“ہم سب” کا ڈبہ گول ہو گیا


محترم عدنان خان کاکڑ سے میں بہت تنگ ہوں۔ ہم سب کی انجمن مصنفین کے رکن رکین ہیں۔ ہم سب سے بڑھ کر اس آن لائن پلیٹ فارم کو وقت دیتے ہیں، اس کے بارے میں سوچتے ہیں، اس کی تیکنیکی معاملات دیکھتے ہیں، دوسروں کی لکھی تحریروں کو ایڈٹ کرتے ہیں۔ کوما، فل سٹاپ لگاتے ہیں۔ املا کی تصحیح کرتے ہیں، پالیسی دیکھتے ہیں، لکھنے والوں سے خط و کتابت کرتے ہیں، اور نامعلوم کیسے وقت نکال کے سوشل میڈیا کی پھیلی ہوئی دنیا پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ٹرکش ریستوران ان کی کمزوری ہیں۔ شہر میں کہیں ترکی ریستوران کھلنے کی خبر آ ئے تو وہاں کھانا کھاتے ہیں، خوش ذائقہ کھانوں کی سجی سجائی پلیٹوں کی خوبصورت تصویریں کھینچتے ہیں۔ میرے جیسے کم استطاعت اور دانتوں سے محروم پوپلے دوستوں کا دل جلاتے ہیں۔ شہر میں آنے والے دوستوں کی مہمان نوازیاں کرتے ہیں۔ دوسرے شہروں میں جا کر احباب کا بجٹ خراب کرتے ہیں، ان کا گھریلو ماحول کشیدہ کرتے ہیں اور وقت برباد کرتے ہیں۔ پہاڑوں کی سیر پر نکلتے ہیں تو سفرنامہ بھی لکھتے ہیں۔ فوٹو گرافی سے شغف ہے۔ اپنے بچوں کو بھی وقت دیتے ہیں۔ کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ بہت اچھا لکھتے ہیں اور خوبی یہ کہ جتنا زیادہ لکھتے ہیں، ان کا قلم اسی تناسب سے زیادہ روشنی اور کھلکھلاتی شگفتگی بکھیرتا ہے۔ اتنی خوبیاں کسی ایک شخص میں ہوں اور خرابی کوئی نہ ہو، ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ بندہ خدا میں ایک ہی خامی ہے۔ ادبدا کر سب سے لڑائی مول لیتے ہیں۔ طنز میں زہرناکی بھلے نہیں ہو لیکن ایسا خضر صورت روپ دھار کر، ایسے چھیل نند لال پرکار سے، چھیڑ خانی کرتے ہیں کہ جس پر قلم اٹھ گیا، وہ غریب نیند میں بھی عدنان خان کو گالیاں دیتا ہے۔ کہتے ہیں، مرزا سودا کا ایک خاص خادم تھا، غنچہ اس کا نام تھا۔ مرزا کو کسی پر طیش آتا تو پکار کر کہتے تھے، ارے غنچے، لائیو، میرا قلمدان۔۔۔۔ عدنان کو قلم دان کی ضرورت ہی نہیں۔ طبیعت میں اس قدر شوخی، بارود اور فتنہ پروری بھری ہے کہ سارا شہر ان سے نالاں ہے۔ میری بے زاری دوسروں سے سوا ہے۔ کیونکہ مجھے ان کا دوست سمجھا جاتا ہے۔ عدنان خان کو اگر سو گالیاں دی جائیں تو دس میرے حصے میں بھی آتی ہیں۔ میں ایسا خوش مزاج نہیں کہ بے سبب گالیاں کھاؤں اور بدمزہ ہونے سے محروم رہوں۔ تلملا کر ادھر ادھر دیکھتا ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ یار عزیز نے پھر کسی لال بجھکڑ کے کان میں مہتابی رکھ کے فتیلے کو آگ دکھائی ہے۔ میں ہرگز صلح جو نہیں ہوں، تحمل کی اس قدر کمی ہے کہ بدمزگی کے اندیشے سے بھی دور بھاگتا ہوں۔ مجھے عدنان خان کی صحبت غیرصالح کا تاوان ادا کرنا پڑتا ہے اور کس منہ سے کہوں کہ صاحب، جان ضیق میں ہے، ناک میں دم ہے۔

“ہم سب” کو چودہری صاحب کی ایک چھوٹی سی چوپال کہیے، خان صاحب کا حجرہ کہیئے، سائیں کا اوطاق کہیے، سچ تو یہ ہے کہ مل بیٹھنے کی اور اپنی اپنی کہنے کی ایک جگہ ہے۔ ہم سب کسی کی جاگیر نہیں، جو اسے پڑھتے ہیں، یہ ان سب کا ہے، جو اس کے لئے لکھنے کا کشٹ کاٹتے ہیں، ان سب کے لئے حاضر ہے۔ کسی سیاسی جماعت کا اس پر اجارہ نہیں۔ ثبوت یہ کہ پچھلے پندرہ ماہ میں سب سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے باری باری ایکا کر کے گالیاں دی ہیں۔ یہیں پر بھٹو صاحب کی تعریف چھپتی ہے، یہیں پر نواز شریف پر تنقید بھی لکھی جاتی ہے۔ یہاں محمد علی جناح کو قائد اعظم ہی لکھا جائے گا، جواہر لال کو پنڈت جی ہی لکھا جائے گا۔ عبداالغفار خان یہاں باچا خان ہیں، یہاں غوث بخش بزنجو اور عبدالصمد اچکزئی کی توہین نہیں کی جائے گی۔

ہم سب کا فخر یہ ہے کہ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر کسی گروہ یا فرد کی دل آزاری کرنا مقصد ہی نہیں۔ کسی مذہب، مسلک یا عقیدے کو برا کہنا مطلوب ہی نہیں۔ اگر ممکن ہو تو کسی کو اچھا ہی کہا جاتا ہے۔ نفرت پھیلانے والے اس ملک میں اور دنیا بھر میں کیا کم ہیں جو ہم بھی اس خرافات میں شامل ہو جائیں۔ ہم سب قوموں، سب زبانوں، سب مذاہب کو ایک جیسا اچھا سمجھتے ہیں۔ سب کی ثقافت کو انسان کی میراث جانتے ہیں۔ سب کی موسیقی کان لگا کر سنتے ہیں، سب کے فنون کو اثاثہ جانتے ہیں۔ کسی کے اکابر کو برا نہیں کہتے۔ کوئی کسی کو اچھا کہے تو خوشی خوشی اثبات کرتے ہیں۔ کوئی کسی کا دل دکھانے کی کوشش کرے تو پیار سے روک دیتے ہیں۔ عید میلاد النبی آیا، ہم اس خوشی میں شریک ہوں گے۔ ہولی آئی، ہم رنگ کھیلیں گے۔ کرسمس ہو گا تو ہم تہوار کا جشن کریں گے۔ انسان پر مشکل ہو گی تو ہم دکھ محسوس کریں گے۔ کسی سے ناانصافی کی جائے تو ہم احتجاج کریں گے۔ اس میں کسی قوم، گروہ اور قبیلے کی قید نہیں۔ ہمارے بہت سے ساتھی اشتراکی سوچ رکھتے ہیں۔ ہمیں عزیز ہیں۔ ہمارے بہت سے دوست خود کو معاشی اور معاشرتی طور پر روشن خیال یا لبرل سمجھتے ہیں، وہ ہمارے پیارے ہیں۔ ہمارے کچھ دوست معاشرے میں مذہب کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ہم انہیں اپنا ہی جانتے ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان ہے۔ ہم پاکستان کے آئین اور قانون کے پابند ہیں۔ ہم سب پر اردو زبان میں تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ توجہ فرمائیے کیا کبھی کسی زبان کو یہاں برا یا کمتر کہا گیا؟

تاریخ سمجھنا تو ہمارا مقصد ہو سکتا ہے، ہمیں اپنے بارے میں ایسا گمان نہیں کہ ہم تاریخ بدلنے نکلے ہیں یا پچھلی مرتبہ پہیہ ٹھیک طرح سے گول نہیں بنا، ہم پھر سے پہیہ ایجاد کریں گے۔ انسان کی آزادی کا تحفظ ہمیں عزیز ہے، آزادی کا مفہوم ہم نے فلموں سے اخذ نہیں کیا۔ انصاف کے لئے ہم کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں لیکن انصاف کا ٹوکن لینے کسی کی کھڑکی پر نہیں جائیں گے۔ ہم یہ نہیں مانتے کہ آزادی، انصاف اور اچھائی کا کوئی ایسا معروضی تصور موجود ہے جسے دوسروں پر مسلط کیا جا سکے۔ مسلط کرنا ہی خرابی ہے۔ تسلط دوسرے کی جائز آزادی میں مداخلت ہے۔ اگر ہمارے ایک دوست سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام کی خرابیوں کو مرکزی معیشت کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے تو ان سے اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن ان کی بات سننے سے انکار کرنا جمہوریت نہیں، جبر ہے۔ ایسے دوست کو پورا حق ہے کہ اپنی رائے پر قائم رہے یا اپنی مرضی سے یہ رائے تبدیل کر لے۔ ہمارا فرض تو بس یہ ہے کہ ہمارے دوست کو اپنی رائے کی وجہ سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ دہشت گردی کی مخالفت ہمارے ملک میں بہت سے قابل احترام لوگوں نے کی۔ اور یہ جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ سامنے کی تاریخ ہے۔ قدیم زمانے کی باتیں نہیں کہ ہمیں مخطوطوں کی مدد سے کھوج کرنا پڑے۔ نقطہ نظر کی بنا پر کسی کو بزدل اور کسی کو بہادر کہنا مناسب بات نہیں۔ ابھی ہم لوگ زندہ ہیں۔ ابھی بزدلی اور بہادری کے لقب بانٹنا ذرا عجلت پسندی ہوگی۔ ایسی جلدی کیا ہے۔ تاریخ خود بتا دے گی کہ کون سا چراغ سر طاق لو دیتا رہا اور کس نے سربازار ہوا سے نبرد آزمائی کی۔ ایک دوسرے کی نیت ہر وقت انگلی اٹھاتے رہنا تہذیب نہیں ۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم خود کو غلطی سے ماورا اوتار سمجھتے ہیں جب کہ دوسرے لوگ مفاد پرست، بددیانت اور سازشی ہیں۔ دوسروں کے لئے اچھا کہلانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہمارے جھنڈے تلے آ جائیں اور ہماری قیادت قبول فرمائیں۔ اگرچہ ایسی خواہش کرنا  غیر فطری نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک انسان کس کس جھنڈے تلے کھڑا ہو گا۔ جھنڈوں میں باہم اختلاف بھی تو ہوتا ہے۔ کسی کا پرچم  غلط نہیں ہوتا، ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جھنڈا منتخب کرنے کا حق ہے۔ رواداری کا تقاضا یہ ہے کہ پرچموں سے خون کے دھبے مٹانے چاہییں۔

ہم پاکستان میں دنیا بھر میں امن، رواداری اور محبت کا دور دورہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سب کے دوستوں نے اگر مولانا محمد احمد لدھیانوی سے ملاقات کر کے ان کے خیالات پیش کئے تو کوئی جرم نہیں کیا۔ اس ملک کے دوسرے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں سے بھی بات کرنی چاہیے۔ ان کی بات کو سننا اور سمجھنا چاہیے۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ درست راستہ یہی ہے کہ کچھ افراد کو راستے سے ہٹا دیا جائے، ان کی آواز کو ختم کر دیا جائے تو بھائی، یہ تو روشن خیالی ، امن اور انصاف کا راستہ نہیں۔ فرد غلط نہیں ہوتا، رائے غلط اور صحیح ہو سکتی ہے۔ کسی کو بالذات غلط ، گمراہ اور گردن زدنی قرار دینا ہی فسطائیت ہے، طالبانیت ہے اور استبداد ہے۔ میں ایک طالب علم ہوں۔ میں نے مولانا احمد لدھیانوی صاحب کے خیالات کو غور سے پڑھنے کی کوشش کی۔ مولانا نے جہاں آئین کو قبول کیا، جمہویت کی بات کی، فرقہ پرست ہونے سے انکار کیا، انہوں نے اپنے گزشتہ موقف سے رجوع کر لیا۔ یہی ہم چاہتے تھے کہ مولانا دوسروں کو کافر کہنا چھوڑ دیں، تشدد کی حمایت نہ کریں۔ جمہوری رواداری کو جگہ دیں۔ ان کے ایک دو نکات سے اختلاف ہوا۔ میں نے ایک مختصر تحریر کے ذریعے اپنے رائے کا اظہار کر دیا۔ دوستوں میں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ روشنی خیالی ہے کیا؟ روشن خیالی اس امکان کو تسلیم کرنے کا نام ہے کہ ہمارے رائے غلط ہو سکتی ہے اور دوسرے کی رائے درست ہونا بھی ممکن ہے۔ روشن خیالی اپنے آپ کو درست، بہادر اور باضمیر قرار دے کر دوسروں پر طعن طنز اور دشنام کا دروازہ کھولنا نہیں، روشن خیالی انسانی مساوات، علم کے امکان، آزادی کی روشنی، ہمدردی کی حرارت اور پیدوار کے اثبات کا نام ہے۔ روشن خیالی دلوں کو جوڑنے کی کوشش ہے، دیواریں کھڑی کرنا اور تفریق کو پختہ کرنا روشن خیالی نہیں۔ ہر وقت ایک دوسرے سے حسد کرنا اچھا نہیں، یہ دنیا بہت بڑی ہے، اس میں ہم سب کے لئے جگہ ہے اور سب سے بڑی جگہ تو انسان کا دل ہے۔ انسان کے دل کی وسعت کو ماننا روشن خیالی ہے۔

یہ گزارشات دوستوں کی محبت میں پیش کی ہیں۔ مجھے اپنی رائے کے درست ہونے پر اصرار نہیں۔ اور یہ تو میں نے آپ کو بتا دیا ہے کہ عدنان خان کاکڑ کی نشتر زنی سے میرا تو ناک میں دم ہے ہی، اب معلوم ہوتا ہے “ہم سب” کا ڈبہ بھی گول ہونے کو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).