انصاف کو بچاؤ
آج کل ہر کسی کو اپنے ایمان کی سند اور عقیدے کا ثبوت ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ آخر ایسا کیونکر ہوا؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے کچھ اور سوال قارئین کی نذرکرنا ضروری ہیں۔ کیوں خود کو رحمت عالم کے جاں نثار کہنے والے کوڑا پھینکنے والوں پر پتھر برسانے لگے ہیں ؟ اوریہ کون ہیں جوجھوٹے بہتان باندھنے لگے ہیں اور سنی سنائی بات پر یقین کر کے اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ اہل ایمان ہیں کیا جو جھوٹ بولتے ہیں ،منافقت کرتے ہیں۔ حساب کتاب میں بے ایمانی کرتے ہیں۔ عورتوں کی عصمتوں پر کتوں کی طرح ٹوٹتے ہیں۔ بچوں کو ہوس کا نشا نہ بناتے ہیں۔ زمین پر فساد پھیلاتے ہیں اور اپنے مفادات پر مذہب کو دکھاوے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ انسانوں کی جان بھی لینے لگے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ ان کا ایمان خطرے میں نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات سے پہلو تہی کر کے عدم برداشت کو بڑھاوا دینے والے کو کوئی للکار کر گستاخ نہیں کہتا ؟ وہ جو سکولوں پر بم اور گولیاں برساتے ہیں اور اقرا لفظ کی نفی کرتے ہیں ان کااسلام قائم رہتا ہے۔ وہ جن کو سوال سے وحشت ہے وہ قرآن کی سوچنے اور غور کرنے کی دعوت کا برملا انکار کرتے ہیں ،ان کا مذہب کیا ہے ؟ ان پر کوئی مقدمہ کیوں نہیں چلتا؟ وہ کیوں دندناتے پھرتے ہیں اور ہم کیوں بلوں میں بند ہیں؟ ہم کیوں سوال سے ڈرتے ہیں اور وہ کیوں نہیں ڈرتے جن کے پاس دلیل کی کمی ہےِ ؟
ہم جو آج مشال خان کی موت پر دکھی ہیں خون کے آنسو بہا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر کیا وہ ہم ہی نہیں جنہوں نے ظلم کے خلاف خاموشی اس لئے اختیار کی کہ وہ براہ راست ہم پر نہیں ہو رہا تھا ؟ ہم نے ایک بار مذہب کو مصلحت کے لئے استعمال ہونے پر شور نہیں کیا تو ہم مصلحت کی بساط پرمذہب کو روز استعمال ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ کہہ دینا کافی تھا کہ ہمارے مذہب کو بدنام کیا جا رہا ہے ؟ کیا مذہب کو حساس موضوع کہہ کر مذہب کو ٹھیکے پر دینے والوں میں ہم بھی بقائم ہوش و حواس شامل نہیں ہوئے؟ اور اب تک شامل ہیں۔ پھر اس سارے فسانے میں مجرم ڈھونڈتے ہوئے اوروں کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہوئے ہمارے دل پر بوجھ کیوں نہیں آتا۔ ہمیں جب سوال سے روکا گیا تو ہم نے جرح کیوں نہیں کی کہ قرآن بار بار سوچنے کی تلقین کیوں کرتا ہے۔ ملا سے کون الجھے ہم تو خاموش ہی اچھے۔ تو آج بھی خاموش رہیں دیکھیں کتنے مشال مرتے ہیں۔
سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ گلی کوچوں میں لگنے والی ان عدالتوں کو روکنے کے لئے نظام کے پاس کوئی متبادل راستہ ہے ؟ انصاف کے نظام پر عدم یقین پھیلانے والے عناصر کو بھی کٹہرے میں لانا پڑے گا۔ ان عناصر میں میڈیا،سیاستدان اور خود عدلیہ کے راہنما شامل ہیں۔ یہ معاشرہ جہاں ملک کے سب سے بڑے ایوان میں اس جملے کی گونج ہو کہ ہم عدالتوں کو نہیں مانتے، اور یہ بھی کہ عدالتیں انصاف دینے سے قاصر ہیں جہاں بچوں کو یہ جملہ سننے کو ملے کہ عدالت جا کر بھی کون سا انصاف مل جائے گا۔ اس معاشرے کے بچے کسی کو بھی چور اور گستاخ رسول کہنے پر پتھر نہیں اٹھائیں گے تو اور کیا کریں گے ؟ جہاں یہ خبر بریکنگ نیوز ہو کہ پھانسی لگنے کے دو سال بعد کوئی شخص بے گناہ قرار پایا ہے وہاں کوئی قانون اور انصاف کے دروازے کی طرف کیسے دیکھے گا ؟ وہاں لوگ کراچی میں ڈاکووں کو زندہ جلا دیں ، سیالکوٹ کے چوراہے پر دو بچوں کو سنگ سار کر دیں اور سلمان تا ثیر ، شہباز بھٹی اور مشال خان کو قتل کر دیں تو اس میں حیرت کیوں؟
یہاں تک کہ معزز عدلیہ بھی حیران ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریبا ًدو ملین کیسز پاکستان کی عدالتوں میں فیصلوں کے منتظر ہیں۔ ملزم بے گناہی کے انتظار میں جیلوں میں سڑ رہے ہیں کچھ پیشی کے انتظار میں اللہ کے حضور پیش ہو جاتے ہیں مگر تاریخ نہیں آتی اور ہماری اعلیٰ عدلیہ کے جید ججز اپنے ریمارکس کو بریکنگ نیوز کے سرخ رنگ میں رنگے دیکھنے کے نشے میں مست آزاد عدلیہ کا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ ان کو عدالتوں پر عام آدمی کے یقین کا لہو لہان چہرہ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ عدم برداشت کے خلاف بات کرنے والوں میں برداشت کا مادہ دو چبھتے سوالوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ تو اور تیری اوقات سے بات شروع کرنے والے صاحبان اختیار سے ہمیں اس عدم برداشت کی دوا چاہئے۔
مسئلہ اتنا بڑا دکھا ئی نہیں دیتا ہے جتنا بڑا ہے۔ انتہا پسندی کی جڑیں ہمارے دلوں تک آ پہنچی ہیں اگر ہم نے اس کا علاج خلوص نیت سے نہ کیا تو نہ یہ جنگ رہے گی نہ ہی یہ میدان۔ اگر ہم نے مصلحت سے بالا تر ہو کر عدم برداشت کے خاتمے کو ہماری بقا کی جنگ کی طرح نہ لڑا تو ہم ایسے ہی خسارے میں رہیں گے۔ اور آخر میں یہ حساس سوال بھی پوچھنا لازم ہے کہ مذہب کے نام کو عدم برداشت کی توجیہ بنانے والوں کو کون روکے گا ؟ مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ مصلحت کے کاروبار میں ریاستی اداروں نے جتنے پرمٹ مذہب کے نام پر ٹھیلے لگانے والوں کو دئیے ہیں اب اس کاروبار کا منافع ہمارے بچے کھانے لگ گیا ہے۔ اس کاروبار کو بند کرنے کی کنجی بھی انہی اداروں کے پاس ہے ۔یہاں عطار کے لونڈے کے پاس شفا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ مرض کا علاج کرنے پر آمادہ ہو جائے۔
سب نے مرض بڑھایا ہے تو سب کو علاج میں ہاتھ بٹانا ہو گا۔ تحمل کا مظاہرہ ریاستی اداروں اور رہنماوں کی جانب سے ہو گا تو ہم اپنی نئی نسل کو اس پر آمادہ کر پائیں گے۔ ہر خاص و عام کے لئے قانون کی گرفت ایک جیسی سخت نہیں ہو گی تو لوگ ہر گلی اور سڑک پر عدالتیں لگائیں گے۔ لوگوں کی کئی نسلیں ایک زمین کے تنازعے کے عدالتی حل کے انتظار میں بوڑھی ہوں گی تو بھی لوگ گلی اور چوراہوں میں لگنے والی عدالتوں کی خاموش حمایت کرنے لگیں گے۔ انصاف پر یقین اور قانون کی بالا دستی پر ایمان لانے کے لئے کچھ کشت کاٹنا ہو گا۔ ہر مقدس گائے سے بھی سوال پوچھنے ہوں گے اور جواب لینے ہوں گے اور سب کو مل کر دلیل کو بچانا ہو گا۔
- قانون کی بالا دستی کا خواب! - 23/01/2019
- ہم لبرل نہیں ہیں! - 09/11/2018
- انصاف کو بچاؤ - 24/04/2017
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).