کانچ کی نیلی سبز گیند


22 اپریل ارتھ (کرہ ارض) ڈے ہے اور 23 اپریل کتاب اور پبلشنگ کا دن۔ دو اہم دن آئے اور خاموشی سے گزر گئے۔ اس دوران ہم میں سے کچھ گاڈ فادر کو دریافت کرتے رہے، کچھ اور گرما گرمی، ہلا گلا ہوتا رہا۔ باقی ماندہ دوست شاید آئی۔ پی۔ ایل کی چکاچوند میں گم۔

ہم میں سے کون ہے جو اپنے گھر میں موجود کسی ننھے منے بالک کو باآسانی سمارٹ فون استعمال کرتا دیکھ کر خوش نہیں ہوتا۔ ماں صدقے! لیکن غور کیجئے، شاید ان نونہالوں سے زیادہ جینئس وہ ڈویلپر ہے جو ایسی سادہ و قابل فہم ایپلی کیشن بناتا ہے جنہیں اوسط سمجھ بوجھ کے بچے بھی سمجھ سکیں۔ کچھ ایسی ہی الٹی گنگا ہم دیگر معاملات میں بھی بہاتے ہیں۔ ہمارے ولایت پلٹ دوست ہمیں اطلاع دیتے ہیں کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں لوڈ شیڈنگ بالکل نہیں ہوتی لیکن پھر بھی وہ لوگ بجلی ضائع نہیں کرتے۔ آٹھ بجے شاپنگ مال بند۔ شاید یہاں بھی اصل قصہ یوں ہے کہ پہلے وہاں بجلی کی بچت کی جاتی ہے، اس کے نتیجے میں وہ توانائی کی کمی کا شکار نہیں اور محض بجلی ہی کیا پینے کا پانی، قدرتی گیس اور ایندھن بھی۔ اجتماعی دانش اگر محاوروں سے بھی جھلکتی ہے تو ان اقوام کا محاورہ ہے کہ ایک پیسہ بچایا مطلب ایک پیسہ کمایا۔ ظاہر ہے پیسہ سے مراد کسی بھی چیز میں بچت کی چھوٹی سی اکائی ہے، صرف روپیہ پیسہ نہیں۔

کچھ روز قبل ایک کتاب نظر سے گزری۔ بعنوان پانی اور بجلی کی بچت کے پچاس طریقے۔ اس کی مصنفہ تھیں شان بیری۔ آپ پچھلے سال لندن میئر کی امیدوار بھی تھیں۔ خلاصہ بیان کرنے کا موقع نہیں لیکن خیالات جان کر حیران ہوتے گئے کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ ذمہ دار شہری کی اصل تشریح اور کرہ ارض کے صحیح وارث۔ یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمیں کا۔ ہاتھوں پر صابن ملنے کے دوران نل بلاوجہ کھلا رکھنے تک پر تنقید۔ کہتی ہیں کہ گھروں کے فرش وغیرہ کی صفائی کے لیے صاف فلٹر شدہ پانی کے بجائے گرے واٹر یعنی نہانے کا استعمال شدہ پانی بروئے کار لانا چاہیے ۔ ابھی تو محترمہ نے ہم پنجابیوں کو گرمی کی شاموں میں گھر کے سامنے سڑک پرربڑ کے پائپ سے پانی لگاتے نہیں دیکھا، پینے کے قابل ٹھنڈا میٹھا پانی! ایک اور صدمہ بھی دیا۔ خاتون فرماتی ہیں لندن میں گھروں کے آگے کی کیاریاں ختم کر کے پکا فرش بنانے کے رواج سے وہاں کے ایک ہائیڈ پارک جتنے رقبے کا سبزہ ختم ہوا۔ اس کی تقابلی تشریح لاہور میں کرنے کی ہمت نہیں۔ ایک لارنس گیا یا ایک ریس کورس؟ کرہ ارض کی خلا سے لی گئی کوئی تصویر دیکھیں۔ کیسا پیارا نیلا دھانی بنٹا ہے! پانی اور سبزے سے بھرا۔ اسے ایسا ہی رہنے دیں۔ ہم اس جنت کے عارضی مکین ہیں، اس کے گاڈ فادر نہیں۔

گاڈ فادر کے ڈان سے بھی زیادہ مشہور ایک اور ڈان ہے، ڈان کیخوٹے! اونچے آدرشوں کا معصوم رکھوالا۔ اس بے مثل کردار کے خالق سروانتے کی تاریخ وفات 23 اپریل ہے۔ کچھ روایات کے مطابق شیکسپیئر کی تاریخ وفات بھی یہی ہے۔ ان مشاہیر کی تعظیم میں 23 اپریل کو کتاب کا دن منایا جاتا ہے۔ اب ہماری کتاب فراموشی کا کوئی نیا نوحہ کیا ہوسکتا ہے۔ گئے برس اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں پہلی بار جانا ہوا۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ ریسیپشن کے قریب ایک چھوٹی سی الماری تھی جس میں کچھ ناول اور کتابیں رکھی تھیں۔ مقصد یہ تھا کہ جو کوئی کتاب پڑھ چکے ہیں اس میں رکھ دیں اور اپنی پسند کی کوئی نئی اٹھا لیں۔ اس سال دوبارہ چکر لگا تو وہ الماری نہیں تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ غیر ملکی ہی اس لین دین کو نبھاتے تھے۔ لیکن زیادہ مہمان لوکل ہیں (پاکستانی نہیں لکھ رہا، معذرت!)۔ وہ کتابیں لے تو جاتے ہیں لیکن آنے والوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑتے۔

واقعی یہ سوال ہے کہ ہم بعد میں آنے والوں کے لیے کیا چھوڑتے ہیں؟ کبھی خدانخواستہ پبلک ٹوئلٹ استعمال کرنے کے کرب سے گزریں تو دیکھیں، ہم اپنے بعد آنے والے کے لیے اسے کس حال میں چھوڑتے ہیں؟ ٹرین پکڑیں تو دیکھیں اترنے والے نئے آنے والوں کے لیے کیا تحائف ورثہ کر گئے ہیں۔ کچھ یہی حال ہم کہیں سبز نیلی زمین کا بھی نہ کر جائیں۔ہمارے بچوں کے لیے یہ سب سے خوبصورت کانچ کی گولی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).