میں “دا نیوز” سے  معافی چاہتا ہوں


پاکستانی صحافت کبھی فیض، سبط حسن، حمزہ علوی، میاں افتخارالدین، مظہرعلی خان اور آئی اے رحمن جیسے ناموں سے جانی جاتی تھی، آجکل ہر جانب لقمانیاں، دانشیں، غلامیاں، چڑیاں، طوطے اور انگوٹھوں کی بہاریں ہیں۔ کبھی گنتی کا، کل ملا کے، ایک ہی ٹی وی چینل ہوتا تھا، اب گنتی ہی شمار نہیں، چونکہ گنتی شمار نہیں، لہذا، ہذیان اور خلجان کے پیمانے بھی اب ہر جانب چھلکے پھرتے ہیں، اور آپ بھلے اسے تسلیم نہ کریں، مگر اگر آپ کو اک لڑکھڑا کر سنبھلتی اور آگے کی جانب بڑھتی جمہوریت میں مسلسل خامیاں اور برائیاں نظر آ رہی ہیں، تو آپکو مبارک ہو، کیونکہ آپ بھی اک میڈیائی مریض بن چکے ہیں۔

پاکستان میں بید اور بندوق کے زور پر اسلام آباد میں سیاسی بدمعاشی کرنے والے تو سب چلے گئے۔ تین وفات پا چکے، ایک آجکل دوبئی کے نائٹ کلبز میں اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کا ناچ ناچ کر علاج کر رہے ہیں۔ یہاں میرا ملک، میری ریاست اور میرے لوگ انہی صاحب کے  مچائے ہوئے ناچ سے ابھی بمشکل سنبھلنا شروع ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ڈانسر کو پاکستان سے گئے تقریبا دس برس بیت چکے، مگر ابھی بھی پاکستان کے زخم تازہ ہیں، اور ہروقت کسی نئے زخم کا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے۔ ابھی پاڑہ چنار کی شہادتیں کل ہی کی بات ہیں، اور مشال خان شہید کا واقعہ تو جیسے آج صبح ہی ہوا تھا۔ پاڑہ چنار جیسے واقعات ڈانسنگ ہارر (Dancing Horror) کی دین ہیں، مشال جیسے واقعات سُرمے والی سرکار کی قبر کا تاج ٹھہرے۔

بید اور بندوق نے دنیا بھر کی تاریخ میں کبھی بھی سیاسی حل پیدا نہیں کیے، مگر یہ  تاریخ کے تسلسل کا عمومی مسلم ہیجان ہے جو پچھلی کئی صدیوں کی دین ہے کہ جس میں سپہ سالار کو فرشتوں کے آس پاس کی مخلوق ہی سمجھا جاتا رہا ہےاور اس سے ایسے ایسے معجزات کی توقع بھی کی جاتی رہی ہے کہ جس کہ انہیں خود بھی توقع نہیں ہوتی ہو گی۔ سیاست اور مملکت کی ترقی میں شارٹ کٹس کچھ ایسا ہی نتیجہ پیدا کرتے ہیں۔ شارٹ کٹ سے تو چائے کا ایک کپ ٹھیک نہیں بنتا،  قوم کیا بنے گی؟ یہ دھرنے کروانے اور ایمپائر بن کر انگلیوں کے وعدے کرنے اور  مائیک، کیمرہ اور قلم پکڑ کر ان کا ساتھ دینے والے اب سوچیں اور خدارا سمجھ ہی لیں تو یہ بھی ان کا  ریاست و مملکت پر احسان ہی ہو گا۔

مائیک، کیمرہ اور قلم کی بید اور بندوق کے ساتھ دوستی کوئی نئی نہیں۔ یہ تو وہ سلسلہ ہے جس نے ڈھاکہ میں محبت کا زمزم بہائے رکھا، 1965 کی جنگ میں سبز پوش بابوں کی بھنگ پلائے رکھی، کارگل کو فتح قرار دئیے رکھا اور اگلے دس سال ملٹری ڈیموکریسی کے فوائد گنواتا رہا ۔ یہ بتائے رکھا کہ زمین اور کائنات کی کُل کرپشن صرف اور صرف پاکستانی سیاستدان کر رہے ہیں، اور اگر سیاستدانوں کو بذریعہ تبدیلی والے ٹھمکے مار مار کر اقتدار سے باہر نہ نکالا گیا تو پاکستان، خاکم بدہن، کل صبح موجود نہ ہوگا۔ کبھی سلمانی چینل نے ساتھ دیا، تو کبھی شکیلوی مہارتیں گونجتی رہیں۔ بیچ میں ادھر ادھر سے سلطانی چینل بھی کل تک کی ڈیڈ لائنز دیے بیٹھا رہا، اور کسی نے  ایسا سماں (سماء) باندھے رکھا کہ  ہر سیاستدان مکیش مرحوم کی طرح یہ گانا گائے  کہ “اک میں ہی برا ہوں، باقی سب لوگ اچھے ہیں،” اور اس پر دل و جان سے ایمان بھی لے کر آئے۔ مائیک، کیمرہ اور قلم وہ چھلنی بن چکے، جو پاکستان میں موجود لڑکھڑاتے، مگر پہلے سے زیادہ پرعزم جمہوریت کے چھاج کو سوراخ ہونے کا طعنہ دیتی ہے۔

ابھی پچھلے سال پانامہ لیکس کا غلغلہ بلند ہوا۔ پورا سال بلند رہا۔ اس پورے سال میں دا نیوز کے رپورٹرز کو صحافیوں سے ناصح، تجزیہ نگار، سیاستدان، جج، سماجی ریفارمر اور پانامہ لیکس کے فیصلہ کے بعد “خواہشاتی جلاد” بھی بنتے دیکھا۔ دا نیوز کے یار لوگوں نے گویا یہ لازم جانا کہ جاہل پاکستانیوں کو یہ باور کروایا جائے کہ ان کے جدِامجد، کہ جو کبھی جنرل ضیاءالحق کے سرخیل (خلیل) تھے ، کی رسم تازہ کرتے ہوئے اک  ایسا قومی بیانیہ تخلیق کیا جائے جس کی باگیں دا نیوز کے یاروں کے ہاتھ ہوں، اور کیا ہی عمدہ ہوتا اگر اس بیانیہ کی ابتدا، سپریم کورٹ کے ججز انہیں اپنے چیمبرز میں بلوا کر ، ان سے انگریزی لکھوا کر کروا دیتے۔ مگر کیا کریں کہ یہ نگوڑ ماری عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ، دا نیوز  اور جنگ کرنے والے گروپ کے علاوہ سلمانیوں، سلطانیوں اور سمائیوں کی خواہشات پر نہیں چلتی۔

اپنے تئیں جمہوریت کی جدوجہد کرنے والے صحافیانہ گروہ، جو سرکاری اشتہارات کے نہ ملنے پر آدھے آدھے صفحے کی اپیلیں بھی شائع کرتے رہے ہیں، اس قوم کے لیے گویا اپنی مرضی کی جمہوریت و ریاست چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ جو ان کی مرضی و منشا ہو، وہی قوم اور ریاست کے اداروں کی منشا بھی بنے۔ اک خبر کو رپورٹ کرنے کے بعد سے ناصح اور انقلابی بن جانے کا سفر، اپنے تئیں قوم کا بیانیہ بنانے والوں کی سطحیت دکھانے کے لیے کافی ہے۔

قوم بھی جانے، سمجھے اور سیکھے کہ مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر بھی اسے سیاسی پراسس کا حصہ سمجھ کر قبول کرلینا اور جمہوریت کے سفر میں آگے بڑھتے چلے جانا بھی اجتماعی دانش کو فروغ دیتا ہے۔ جمہوریت میں آج اگر زید کی باری ہے تو کل کی باری بکر اور پرسوں کی  باری عمر (اسد عمر؟) کی ہوگی۔ آپ ردعمل کا شکار ہونے کی بجائے، پروقار طریقے سے اختلاف کرتے ہوئے، اپنے حصے کا سیمنٹ کیوں نہیں ڈالتے، ریاست کی اس سیاسی بنیاد میں کہ جس میں ہزاروں نہیں، لاکھوں چھید ہو چکے ہیں؟ ان میں اضافہ کیا ضروری ہے؟

باقی، پاکستانی صحافیانہ گروہوں کی صحافت سے کمٹمنٹ کا معیار اگر دیکھنا ہوتو یہ دیکھ لیجیے کہ انہوں نے پچھلے تیس برسوں میں کتنی “بریکنگ نیوز” دی ہیں، کہ جن کا اصل تحقیق تھی، اور جس نے اک بار ہلا کر رکھ دیا۔ ابھی نیویارک ٹائمز کی ایگزیکٹ کے بارے میں خبر تو کل کی ہی بات ہے۔ ہمارے دا نیوز  اور ان جیسے دیگران  کے کریڈٹ پر واقعاتی رپورٹنگ کے علاوہ کچھ ملتا ہوتو خادم کے علم میں اضافہ کر دیجیے۔

پس تحریر: دا نیوز، میں لفظ “دا” پنجابی زبان سے مستعار ہے۔ اس کا کسی اخبار سے کوئی تعلق نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).