ڈاکٹر احسن اختر ناز: لوح وقلم کا امین نہ رہا


\"farhanپنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر احسن اختر ناز کی گزشتہ ہفتے وفات نے ان کے چاہنے والے ادب و صحافت سے وابستہ ہزاروں افراد کو غم میں مبتلاکر دیا۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز شعبہ ابلاغیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرکی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ انتہائی کھلے ڈلے مزاج کے حامل شخص تھے۔ پروفیسروں والی رویتی خشک مزاجی ان میں نام کو نہیں تھی۔ ان کی موجودگی میں ہر محفل کشت زعفران بنی رہتی تھی۔ بات بات پر کوئی فقرہ شرکائے محفل کی جانب لڑھکا دیتے تو اگلے کچھ لمحوں کے لیے قہقہے بلند ہونے لگتے۔ ان کے دفتر میں کوئی طالب علم اپنے کسی کام کے سلسلے میں جاتا تو باہر نکلتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمایاں ہوتی تھی۔ کمرہ جماعت میں لیکچر کے دوران وقفوں وقفوں سے لطیفے اور اشعار سنایا کرتے تھے۔ پاکستان میں 2002ء کے بعد میڈیا میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ اکثر کہتے تھے کہ اب میڈیا ہاؤسز میں صحافتی اخلاقیات اور حد بندیوں کی پروا نہیں کی جاتی۔ اگر کبھی تنقید بھی کرتے تو ان کی لہجے کی شگفتگی برابر برقرار رہتی تھی۔

ڈاکٹر احسن اختر ناز کی اپنے شاگردوں کے ساتھ بے تکلفی بہت مشہور تھی۔ بہت سے طلباءکو اپنی ہی تفویض کردہ دلچسپ عرفیتوں سے پکارنا ان کا منفرد انداز تھا۔ کبھی کہتے ”اوئے شیخوپورے والے“، کبھی ”کشمیر والے ذرا بات سننا‘، تو کبھی ”اوئے نمونے تم یہاں کیا کر رہے ہو“۔ کسی معاملے میںانتظامیہ اور طلباءکے درمیان تناﺅ ہو جاتا تو طلباءکے جائز حقوق کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے خواہ اس کے ردعمل میں انہیں کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے۔ شعبہ ابلاغیات کے حمید نظامی میموریل ہال میں ایک سیمینار میں ایک مقرر صحافی کی کسی بات پر ایم ۔ اے کی طالبہ سیخ پا ہو گئی۔ اس نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور واک آو¿ٹ کر گئی۔ بعد میں ادارے نے اسے ایک ہفتے کے لیے ایکسپیل کر دیا اور اس صحافی سے معافی مانگنے کو کہا ۔ وہ کچھ پریشان تھی تو ڈاکٹر ناز صاحب نے اس سے مخاطب ہو کر کہا ”لڑکی! ایکسپیل ہونے پر پریشانی کیسی؟ جاو¿ ہائی کورٹ سے بحال ہو کر آ جاو¿۔م یں بھی تو کئی بار ہائیکورٹ سے بحال ہو کر آیا ہوں“۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز کی کوشش ہو تی تھی کہ ان کے شاگرد اچھے میڈیا ہاوسز میں ملازمتیں حاصل کریں۔ انہوں نے کئی طلباءکو ٹی وی چینلز اور اخبارات میں نوکریاں دلوائیں اور آج ان کے ہاتھ کے لگے یہ پودے تناور درخت بن چکے ہیں۔

\"ahsanپنجاب یونیورسٹی اپنی گراں قدر علمی خدمات کی روشن تاریخ رکھتی ہے مگر کچھ برسوں سے اسے داخلی سطح پر بدبودارسیاست کا سامنا ہے۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ دانش گاہیں اب علم کی پرورش کی بجائے عہدوں کے لیے لابنگ اور گروہ بندی کا شکار ہو گئی ہیں۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز کو پنجاب یونیورسٹی کی مکروہ سیاست نے گہرے کچوکے لگائے، پیہم انکوائریاں چلیں، ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹائے گئے، الزامات لگے مگر ان کی فراخ پیشانی پر بل نہ پڑا۔ شنید ہے کہ یونیورسٹی کے ارباب حل وعقد کواب احساس ہو چکا تھا کہ ماضی میں ڈاکٹر ناز کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں۔ زندگی کے آخری چند مہینوں میں انہیں دلائی گئی ترقی کی امید تشنہ تکمیل ہی رہی اور ڈاکٹر ناز گریڈوں اور ترقیوں کی یہ دنیا چھوڑ کر وہاں چلے گئے جہاں درجے اور سکیل کسی بندے کے دستخط کے محتاج نہیں ہوتے۔

وہ ایک عرصے سے ذیابیطس کے مرض سے لڑ رہے تھے ۔اسی دوران انہیں پھیپھڑوں اور دل کے عارضے بھی لاحق ہو گئے لیکن اس کے باوجود وہ لیکچرز دیتے اور اپنے دوستوں کی محفلوں کو بھی اپنی سدا بہار مسکراہٹوں اور قہقہوں سے آباد رکھتے تھے۔مرض کی شدت کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل ان کی ایک ٹانگ کاٹنی پڑی۔عیادت کے لیے حاضری ہوئی تو کہنے لگے ”کوئی بات نہیں ۔ اس دنیا میں کئی لوگ حادثات کا شکار ہو کر بھی تواعضاء سے محروم ہو جاتے ہیں“۔ ان تکلیف دہ لمحات میں بھی ان کے چہرے پر افسردگی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ وہ ایک مجلسی آدمی تھے۔ کنج خانہ میں محدود ہو کر کہاں رہ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معذوری کے باوجودکچھ عرصہ قبل شعبہ ابلاغیات کے زیر اہتمام منعقدہ بین الاقوامی میڈیا کانفرنس میں بھی وہیل چیئر کی مدد سے تشریف لائے ۔

ڈاکٹر احسن اختر نازکو قریب سے جاننے والے احباب کے بقول وہ متوسط طبقے سے اٹھان بھرنے والے ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ 1959ءمیں ٹاؤن جیون آنہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور سیاسیات میں ماسٹرز کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں نوجوانوں کے ایک رسالے کی ادارت بھی کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی سے 2000ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 2007ء میں ای ایم ایس ٹی یونیورسٹی جرمنی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی صحافت اور تدریس میں میدان مں خدمات ربع صدی پر محیط ہیں۔ 80ء کی دہائی کے اخیر میں ایک برس تک یو نیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے افسر تعلقات عامہ رہے ۔ اس کے بعد ایک معروف قومی اخبار میں کچھ عرصہ تک سب ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد ایک بار پھر پنجاب یونیورسٹی میں آفیسر تعلقات عامہ کی حیثیت سے تقریباً چار سال کام کیا۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی ہی کے شعبہ ابلاغیات میں لیکچرر تعینات ہو گئے۔ 2004ءمیں ایسوسی ایٹ پروفیسر بنے اور آخر وقت اسی عہدے پر فائز رہے۔

ان کی ڈائریکٹر شپ کے دور میں شعبہ ابلاغیات میںہم نصابی سرگرمیاں بھی اپنے عروج پر ہوا کرتی تھیں۔ ہر ہفتے سیمینارز منعقد ہوتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے دور میںطلباءکے لیے ان کے دفتر کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ تدریس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تالیف و تصنیف کی جانب بھی توجہ مبذول رکھی۔ ان کی تصانیف پاکستان میں ترقی پسند صحافت، مقالات، صحافتی اخلاقیات، صحافتی ذمہ داریاں اور صحافتی قوانین آج بھی صحافت کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام کے لیے پرعزم نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ ان کا شعری ذوق بھی خوب تھا۔ طبیعت رواں ہو تو خود بھی شعر کہا کرتے تھے۔ لیکچر کے دوران گاہے بگاہے اساتذہ کے اشعار کا بر محل استعمال ان کی خوبی تھا۔ ان کے والد مجذوب چشتی معروف شاعر تھے۔ ڈاکٹر ناز نے ان کی تخلیقات کو جمع کیا اور بیماری ہی کے دنوں وہ چھپ کر آئی۔ احسن اختر ناز کے کالم اور مضامین بھی قومی اخبارات میں چھپتے رہتے تھے۔ لاہور کے دانشوروں کی تنظیم ”کونسل آف نیشنل افیئرز “ کے ہفتہ وار اجلاسوں میں سرگرمی سے شریک ہوتے تھے۔

موت اس کائنات کی اٹل حقیقت ہے جس کا ذائقہ ہر انسان نے چکھنا ہے ۔خوش قسمت ہے وہ انسان جس کی زندگی کے بعد بھی اس کا اچھا تذکرہ کرنے والے لاتعداد ہوں۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز کے جنازے میں لوگوں کی تعداد دیکھ کر لگتا تھا کہ گویا سارا شہر ہی امڈ آیا ہو۔ یہ اس شخص کی ان محبتوں کا ایک اظہار تھا جو اس نے عمر بھر اپنے ملنے والوں میں بانٹی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments