کی خاطر سب کچھ تسلیم کیا۔ رہی بات 2018ء کے متوقع انتخابات کی تو سب دیکھ رہے ہیں کہ حالات بدل چکے ہیں۔

عالمی سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، عالمی قوتوں کی ترجیحات بدل چکی ہیں، روس اور چین کا رویہ الگ نظر آرہا ہے، طالبان اور القاعدہ کے بجائے داعش وجود میں آگئی ہے، روس بغیر گولی استعمال کیے گرم پانی تک پہنچ گیا ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کی آزمائشیں بھی وقتی طور پر کم ہوئیں، ضرب عضب آپریشن کے باعث تھوڑا بہت امن قائم ہوا۔

زمام اقتدار خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور مرکز میں مسلم لیگ ن کے ہاتھ آئی تو دونوں ہی حکومتیں عوام کو ڈیلیور کرنے میں ناکام رہیں، جب کہ دونوں کی جانب سے قیام امن کی کوششوں میں کوئی خاطرخواہ کردار بھی نظر نہیں آیا، مسائل بڑھتے گئے، منہگائی عروج پر پہنچ گئی، لوڈ شیڈنگ میں ذرا بھر بھی کمی نہیں آئی۔ خیبر پختون خوا حکومت نے تبدیلی کے نام پر عوام کو سبز باغ دکھائے، تین سال تک بجٹ Lapse  ہوتا رہا۔ صوبائی حقوق اور خودمختاری کے حصول کے لیے کوئی کوشش نہیں ہوئی، ایسے حالات میں مایوس عوام کی نظریں ایک بار پھر اے این پی پر لگی ہوئی ہیں اور ہماری جماعت نے حالات بھانپ کر آئندہ الیکشن کے لیے بھرپور تیاریوں کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ قرائن بھی یہی بتا رہے ہیں کہ صوبے میں آئندہ حکومت اے این پی ہی بنائے گی۔

سوال: وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور عمران خان کہتے ہیں کہ اے این پی کی قیادت آج ہماری وجہ سے گھروں سے نکل کر آزادانہ گھوم رہی ہے، اس میں کتنی صداقت ہے؟

میاں افتخار حسین: جو جماعت دہشت گردوں کو خود سپورٹ کر رہی ہو ان کے لیے دفاتر کے قیام کی بات کرتی ہو وہ کیسے امن لاسکتی ہے؟ ہاں اگر امن قائم ہوا ہے تو یہ سیکیوریٹی فورسز کی بدولت ہوا ہے، جس کے لیے انہوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں، اچھا ایک دوسری بات کہ آج عمران خان خود وزیرستان سے تو ہو کر آئے وہ کیوں آج وہاں سے ہوکر نہیں آتے، یہ ہماری ہی حکومت تھی جب ان کو وزیرستان جانے کے لیے راستہ فراہم کیا گیا۔ اب یہ نیٹو کے خلاف احتجاج کر کے نکلیں۔ یہ دونوں حضرات صرف ہواؤں میں تیر چلانا خوب جانتے ہیں۔

سوال: پاراچنار دھماکے کے بعد نیشنل ایکشن پلان اور خصوصاً پنجاب میں آپریشن پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں، آپ اس بارے کیا کہتے ہیں؟

میاں افتخار حسین: دیکھیں، نیشنل ایکشن پلان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد نہیں ہوا ورنہ آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن ردالفساد کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ میرے خیال میں کچھ خامیاں یا کمی ضرور رہ گئی ہو گی، جسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے دوسری اہم بات پنجاب میں کالعدم تنظیموں کا وجود ہے، جہاں 70 کالعدم تنظیمیں مختلف ناموں سے کام کر رہی ہیں۔ ان کے خلاف ابھی تک کارروائی عمل میں نہیں آئی جس کی مثال لشکر جھنگوی ہے، اس نے کئی واقعات کی ذمہ داری قبول بھی کی ہے لیکن اس کے خلاف کارروائی نہ ہونا ’’چہ معنی دارد‘‘؟ یہ حقیقت بھی ریکارڈ پر ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے دہشت گردوں کو پیغام بھیجا تھا کہ ہمیں کچھ نہ کہا جائے، جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت نے دہشت گردوں سے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔

بدقسمتی سے پنجاب میں خصوصاً ہمارے پختونوں کے خلاف یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ ہم اس مادر وطن کے بیٹے نہیں، اسلام آباد کی کچی آبادی میں پختونوں کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ البتہ وہاں کے رہائشیوں نے انتخابات میں حصہ لیا، لیکن ان کو پھر بھی مجبور کیا گیا کہ وہ پنجاب میں نہ رہیں۔ اسی طرح ان کے شناختی کارڈز بلاک کیے گئے، ان کو گھروں سے نکالا گیا جس کی وجہ سے ان کو کاروبار سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پختونوں کو یہ لوگ دہشت گرد سمجھتے ہیں، مجھے کوئی یہ ثابت کردے کہ پختونوں کے نام پر کوئی دہشت گرد تنظیم قائم کی گئی ہے۔

دوسری طرف پنجابی طالبان اور دیگر ناموں سے تنظیمیں موجود ہیں، لیکن پھر بھی ہم نے کبھی پنجابی تنظیم کا نام نہیں لیا بل کہ ہم اس میں تخصیص نہیں کرتے ہم ان سب کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ ان تمام مسائل و مشکلات کے حوالے سے پارٹی کے قائد اسفندیار ولی خان نے میری سربراہی میں کمیٹی بنائی ہم نے وہاں جا کر بذات خود پختونوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا مشاہدہ کیا، جس پر ہم نے بھرپور آواز اٹھائی، پنجاب میں پارٹی تنظیم سے رابطہ کیا جس کے باعث اب حالات قدرے سنبھل چکے ہیں۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ پنجاب کے عوام اس صورت حال میں قصوروار نہیں وہاں کا حکم راں طبقہ یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پختونوں کو پنجاب سمیت ہر جگہ مکمل آزادی ملنی چاہیے اور ان کو بے جا تنگ کرنے سے گریز کرنا چاہیے بصورت دیگر حالات کوئی بھی رخ اختیار کرسکتے ہیں۔

سوال: فاٹا کے مستقبل بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

میاں افتخار حسین: قبائلی علاقوں کو خودمختار اور انہیں ایف سی آر جیسے کالے قانون سے چھٹکارا دلانے کے حوالے سے جدوجہد تو کئی دہائیوں پر محیط ہے لیکن اے این پی نے 90 کی دہائی میں مطالبہ کیا تھا کہ قبائل کو پختون خوا میں شامل کیا جائے۔ خیر دیرآید درست آید۔ اب فاٹا کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈر یک زبان نظر آرہے ہیں، حکومتی اداروں کا بھی اسی نکتے پر اتفاق پیدا ہو چکا ہے، جب کہ قبائلی نمائندے بھی راضی ہیں کہ فاٹا کے عوام کو باقاعدہ قومی دھارے میں شامل کرکے ان کو آئین پاکستان کے تحت تمام حقوق و سہولیات ملنی چاہییں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود تاحال شکوک و شبہات کے سائے منڈلاتے نظر آرہے ہیں، کیوں کہ فاٹا اصلاحات کو کابینہ اجلاس کے ایجنڈے سے نکالا گیا تھا، انضمام کے لیے پانچ سال کا وقت دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ وہاں 2018ء کے الیکشن کا عندیہ تو دے دیا گیا ہے لیکن یہ کس طرح ہوں گے ان کی حیثیت کیا ہوگی؟

اس حوالے سے ابھی تک کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ مرکز جو گیم قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کھیلتا ہے وہ یہاں کی صوبائی اسمبلی میں نہ کھیلے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ این ایف سی کے حوالے سے ابھی تک کوئی فارمولا طے نہیں ہوا کہ قبائلی علاقوں کے صوبے میں ضم ہونے کی صورت میں کتنا حصہ ملے گا۔ ان تمام امور کے لیے آئینی شقوں میں ترامیم ناگزیر ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ سابق قبائلی علاقوں سمیت پاکستان میں تمام پختونوں کو یکجا کر کے ان کے حقوق اور وسائل کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے، تاکہ ان کی برسوں کی محرومیوں کا ازالہ ممکن ہوسکے اور ان پر دہشت گردی کا جو ٹھپا لگایا گیا ہے اسے دور کیا جا سکے۔

سوال: پاک افغان تعلقات کو موجودہ حالات کے تناظر میں کس طرح دیکھتے ہیں؟

میاں افتخار حسین: سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب دونوں پڑوسی ممالک میں غلط فہمیوں کی خلیج بڑھے گی تو دہشت گردی بھی بڑھے گی۔ وہ تجارتی راستے جو کبھی بھی بند نہیں ہوئے تھے ان کے بند ہونے سے نہ صرف کھربوں روپے کا نقصان ہوگا بلکہ اس سے نفرتیں بھی بڑھیں گی۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہمارے پاس کون سی بیرونی منڈی سوائے افغانستان کے ہے، اگر یہاں بھی نفرتوں کے بیج بوئے جائیں گے تو دونوں طرف سے معاشی مسائل جنم لیں گے۔

اس لیے ’ارباب بست و کشاد‘ کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں اور مزید کسی بھی مہم جوئی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ باڑ وغیرہ لگانے سے لوگوں کو نہیں روکا جا سکتا اور نہ ہی ان کے دلوں کو جدا کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے عالمی اور خطے کے حالات کے تناظر میں دونوں ممالک مشترکہ طور پر دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکارا پانے کے لیے آگے بڑھیں۔ دونوں ممالک کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی کرنی چاہیے، اور ہماری طرف سے ضیاء الحق والی پالیسی کے تسلسل کو اب ختم کرنا چاہیے۔

سوال: دنیا کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ اب روس نے طالبان کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جب کہ بیک ڈور رابطوں کی باتیں ہو رہی ہیں کیا پھر سے دنیا یونی پولر سے ملٹی پولر بننے جارہی ہے؟

میاں افتخار حسین: بالکل ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ وہ روس جو گرم پانیوں کے حصول کے لیے پاگل پن کا مظاہرہ کر رہا تھا آج بغیر گولی استعمال کیے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرچکا ہے۔ روس پھر سے عالمی منظرنامے میں کلیدی کردار کے لیے پر تول رہا ہے۔ اس نے افغانستان اور اس خطے سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کر رکھی ہے، جس کی بدولت پرانے دشمن اب دوست بنتے جارہے ہیں، لیکن اب بھی اس سے کوتاہیاں سرزد ہو رہی ہیں، جیسا کہ افغانستان کے مسئلے پر اس نے اجلاس بلایا، جس میں صرف پاکستان اور چین کو مدعو کرکے افغانستان کو نظرانداز کردیا۔ امریکا نے طالبان اور اب اسرائیل نے داعش بنائی ہے، جس کی 35 ممالک فنڈنگ کر رہے ہیں۔

یہ ایک خطرناک گیم کھیلا جارہا ہے جس کا میدان خاکم بدہن ہماری سرزمین ہو سکتی ہے، اگر دیکھا جائے تو تباہی و بربادی کے لحاظ سے دونوں نے ایک ہی راستہ چنا ہے اور دونوں پاکستان کے خلاف بھی ہیں۔ اس طرح اس خطے میں بھی دو بڑے واضح گروپ وجود میں آچکے ہیں، ایک گروپ میں روس، چین اور پاکستان اور دوسرے میں ایران، بھارت اور افغانستان شامل ہے، ثانی الذکر گروپ کو امریکا کی بھرپور حمایت حاصل ہے ایسے میں جو جنگ چھڑی گئی تو وہ تیسری عالمی جنگ کہلائے گی اور اس کے لیے میدان یہی خطہ ہو گا۔

سوال: کیا سی پیک پر اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے، بیرونی دنیا کی نظروں میں کیا یہ منصوبہ کھٹک تو نہیں رہا؟

میاں افتخار حسین: پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبہ واقعی ایک گیم چینجر اور پاکستان کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ ہے، لیکن مرکزی حکومت نے اسے متنازع بنا دیا ہے، اس سے قبل اصل اور پرانا نقشہ تمام اسٹیک ہولڈر کے لیے قابل قبول تھا، لیکن ایک سازش کے تحت احسن اقبال نے مغربی، مشرقی اور وسطی کا شوشہ چھوڑ کر اس کو متنازعہ بنادیا اور ہر طرف سے اس پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوئیں تو اے این پی نے دباؤ ڈال کر نوازشریف کو اے پی سی بلانے پر مجبور کیا جہاں اعلان ہوا کہ مغربی روٹ اصل روٹ ہے اور اس پر جلد کام شروع کر دیا جائے گا، لیکن وہ اعلان ہوا میں اُڑا دیا گیا۔

وہ وعدہ ایفا نہ ہوا جس کے بعد اس منصوبے کے حوالے سے مزید شکوک و شبہات اور تحفظات نے جنم لیا، جس میں خیر سے ہمارے اپنے صوبے کے وزیراعلیٰ کی جانب سے انتہائی کم زور کردار کا عمل دخل بھی رہا۔ اسی طرح عمران خان نے پنجاب کی کرسی قابو کرنے کے لیے چینی سفارت خانے کو مشرقی روٹ بنانے کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ اس لیے نوازشریف اور عمران خان وزارت عظمیٰ کی کرسی کے لیے پنجاب کو نوازنے میں لگے ہوئے ہیں، دوسری طرف اگر خیبر پختون خوا میں مغربی روٹ پر جو صنعتی بستیاں قائم کی جائیں گی وہ پنجاب کے نزدیک ترین ہونے کے بنا پر وہاں اسی کا تسلط قائم ہو گا۔ ان حالات کے تناظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت اپنے مفادات کے لیے پختونوں کا خون کر رہی ہے، لیکن ہم پختونوں کے منہ سے نوالہ نہیں چھیننے دیں گے اور حقوق کے لیے اپنی بھرپور جدوجہد جاری رکھیں گے۔

سوال: کیا ملک میں جاری مردم و خانہ شماری کے عمل سے آپ مطمئن ہیں؟

میاں افتخار حسین : 19 سال بعد جیسے تیسے یہ عمل شروع تو کیا گیا، لیکن خدشات اور تحفظات کے سائے میں، یہاں چند ضروری باتوں کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں پہلا سوال اس پر یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے صوبے کی گنتی اسلام آباد میں ہو گی، جب کہ باقی صوبوں کے لیے اپنے ہی صوبے میں یہ سہولت دی گئی ہے۔ اس عمل کے ذریعے ہماری آبادی کو کم ظاہر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وہ اس لیے بھی کہ پختونوں کی صلاحیتوں سے یہ لوگ ڈرتے ہیں۔ ان کو پتا ہے کہ اگر پختونوں کو ان کا جائز حق دیا گیا تو پھر یہ پیٹ بھر کے کھائیں گے اور ان کی صلاحیتوں کو جلا ملے گی اور اسی طرح یہ لوگ ہر شعبۂ زندگی میں آگے ہوں گے تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟ اسی لیے پختونوں کو کبھی ایک اور کبھی دوسرے مسئلے میں الجھائے رکھتے ہیں، تاکہ ان کی صلاحیتوں کو گزند پہنچا کر انہیں مفلوج و محتاج رکھا جائے، دوسری بات یہ کہ زیادہ تر پختون باہر ہیں۔

ان کے گھر بار بھی وہاں ہیں لیکن وہ یہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کو مردم شماری کے عمل سے باہر رکھنے کے لیے بھی ایک شق رکھی گئی ہے۔ آپ اندازہ کرلیں کہ 4 کروڑ پختونوں میں ایک کروڑ باہر ہیں، اس لیے ان کو قصداً عملاً اس عمل ہی سے باہر رکھا جارہا ہے۔ دوسری طرف زیادہ تر پختون آئی ڈی پیز ہیں۔ ان کا گھر بار سب کچھ لٹ چکا ہے ان کو بھی خانہ شماری سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام قبائل کو اس عمل میں شامل کر کے صوبے کا حصہ قرار دیا جائے، جب کہ مردم شماری ٹیموں میں خواتین کو بھی شامل کیا جائے، تاکہ آسانی سے گھروں پر مردوں کی غیرموجودگی میں خواتین مکمل ڈیٹا حاصل کر سکیں۔ اس عمل پر جو سب سے بڑا اعتراض سامنے آیا ہے وہ پنسل کا استعمال ہے۔ بہرحال بہت سے تحفظات اب ہیں اگر ان کو دور نہ کیے گئے تو اس کے خلاف ہر ممکن قدم اٹھانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

سوال: عمران خان کی آرمی چیف سے ملاقات، زرداری کی سرگرمیاں، نیب زدہ لوگوں کی رہائی، کوئی نئی ڈیل ہونے تو نہیں جارہی؟

میاں افتخار حسین: عمران کی آرمی چیف سے ملاقات اچھی بات ہے اور عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کی جمہوریت کی حمایت کے بارے میں بیان بھی سراہنے کے قابل ہے، لیکن میں صرف اتنا کہوں گا کہ دھرنے کے دوران بھی تو خان صاحب نے ایمپائر کی جانب غیرجمہوری طور پر انگلی اٹھانے کا شوشہ چھوڑا تھا۔ رہی بات آصف زرداری کی سرگرمیوں، ملاقاتوں اور پانامہ کیس کے فیصلے کے بارے میں متوقع حکمت عملیوں کی، تو میرے خیال میں نئی ڈیل یا کسی انہونی کے ہونے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا، بلکہ ہمیں تو قبل از وقت انتخابات کے کسی بھی جگہ سے اشارے نہیں نظر آرہے ہیں۔

سوال: موجودہ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر آپ کی گہری نظر ہے، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

میاں افتخار حسین: کون سی کارکردگی، آپ کو ان کی کارکردگی نظر آرہی ہے؟ ہاں ان کی کارکردگی کی لمبائی صرف پشاور موٹر وے انٹر چینج سے سی ایم ہاؤس تک برلب سڑک پودوں اور گھاس اگانے سے ناپی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ باقی صوبے کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، ان کی کارکردگی یہ بھی ہے کہ مسلسل تین سال ان سے فنڈ لیپس ہوتا رہا ہے۔ ایسے میں کس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حکومت نے تبدیلی کا وعدہ پورا کر دیا ہے؟ چار سال اس حکومت نے ضائع کردیے ہیں اب آخری سال یہ کون سا تیر مارنے جارہی ہے، جب پولیس اصلاحات کی بات کی جاتی ہے تو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ اس کے وزیراعلیٰ خود تھانوں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔

پولیس خود ہی کہتی ہے کہ پہلے ایک ایم این اے یا ایم پی اے کی فون کال آتی تھی لیکن اب تو تحریک انصاف کے کونسلروں تک کا تھانوں میں اپنے کام نکلوانے کے لیے ہر وقت جم غفیر ہوتا ہے۔ ان کی نااہلی کے کیا کہنے کہ ان کو اپنے صوبے کا آئی جی پی ہی نہیں ملا، تعلیم اور صحت کے شعبوں کی این جی اوز کے ذریعے باہر ڈوریں ہلائی جاتی ہیں۔

ظلم کی انتہا تو ہے کہ اب سرکاری اسپتالوں میں بھاری فیسوں پر مریضوں کے معائنے کیے جانے لگے، سی اینڈ ڈبلیو، ہیلتھ اور دیگر محکموں کو بھاری معاوضوں پر کنسلٹنٹ چلا رہے ہیں، اداروں میں کوآرڈینیشن کا فقدان ہے، وزیراعلیٰ کی چیف سیکریٹری سے 3 سال جب کہ آئی جی پی سے ایک سال تک شدید اختلافات رہے، کسی مسئلے کی صورت میں حکومت کے تین تین ترجمان مختلف بولیاں بولنے لگتے ہیں، کوئی انفارمیشن وزیر نہیں رکھا گیا، بعض موقعوں پر تو ان کے سارے ہی ترجمان غائب رہتے ہیں، نیب سے بچاؤ کے لیے احتساب کمیشن بنایا گیا جب کہ اس میں بھی ترامیم پر ترامیم لائی جارہی ہیں، ایک ایمان دار اور کسی کے دباؤ میں نہ آنے والے شخص کو مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا ، بہرحال کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں، صوبائی حکومت کو پاکستان کی ناکام ترین حکومت کا اعزاز دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

سوال: کیا اگلے عام انتخابات کے لیے اے این پی نے تیاریاں شروع کر رکھی ہیں؟

میاں افتخار حسین: اگلے الیکشن کے لیے اے این پی نے بھرپور تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں حلقوں کی سطح پر ورکرز کنونشن کا انعقاد جاری ہے۔ بلوچستان، سندھ اور پنجاب سمیت فاٹا کی تنظیمیں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ لوگوں سے رابطے ہو رہے ہیں، شمولیتوں کا سلسلہ جاری ہے، اسی طرح مرکزی اور صوبائی سطح پر تنظیمیں بھی انتہائی سرگرم ہیں، اگلے فیز میں عوامی جلسے کریں گے، جن میں موجودہ حکومت کی ناکامی اور اپنے دور حکومت میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کا ذکر کریں گے۔ 18 ویں ترمیم کے تحت ہم نے جو حقوق حاصل کیے اسی طرح کے مزید حقوق کے وعدے کریں گے، جو ضرور نبھائیں گے۔ اگر صوبے میں ہماری حکومت آتی ہے تو ہم فنڈز کو لیپس ہونے کے بجائے عوامی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کریں گے، جہاں تک آئندہ الیکشن کے لیے اتحاد کی بات ہے تو اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، صوبے کے حقوق اے این پی ہی حاصل کرے گی۔

سوال: آپ سیاست کے ساتھ ساتھ میاں راشدحسین شہید فاؤنڈیشن کے تحت فلاحی کاموں میں بھرپور انداز میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کچھ بتائیں؟

میاں افتخار حسین: (چہرے پر انتہائی افسردگی) اگر میرا اکلوتا بیٹا میاں راشد حسین شہید نہ ہوتا تو میں شاید یہ فاؤنڈیشن نہ بنا پاتا، لیکن اگر ایک طرف مجھ سے میرا لخت جگر چھین لیا گیا تو دوسری جانب انہی کے طفیل یہ طاقت اور حوصلہ بھی ملا کہ میں غریب، لاچار اور بے سہارا لوگوں کے کام آسکوں۔ فاؤنڈیشن نے شہداء کے بچوں، انتہائی نادار اور بے سہارا بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کا مقصد اپنے سامنے رکھا ہے۔ فاؤنڈیشن کے لیے جلوزئی کے مقام پر 100 کنال اراضی حاصل کر لی گئی ہے، جس پر عنقریب عمارت تعمیر ہوجائے گی۔ اس مقصد کے لیے میں نے اپنی تقریباً 3 جریب زمین وقف کر دی ہے، ابھی تک تقریباً ڈھائی کروڑ روپے عمارت کی تعمیر کے لیے جمع ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ میں نے خود اس کے لیے چندہ جمع نہیں کیا۔ لوگوں اور دوستوں کا پیار و محبت ہے کہ خود سے رابطہ کر کے چندہ دے رہے ہیں، اسی طرح یہ بھی بالکل واضح ہے کہ فاؤنڈیشن غیرسیاسی ہے اور رہے گی۔ پشاور پبی کے لیے 2 ایمبولینس پر مشتمل سروس شروع کردی ہے۔ اس کے علاوہ اپنے آبائی گھر کو دست کاری سینٹر بنا دیا ہے، راشد کی والدہ کا اس گھر سے انتہائی جذباتی تعلق بھی ہے۔ اس سینٹر میں ہزاروں خواتین کو تربیت دی جا چکی ہے۔ 50 کے قریب خواتین خود اپنے لیے دست کاری سینٹر چلا رہی ہیں۔ 4 کمپیوٹر سینٹر کھولے ہیں۔ وقتاً فوقتاً میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ابھی بہت سی مشکلات ہیں، اس کے باوجود فاؤنڈیشن کو ایک مثالی فلاحی ادارہ بنائیں گے۔

روخان یوسف زئی / نوید جان ( بشکریہ روز نامہ ایکسپریس)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).