چترال کی شاہی مسجد کے امام کو میرا سلام


مجھے یاد ہے جب میرے بھائی نے پانچویں جماعت پاس کر لی تو والدہ نے کہا کہ یہ قرآن حفظ کرے گا۔ میرے والد نے پہلے تو انکار کیا کہ مدرسوں کا ماحول ٹھیک نہیں ہوتا۔ والدہ نے اصرار کیا، بھائی نے بھی اپنی دلچسپی ظاہر کی تو والد کو بھی ماننا پڑا۔ اگلے روز سے والد صاحب نے لاہور کے مدرسوں کا دورہ شروع کر دیا۔ وہ ہر مدرسے میں جاتے، اساتذہ اور طلبا سے مل کر ماحول جانچنے کی کوشش کرتے۔ آخر کئی دنوں کی اس تحقیق کے بعد انہیں اپنی دکان کے پاس ایک چھوٹا سا مدرسہ مل گیا جو کہ ان کے جاننے والے ایک صاحب چلا رہے تھے۔ میرے بھائی کو اس مدرسے میں داخلہ دلوا دیا گیا۔ اس نے مدرسے میں تین سال گزارے اور ان تین برسوں میرے والد اس کا سایہ بنے ہوئے تھے۔ وہ اس کو خود مدرسے چھوڑنے اور لینے جاتے تھے۔ اپنی دن کی نمازیں بھی اس کے مدرسے میں جماعت کے ساتھ پڑھتے تھے۔ اس کے دوستوں پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے۔ وہ تین سال میرے والد نے بہت مشکل سے کاٹے۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں ان کا بیٹا غلط صحبت میں نہ پڑ جائے۔ اس کے ساتھ کچھ غلط نہ ہوجائے۔ وہ انتہا پسند نہ بن جائے۔ ان سب چیزوں نے انہیں تین سال تک پریشان کئے رکھا۔

یہ صرف میرے والد کی کہانی نہیں بلکہ اکثر لوگوں کی کہانی ہے۔ جب بھی کوئی اپنا بچہ کسی مدرسے میں داخل کرواتا ہے اسے عجیب سا خوف دامن گھیرے رکھتا ہے کہ کہیں اس کے ساتھ کچھ غلط نہ ہو جائے۔ اس ڈر کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ مدرسوں کی بدنامی ہے۔ ماضی میں اور حال میں بھی کچھ مدرسے اور ان کے منتظم کچھ ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جنہیں کسی بھی اعتبار سے اسلام پسند یا امن پسند سرگرمیاں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے لوگوں نے ان لوگوں کو بھی بدنام کر کے رکھ دیا ہ جو واقعی میں دین کی خدمت کر رہے ہیں۔

کچھ دن پہلے عبد الولی خان یونیورسٹی کے تئیس سالہ نوجوان مشال خان کو توہینِ مذہب کے الزام میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اس قتل نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس قتل کے بعد ہمیں شعور آ جاتا اور ایسے واقعات کی تعداد میں کمی ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کچھ دن بعد ہی خبر آ گئی کہ سیالکوٹ میں تین بہنوں نے ایک آدمی کو بلاسفیمی کے الزام میں مار دیا۔ اس پر ہم افسوس کر ہی رہے تھے کہ جمعہ کے روز ایک اور واقعہ ہو گیا۔ گزشتہ جمعہ کو چترال کی شاہی مسجد میں ایک آدمی نے زبردستی سپیکر پر آ کر نبوت کا دعوی کیا۔ یہ اعلان سنتے ہی لوگ اس پر ٹوٹ پڑے۔ ایسے میں امام مسجد خلیق الزماں صاحب آگے بڑھے اور اس شخص کو لوگوں کے نرغے سے نکالا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔ مشتعل افراد کو امام صاحب کی یہ حرکت بالکل پسند نہیں آئی۔ وہ توقع کر رہے تھے کہ مولانا بھی آ گے بڑھ کر ان کا ساتھ دیں گے لیکن مولانا نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور ایک اچھے مسلمان اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے قانون کو قانون کے ہاتھوں میں ہی رہنے دیا۔ اس واقعے کے بعد لوگ مولانا کے دشمن بن گئے۔ مولانا کو جان بچانے کے لئے چھپنا پڑا۔ لوگوں نے مولانا کو سبق سکھانے کے لئے ان کی گاڑی بھی نذر آتش کر دی۔

ان لوگوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ہم بہت عجیب لوگ ہیں۔ جو مولوی کفر کے فتوے لگائے، بلاسفیمی کے الزام میں قتل ہو جانے والے کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کر دے نیز لوگوں کو بھی اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے روک دے۔ ایسے مولوی کو ہمارا معاشرہ کچھ نہیں کہتا بلکہ اس کی مکمل اطاعت کرتا ہے۔ لیکن جو مولوی حضرات اپنا حقیقی فرض ادا کرتے ہیں ان کو ہم بخشتے نہیں ہیں۔ کچھ مولوی حضرات بھی قدامت پسندی میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ سادہ زندگی گزارنے کے چکر میں ہر نئی ایجاد کو اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے نے بھی مولویوں کے لئے کئی اصول بنا رکھے ہیں۔ خاص وضع قطع ہو، سفید شلوار قمیض پہنی ہو، چھوٹا سا گھر ہو جس کا خرچ بمشکل چلتا ہو، اس کے بچے صرف دینی تعلیم حاصل کریں اور اس کے گھر کی عورتیں بس اپنی وفات کے بعد ہی گھر سے باہر نکلیں۔ معاشرے کے خوف کی وجہ سے مولوی حضرات کو بھی ان سب باتوں کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔

ایسے میں اگر کوئی مولوی معاشرتی بیڑیوں کو توڑ کر آگے بڑھے تو اسے طرح طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چترال کی شاہی مسجد کے امام خلیق الزماں صاحب نے جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ ملزم بلاسفیمی کا مرتکب ہو اور بچانے والا مولوی ہو ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ میں مولانا صاحب کو “ہم سب” کے توسط سے سلام پیش کرتی ہوں۔ ان کا یہ عمل ایک نئے روشن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جھلک دکھاتا ہے جہاں امن کا بول بالا ہوگا ، قانون کی حکمرانی ہوگی اور باشعور عوام اس قانون کی پاسداری کو اپنا اولین فرض سمجھےگی۔ ہمیں مولانا جیسے لوگوں کی ہر پلیٹ فارم پر کھل کر حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ ہمیں بھی ایسے عمل کرنے کی توفیق دے۔ آ مین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).