اپنی بات کہنی چاہیے ، دوسروں کی بھی سننی چاہیے


عبدالقدوس قاضی

گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں عوامی فکری تناو بڑھتا جا رہا ہے اور عدم برداشت و جذباتیت کی فضا قائم ہے۔ اس حوالے سے یومیہ کوئی نہ کوئی افسوسناک خبر اخبارات کی زینت بنتی ہے جو کہ انتہائی افسوسناک امر ہے۔ ایک تعلیم یافتہ معاشرے میں فکری و نظریاتی اختلاف ہونا طبعی امر ہے لیکن اسے ذاتی بغض و عناد کی وجہ بنا لینا قطعا ًغلط اور بعید از عقل ہے۔ اس بنیاد پر انارکی پھیلانا اور عوام کو آپس میں لڑوانا سراسر فساد ہے۔ اس تناو¿ کی وجوہات تو کئی ہو سکتی ہیں لیکن اگر چند باتیں پیش نظر رہیں تو اس سے خوش اسلوبی سے نمٹا جا سکتا ہے۔

اس تناو کا ایک اہم اور مرکزی سبب غلط فہمی اور اپنی رائے کوحتمی سمجھنا ہے۔ ہر دو فریق نے اپنا الگ الگ حلقہ بنا رکھا ہے جہاں ان کے ہم خیال لوگ جمع ہیں۔ ایک رائے سے متفق لوگوں کا کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جانا بھی فطری امر ہے لیکن اپنی رائے کے بارے میں متعصب ہونا بالکل درست نہیں۔ علمی اور فکری تعصب افہام و تفہیم اور افادہ و استفادہ سے دور لے جاتا ہے جو کہ اختلاف رائے سے عین مطلوب ہے۔ اپنی رائے مع دلیل پیش کی جائے، مخاطب پر مسلط نہ کی جائے نیز مخاطب کی رائے کو بھی تحمل و بردباری سے سنا جائے اور کم از کم ایک رائے کا درجہ دیا جائے۔ دعویٰ و دلیل کو پرکھا جائے لیکن عموماً رائے پیش نہیں کی جاتی بلکہ مسلط کی جاتی ہے اور اس کے دفاع میں متعصب اور جانبدار ہو جاتے ہیں۔ دوسرے کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے عدم برداشت کی فضا جنم لیتی ہے۔ ایک دوسرے کے قریب آئے اور سمجھے بغیر اختلاف رائے کو محاذ آرائی کی حد تک لے جانے سے گریز کیا جائے۔ فاصلوں کو کم کیا جائے ورنہ دوریاں مزید غلط فہمیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اپنی خودساختہ خیالی دنیا سے باہر نکل کر ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ ضروری ہے۔

بحیثیت قومی وصف حوصلہ افزائی کے اعتبار سے ہم قحط زدہ اور انتہائی بخل سے کام لیتے ہیں۔ کوئی اگر کتنا ہی قابل ستائش کارنامہ انجام دے اور قابل تحسین کام کرے، ہم محض اس کی حوصلہ افزائی و تعریف سے اس لیے کتراتے ہیں کیونکہ وہ ہمارا ہم خیال نہیں یا مخالف ہے، حالانکہ دلی طور پر اگرچہ ہم اس کے معترف ہوتے ہیں لیکن حلقہ بندی اظہار سے مانع رہتی ہے اور ہماری خاموشی اچھائی کے تمسخر کا سبب بنتی ہے۔

جذباتیت کا عنصر بھی ہم پر اکثر غالب رہتا ہے۔ اکثر پڑھے لکھے باشعور لوگ بھی عقلیت سے نکل کر جذباتیت میں بہہ جاتے ہیں، بسا اوقات ذاتی پسند و ناپسند اس کی مرکزی وجہ ہوتی ہے۔ اس لیے ذاتی رجحانات کو پس پشت ڈال کر عقل اور اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا موزوں اور مفید رہتا ہے۔

دشمن عناصر ہمیں کبھی کبھی آگے بڑھتا اور پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ہماری کمزوریوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی ان سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہی کچھ لوگ ان کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں اور ملک و ملت کے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک شہری ایک دوسرے کا محافظ اور ملک و ملت کا امین ہے۔ چھوٹی اور معمولی باتوں کو بنیاد بنا کر اپنے آپ کو تقسیم نہ کریں۔ بڑی سے بڑی اختلافی بات بھی ملک و قوم کی یکجہتی پر قربان کر دینی چاہیے۔

ہر اہل چاہے وہ دنیا میں کہیں ہو
ملت کی وہ عزت کا ،حمیت کا امیں ہو
اللہ پہ نبی پہ اسے ایمان و یقیں ہو
اس مملکت خد اداد پہ مولیٰ کا کرم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دم ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).