مشال ترمیمی بل


یہ شاہراہِ دستور اور جناح اینیو کے جنکشن پہ واقع مشہورِ زمانہ ڈی چوک ہے۔ اہم ریاستی ادارے جیسے صدارتی محل، پرائم منسٹر آفس، پارلیمان اور سپریم کورٹ اسی ڈی چوک کے آس پاس ہیں۔ آج یہاں کوئی آزادی مارچ، کوئی دھرنا یا کوئی تحفظِ نظریہ پاکستان کانفرنس نہیں ہو رہی ہے بلکہ یہ ملک بھر کے تمام اہم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی اعشاریہ ون ملین کی ریلی ہے۔ یہ ریلی در اصل اس انسانیت سوز واقعے کا قومی ردِ عمل ہے جو عبدالولی خان یونی ورسٹی کے ایک معصوم اور ہونہار طالب علم مشال خان کے ساتھ پیش آیا تھا۔ جس میں توہینِ مذہب کے بے بنیاد الزام کی آڑ میں یونی ورسٹی کے اندر اور باہر سے آنے والے چند سفاک غنڈوں اور مذہبی جنونیوں نے مشال خان کا سرعام خون کرکے ان کی لاش کی بے حرمتی کی تھی۔

چوں کہ پچھلے پورے ایک ہفتے سے پورا ملک مشال خان کی بہیمانہ قتل پر سراپا احتجاج ہے، اس لیے ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے مشال خان کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ناموسِ انسانیت ریلی کا اہتمام کیا ہے۔ اس ریلی میں ملک کی دس سرکردہ جماعتیں شریک ہیں۔ ہر جماعت کے دس ہزار کارکن جس میں پانچ ہزار مرد اور پانچ ہزار خواتین شامل ہیں، اپنی اپنی جماعتوں کے جھنڈے تھامے ڈی چوک میں کھڑے ہیں۔ جن شرکاء کے ہاتھوں میں جھنڈے نظر نہیں آ رہے ہیں، وہ تبلیغی جماعت کے غیر سیاسی کارکن ہیں۔ لہٰذا یہ کُل ایک لاکھ انسانوں کا جم غفیر ہے۔

اس عظیم الشان ریلی کے لیے ایک خوب صورت سٹیج سجایا گیا ہے جس پر دس سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین براجمان ہیں اور سب کے سب سیاہ لباس میں ملبوس ہیں۔ ریلی کا یہ پروقار منظر حیران کن بھی ہے اور قابل دید بھی۔ کیوں کہ ملک کی ستر سالہ تاریخ میں ایسا ہونا محض ایک خواب تھا۔

اس ریلی کے سٹیج سیکرٹری کے فرائض محترم سراج الحق صاحب سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ جیسے ہی اپنی نشست سے اٹھ کر پوڈیم کی طرف بڑھتے ہیں تو پہلے جماعت اسلامی کے کارکنوں کی طرف سے اور بعد میں تمام حاضرین کی طرف سے نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے بلند ہوتے ہیں۔ محترم سراج الحق صاحب ایک سرد آہ بھر کر بسم اللہ پڑھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’مت لگاؤ یہ نعرہ، دکھ ہوتا ہے نعوذبااللہ، یہ نعرہ سن کر کیوں کہ مشال خان کے سفاکانہ قتل کے دوران قاتل ہجوم کی طرف سے لگایا جانے والا یہ نعرہ یاد آتا ہے۔‘‘

’’دوستو! میرا دل جل رہا ہے۔ محض ایک یہ واقعہ نہیں ہے، ایسے سیکڑوں دل خراش واقعات ہوچکے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ میں آج یہ کھلے عام واضح کرنا چاہتا ہوں کہ طالبان سے لے کر داعش اور بوکو حرام تک جو بھی دہشت گرد گروہ کلمہ طیبہ کے بینر کے سایے میں اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر بے گناہ انسانوں کا خون بہاتا ہے، میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ ربِ ذوالجلال کی قسم جب تک میں اللہ اکبر کے نعرے کی حرمت اور تقدس کو بحال نہیں کرتا، چھین سے نہیں بیٹھوں گا۔‘‘

عزیزانِ گرامی! اب میں آپ کی اس ریلی کے باقاعدہ آغاز کے لیے جمعیت علمائے اسلام (س) کے قائد محترم حضرت مولانا سمیع الحق صاحب سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ تلاوتِ کلام پاک کے بعد اپنی مختصر گفت گو سے شرکاء کو مستفید فرمائیں۔

جیسے ہی مولانا صاحب ڈائس کی طرف بڑھتے ہیں تو ریلی سے لبیک اللہم لبیک کے کچھ نعرے گونج اٹھتے ہیں۔ مولانا صاحب غصے سے لال پیلے ہوجاتے ہیں۔ ’’خاموش ہوجاؤ۔ یہ نعرہ نہ تو ریلیوں کے لیے ہے اور نہ ہی ان قاتلوں کے ساتھ سجتا ہے جو مشال خان کے قتل کے بعد وہ لگا رہے تھے۔ یہ تو وہ روح پرور حمد ہے جو ہم مسلمان خانہ کعبہ کی حاضری کے موقع پہ پڑھتے ہیں۔‘‘ مولانا صاحب سورہ مائدہ کی آیت نمبر 32 کے بعد مجمع سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: ’’جیسا کہ آیتِ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا، اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کردیا، لہٰذا شہید مشال خان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ مشال خان شہید ہیں، مشال خان مظلوم ہیں اور ان کو مارنے والے قاتل اور ظالم ہیں۔‘‘

 اس بار پنڈال سے یہ نعرے گونجنے لگتے ہیں: ’’ شہید دے، شہید دے، مشال خان شہید ے۔ مظلوم دے، مظلوم دے، مشال خان مظلوم دے۔‘‘

’’مجھے دُکھ ہے کہ میں نے ایک موقع پر بے گناہ لوگوں اوربچوں کے قاتل طالبان کو اپنے بچے کہا تھا۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ وہ خدا کے بھی نافرمان ہیں اور میرے بھی نافرمان ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے نیٹ ورک میں شامل تمام مدارس میں جدید علوم کو نصاب کا لازمی حصہ بناؤں گا اور نئی نسل کو مذہبی رواداری کا درس دوں گا۔ شکریہ‘‘

اس کے بعد مولانا فضل الرحمان کو تقریر کی دعوت دی جاتی ہے۔ مولانا صاحب گرجدار آواز میں مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’عزیزانِ گرامی! کیا آپ کو معلوم ہے کہ آج ہمارا ملک کیوں ایک قتل گاہ بنا ہوا ہے، ہر طرف قتل و قتال اور مذہبی منافرت کا فساد کیوں برپا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم علمائے دیو بند کی تعلیمات سے منحرف ہوچکے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے دور سے لے کر اب تک پچانوے فی صد علمائے دیوبند ایک سیکولر طرزِ حکومت کے علم بردار رہے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جہاں ریاست کا کوئی مذہب نہ ہو اور ہر کوئی اپنے عقیدے میں آزاد ہو۔ اگر کسی کو کوئی شک ہے تو جاکر عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں اٹھا کر پڑھ لیں۔ میں آج اس بات کا بہ بانگِ دہل اعتراف کرتا ہوں کہ وطن عزیز میں ناموسِ مذہب اور ناموسِ رسالت کے نام پر جن بے گناہوں کا خون کیا جاتا ہے، ان سب قاتلوں کے ذہنوں کو تیرگی ان ترمیمات کی روشنی میں ملتی ہے جو 1973ء کے آئین میں جنرل ضیاء الحق نے کی تھیں۔ ہمیں آج بہ حیثیت قوم یہ حوصلہ کرنا ہے کہ ہم 1973ء کے آئین کی ان تمام شقوں اور ترامیم پہ نظرثانی کریں جن کی موجودگی کی وجہ سے ناموسِ مذہب کے نام پر ناموسِ انسانیت کو تار تار کیا جاتا ہے۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ مشال خان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور ہم مزید مشالوں کو مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیں گے۔‘‘

آفتاب احمد خان شیر پاؤ کو جب اسٹیج پہ بلایا گیا تو وہ یوں گویا ہوئے: ’’ میں آج بہت دکھی ہوں۔ دہشت گرد حملے میرے اوپر بھی ہوئے ہیں لیکن مشال خان کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اب تک ہمارا خیال تھا کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی صرف دہشت گرد تنظیموں تک محدود ہے لیکن مشال خان شہید کے انسانیت سوز واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی اور جنونیت پورے معاشرے اور باالخصوص تعلیمی اداروں میں پوری طرح سرائیت کرچکی ہے۔ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ ہم سب مل کر اس ملک میں مذہبی رواداری کو بحال کریں گے۔ مشال خان اس رواداری کی علامت بن چکے ہیں۔ اس لیے میں پختون خوا کی حکومت کو اس بات پہ قائل کروں گا کہ صوابی یونی ورسٹی کو مشال خان کے نام سے منسوب کردیا جائے اور پختون خوا کے تعلیمی اداروں کے نصاب سے وہ تمام مواد نکال دیا جائے جن سے ہمارے بچوں میں نفرت اور انتہاپسندی جنم لیتی ہے۔‘‘

ان کے بعد اسفندیار ولی کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انھوں نے کہا: ’’ مجھے اس بات پہ خوشی ہے کہ ہماری قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر مشال خان کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی ہے لیکن اس بات پر افسوس ہے کہ پختون خوا کی صوبائی اسمبلی ابھی تک مذمت کی قرارداد نہ لاسکی۔ یہ ایک قومی سانحہ ہے اور اس پر قومی سوگ ہونا چاہئے تھا۔ مشال خان پر ہونے والا ظلم نہ صرف ہمارے مذہب کے خلاف ہے بلکہ یہ پختونوں کی روداری کی اعلیٰ روایات کے بھی یکسر منافی ہے۔ پختون خوا کی سرزمین تو تقسیم ہند کے فسادات میں بھی امن کا گہوارہ رہی تھی۔ یہ تو باچا خان کی جنم بھومی ہے۔ یہ تو عدم تشدد کی دھرتی ہے۔ ویسے تو مذہب کے نام پر ہمارا خطہ پچھلی چار دہائیوں سے ظلم، جبر اور دہشت کا شکار ہے لیکن ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں مذہبی جنونیت کا یہ بھیانک چہرہ پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ میں مذہبی جماعتوں کے قائدین سے گزارش کروں گا کہ اسلام ہم سب کا مشترکہ مذہب ہے۔ اسلام پر کوئی جھگڑ انہیں لیکن مذہبی منافرت اور عدم رواداری کا جو اژدہا ہم پر مسلط ہے، اگر ہم نے اسے قابو نہیں کیا تو یہ ہم سب کو نگل لے گا۔ کوئی نہیں بچ سکے گا۔‘‘

محمود خان اچکزئی جب اسٹیج پر نمودار ہوگئے تو نھوں نے اپنی بات یوں شروع کی: ’’عزیزانِ من! میں تھوڑی سی سخت بات کروں گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ مشال خان کو مردان کے چند جنونی طالب علموں نے مارا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں مشال خان کے اصل قاتل جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ مشال کے قتل کا ایف آئی آر اس ریاست کے خلاف کاٹنا چاہئے جس کے فرسودہ نظام میں قاتل ہیروز کا مرتبہ پاتے ہیں اور مقتول مطعون ٹھہرتے ہیں۔ اس خون خرابے کے پیچھے ہماری ریاست کا وہ بیانیہ ہے جو مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کو ملک کی سالمیت کے لیے ناگزیر اور حب الوطنی کی علامت سمجھتا ہے۔ آج اس اسٹیج پر بیٹھے ہوئے میں ان تمام محترم قائدین سے سوال کرتا ہوں جنھوں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا تھا۔ کیا تم میں سے کوئی خود کو مرحوم ضیاء الحق کا وارث سمجھتا ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس شرمندگی کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ تو پھر آپ ان تمام آئینی ترامیم کو کیوں سینوں سے لگائے ہوئے ہیں جو جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور کی وراثت ہیں جن کی کوکھ سے مذہبی استحصال اور منافرت نے جنم لیا ہے۔ آج وقت ہے کہ ہم ان تمام ترامیم پر کھل کر بحث کریں جن کی آڑ میں معصوم انسانوں کا ناحق خون بہایا جاتا ہے۔‘‘

اسٹیج پر کھڑے ہوکر عمران خان نے اپنی تقریر کا آغاز اس طرح کیا: ’’ایا کنعبدُ و ایاک نستعین۔ بزرگو اور نوجوانو! میں کل ہی مشال خان شہید کے والد سے مل کر آیا ہوں۔ میں نے ایک والد کی آنکھوں میں بجھتے چراغ دیکھے ہیں لیکن میں شاباش دیتا ہوں مشال خان کے والد اقبال شاعر کو جنھوں نے انتہائی مشکل وقت میں دنیا بھر کے لوگوں اور پاکستان کے نوجوانوں کو امن اور صبر کا پیغام دیا اور کہا کہ میرا مشال تو چل بسا، جو جیل میں ہیں وہ بھی میرے بچے ہیں اور ہمیں باقی مشالوں کو بھی بچانا ہے۔ یہ تو آپ سب مانتے ہیں کہ میں پاکستان کے کروڑوں نوجوانوں کا آئیڈیل ہوں لیکن صد افسوس میرے پیروکار آج بھی ایک بے ہنگم ہجوم کی مانند ہیں۔ میں ان کو جلسوں اور دھرنوں میں تو لانے میں کامیاب رہا لیکن میں نے انھیں گالی گلوچ، انتہاپسندی، نفرت اور عدم برداشت سے روکنے کی کوئی سعی نہیں کی۔ جو کام میں اپنی اکیس سالہ سیاست میں نہ کرسکا، وہ اقبال شاعر نے ایک دن میں کرکے دکھایا۔ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ جس طرح میں نے بدعنوانی کے خلاف جہاد کیا، اور خدا نے کامیابی بھی دی، اب میں نے مذہبی منافرت کے خلاف اپنی کمر کس لی ہے۔ میں ملک کے قوانین سے لے کر اسکولوں اور ان کے نصاب تک میں مثبت تبدیلی لاؤں گا۔ ایک ایسی تبدیل کہ ہمارے مشال آزاد بھی ہوں اور محفوظ بھی۔‘‘

بلاول زرداری بھٹو کو جب اسٹیج پر بلایا گیا تو پنڈال کی طرف سے نعرے بلند ہونے لگے: ’’ کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے۔‘‘ لیکن بلاول نے کہا: ’’خواتین و حضرات! مت لگاؤ یہ نعرے۔ مشال مرچکا ہے، مشال مر رہے ہیں۔ ان جیسے روشن خیال نوجوان تاریک راہوں میں مارے جا رہے ہیں، ایسے میں مَیں کیسے مانوں کہ بھٹو زندہ ہیں۔ دوستو! آج کا پاکستان وہ پاکستان نہیں ہے جس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ آج کے پاکستان کے اصل بانی جنرل محمد ضیاء الحق ہیں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ ملک بھر میں مذہبی منافرت اور انتہاپسندی کو ریاستی نظام میں جگہ دینے والے سب سے پہلے میرے نانا ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ انھوں نے مذہبی جماعتوں کے دباؤ میں آکر آئینِ پاکستان میں اپنے اقتدار بچانے کی خاطر ایسی ترامیم شامل کیں کہ آج جان بچانے کی خاطر میں ان پہ کوئی بات نہیں کرسکتا۔ مشال کے خاندان کے درد کو مجھ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے؟ مذہبی انتہاپسندوں نے مجھ سے میری عظیم ماں چھینی اور قوم کو ایک بے نظیر لیڈر سے محروم کیا۔ میں اپنی پارٹی کے دیرینہ ساتھی سلمان تاثیر کو کیسے بھول سکتا ہوں جو اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمانی سیاست اور پارلیمان کی طاقت پر یقین رکھتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہماری جمہوریت ہمارے لوگوں کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ پارلیمنٹ ہوتی ہی اس لیے کہ وہاں تمام معاملات پر کھل کر بحث ہو۔ پارلیمان کے لیے کوئی بھی موضوع حساس نہیں ہوتا، اس لیے میں تجویز پیش کرتا ہوں کہ ناموسِ مذہب کے حوالے سے ممبرانِ پارلیمنٹ خلوصِ نیت کے ساتھ کھل کر بحث کریں اور پھر اتفاقِ رائے سے ایک ایسا ترمیمی بل لائے جو ملک سے مذہبی منافرت اور انتہاپسندی کو جڑ سے اکھاڑ دے۔‘‘

میاں محمد نواز شریف اسٹیج پر آکر کہنے لگے: ’’مجھے بہ خوبی اندازہ ہے کہ اس ملک میں ناموسِ مذہب کے قوانین کا کتنا ظالمانہ اور غیر منصفانہ استعمال ہو رہا ہے۔ میں نے اس سال مارچ کے مہینے میں ہندوؤں کے مقدس تہوار ہولی پر مذہبی رواداری کے حوالے سے ایک سادہ سا پیغام دیا اور فوراً ہی انتہاپسند تجزیہ کاروں نے میڈیا پر میرا ٹرائل شروع کیا۔ یہاں تک کہ میرے پیغام کو توڑ مروڑ کر توہینِ مذہب کے ساتھ جوڑنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ مجھے یہ سب دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ میں بھی آج یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میری حکومت کے تمام ادوار میں کچھ میگا پراجیکٹس پر تو کام ہوئے ہیں لیکن میرے کسی بھی دورِ حکومت میں موثر قانون سازی نہیں ہوسکی ہے بلکہ میرے ہی دورِ حکومت میں ضیائی قوانین کی توثیق ہوتی رہی ہے،تاہم جب بھی مجھے اور میری سیاست کو مرحوم ضیاء الحق کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے تو مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ میں آج قوم سے عہد کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے دونوں ایوانوں سے چھبیسواں ترمیمی بل منظور کرواؤں گا جس کے بعد خیبر سے کراچی تک ہمارے روشن مشال انتہاپسندی کی کالی آندھیوں سے محفوظ ہوجائیں گے اور میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ اس بل کا نام ’’مشال ترمیمی بل‘‘ ہوگا۔‘‘ سامعین کی تالیاں اور نعرے گونج اٹھے، شہید دے، شہید دے، مشال خان شہید دے، ژوندے دے، ژوندے دے، مشال خان ژوندے دے۔

مولانا طارق جمیل کو اسٹیج پر دعا کے لیے دعوت دی گئی تو انھوں نے فرمایا: ’’مجھے اختتامی دعا کے لیے بلایا گیا ہے لیکن دعا سے پہلے اِک عرضِ مدعا بھی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ تبلیغی جماعت ایک غیر سیاسی جماعت ہے اور ہم حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے دور سے لے کر اب تک امر بالمعروف کا درس دیتے رہے ہیں لیکن میں دیکھ رہاہوں کہ ہمارا ملک اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے دارالفساد بن چکا ہے۔ ناموسِ مذہب کے نام پر مشال خان کے بہیمانہ قتل نے مجھے اور میری جماعت کو اندر سے جھنجھوڑ دیا ہے۔ اس لیے اب ہم نہی عن المنکر کی طرف بھی توجہ دیں گے۔ قتل سب سے بدترین منکرات میں سے ہے اور ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم قتل و غارت اور فساد کرنے والوں کو روکیں۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے انسانی جانوں کے ضیاع کو بھیڑ بکریوں کی قربانی سے تشبیہہ دی تھی لیکن آج مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ میری وہ بات ناموسِ انسانیت کی منافی تھی۔ خداوندِ کریم قادرِ مطلق ہے اور انسانی زندگی سے مقدس کوئی اور چیز نہیں۔ خدا کی ذاتِ اقدس کوئی پیر کا مزار نہیں کہ انسانی جانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح اس پر چڑھا دیا جائے۔ میں بھی آئین میں مشال ترمیمی بل کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ مشال کی روح ہمیں اس وقت تک معاف نہیں کرے گی، جب تک ہم ایک ہوکر مذہبی منافرت کو ہمیشہ کے لیے دفن نہیں کرتے۔ خدائے عزو جل ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ وآخرالدعوانا علی الحمد للہ رب العالمین۔

(میرے آج کاکالم کچھ خواب اور کچھ حقائق پر مبنی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہر زندہ حقیقت کے پیچھے ایک خواب ہوتا ہے، جس کی تعبیر اجتماعی جدوجہد کے بعد ہی ممکن ہوسکتی ہے)

ضیا الدین یوسف زئی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ضیا الدین یوسف زئی

ضیا الدین سف زئی ماہرِتعلیم، سوشل ورکر اور دانش ور ہیں۔ اعلیٰ پائے کے مقرر ہیں۔ ان کی تحریر میں سادگی اور سلاست ہے یہی وجہ ہے کہ گہری بات نہایت عام فہم انداز میں لکھتے ہیں۔ان کا تعلق وادئ سوات سے ہے۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ہیں۔ ضیا الدین یوسف زئی اقوام متحدہ سے مشیر برائے گلوبل ایجوکیشن کی حیثیت سے بھی وابستہ ہیں۔

ziauddin-yousafzai has 17 posts and counting.See all posts by ziauddin-yousafzai