یہ طالبان کتنے برے ہوتے ہیں، لبرل طالبان بھی اور مذہبی طالبان بھی


طالبان کتنے برے ہوتے ہیں۔ وہ دوسرے کو بات کرنے کی سپیس دینے کے قائل نہیں ہوتے ہیں۔ جو ان کے خیالات سے متفق ہو صرف اسے ہی بولنے دیتے ہیں۔ مخالف رائے رکھنے والے کی زبان بندی کر دیتے ہیں۔ ذرا کچھ اختلاف ہو تو تشدد پر اتر آتے ہیں۔ کبھی گردن مارتے ہیں کبھی بندہ مارتے ہیں اور کبھی مت ہی مار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اپنا ذہن استعمال مت کرو۔ صرف ہمارے ذہن سے سوچو۔ اپنا دماغ استعمال کرنا بری بات ہے۔ جو ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ اسے ہم جینے کا حق نہیں دیں گے۔ اس کے خیالات کو مٹا ڈالیں گے۔ معاشرے میں صرف ہمارے ہم خیال افراد کا وجود ہونا چاہیے۔ مختلف سیاسی یا مذہبی خیالات رکھنے والے کی ہمارے معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں تکثیریت نہیں ہونی چاہیے۔ صرف ایک ہی قسم کے لوگ ہوں۔ تکثیریت دشمنی طالبانیت کی پہچان ہے۔ وہ مختلف فکر والے طبقات کے ساتھ مل جل کر ایسا نظام بنانے کے قائل نہیں ہوتے جس پر مذہبی انتہا پسند بھی متفق ہو اور لبرل بھی۔ ان کو صرف اپنی مرضی کا نظام ہی چاہیے ہوتا ہے۔ وہ بات چیت کے دشمن ہوتے ہیں۔ ان کی دلیل ڈنڈا ہی ہوتی ہے۔

وہ آزادی اظہار کے مخالف ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو ہم بتا رہے ہیں، تمہارے لئے وہی کافی ہے۔ کسی دوسرے کی بات سننے کی تمہیں اجازت نہیں ہے۔ کوئی دوسری بات کرنے کی ہم تمہیں اجازت نہیں دیں گے۔ دوسروں کی رائے کو ہم برداشت کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے ہم جسمانی دہشت گردی کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے اور وہ ہمارے بس میں نہ ہو تو فکری دہشت گردی سے کام چلا لیں گے۔

وہ یہ نہیں کہتے کہ صرف ہیٹ سپیچ کو ہی بین کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے مخالف کی ہر قسم کی سپیچ کو بین کیا جائے۔ ابھی مشال کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ اسے طالبان نے ہی تو مارا تھا۔ روشن خیال طالبان نے۔ یونیورسٹی میں پڑھنے اور پڑھانے والے لبرل طالبان نے۔ وہ جہادی فکر کے نفاذ کے علمبردار طالبان تو نہیں تھے۔ وہ تو خود کو لبرل اور سیکولر سوچ کا حامی کہتے تھے۔

اب خود کو لبرل کہلانے والے بھی طالبانیت پر اتر آئین تو یہ معاشرے کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ لگتا ہے کہ اب صرف سیاہ اور سفید کی آپشن ہی دستیاب ہے۔ یا تو آپ مذہبی طالبان بن جائیں یا لبرل طالبان۔

برداشت اور رواداری اب ہمارے معاشرے سے رخصت ہوئی ہے۔ جیو اور جینے دو کا ماٹو ہماری دھرتی پر نہیں چلے گا۔ مذہبی انتہا پسند بھی دوسروں کو مٹا کر صرف اپنی فکر کا غلبہ چاہتے ہیں اور لبرل انتہا پسند بھی یہی چاہتے ہیں۔ مذہبی طالبان لبرل کو جینے کا حق نہیں دینا چاہتے اور لبرل طالبان مذہب کے دشمن ہوئے کھڑے ہیں۔ اعتدال تو رخصت ہوا ہے۔

یہ لبرل اور مذہبی انتہا پسند طالبان بات چیت کے ذریعے انتہا پسندی کو ختم نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو حل صرف گولی میں ہی دکھائی دیتا ہے۔ اپنے مخالف کو گولی مارو اور معاملہ ختم کرو۔ خود نہ مار سکو تو ریاست کو کہو کہ وہ مار دے۔ پھر حیران ہوتے رہو کہ لال مسجد کے بعد انتہا پسندی زیادہ کیوں ہو گئی ہے۔

یہ طالبان کتنے برے ہوتے ہیں۔ لبرل طالبان بھی اور مذہبی طالبان بھی۔

تو وہ کون شکایت کر رہا تھا کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے؟ اپنے لبرل ازم کو تو سنبھالیے حضرت، پھر مذہبی انتہا پسندی پر بات کرتے ہوئے آپ اچھے لگتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar