ہٹلر سے لے کر لدھیانوی تک


11 نومبر 1918 کو جب پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا اور جرمن افواج کو ہتھیار ڈالنے پڑے تو اس وقت ہٹلر، جو کہ جنگ میں زخمی ہوا تھا ایک ہسپتال میں زیر علاج تھا۔ ہٹلر کے بقول ہتھیار ڈالنے کی خبر سن کر وہ اتنا رویا تھا کہ صدمے سے اس کی ہچکی بندھ گئی اور وہ بیہوش ہوگیا۔ 1919 میں ہٹلر نے یہودی اور کمیونسٹ دشمنی میں نسل پرستانہ گروپ “جرمن ورکرز پارٹی” میں شمولیت اختیار کی جو اس وقت صرف چھ افراد پر مشتمل تھی۔ ایک سال بعد اس پارٹی کا نام تبدیل کر کے “نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی” رکھا گیا جسے انگریزی میں نازی کہا جاتا ہے۔ 1924 میں ہٹلر کی قیادت میں نازی پارٹی نے جرمنی کی حکومت کو گرانے اور اقتدار سنبھالنے کی ناکام کوشش کی جس کے جرم میں ہٹلر کو گرفتار کیا گیا اور میونخ میں اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ جو مقدمہ ہٹلر کو ختم کرنے کے لئے قائم کیا گیا وہ دراصل اس کے لئے ایک نیا پلیٹ فارم ثابت ہوا کیونکہ ہٹلر یہ جان چکا تھا کہ دنیا بھر کے جرائد اور جرمن اخباروں کے نمائندے میونخ میں جمع ہوں گے اور مقدمے کی کارروائی اخباروں میں بھیجیں گے۔ اس طرح وہ اپنے افکار پوری دنیا تک پہنچا سکے گا۔ ہٹلر کے بقول اس مقدمے نے ہٹلر کی مقبولیت میں اتنا اضافہ کیا کہ نہ صرف جرمنی بلکہ پوری دنیا ہٹلر اور ہٹلر کی سوچ سے متعارف ہوا۔ 24 پیشیوں پر مشتمل اس مقدمے نے ہٹلر اور نازی پارٹی کی سوچ کی اتنی تشہیر کی کہ نازی پارٹی خود برسوں میں ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ کس قدر بے دردی سے لوگوں کا قتلِ عام ہوا اور 6 افراد پر مشتمل گروپ کی سوچ پروان چڑھتے ہوئے صرف 15 سال کے اندر اس قدر پھیل گئی کہ اس کا اختتام 6 کروڑ انسانوں کی جانوں کے ساتھ ہوا۔

چند دن پہلے “ہم سب” نے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور رواداری میں کمی کے بارے میں مولانا لدھیانوی سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بارے میں بتانے سے پہلے ضروری ہے کہ میں مولانا لدھیانوی صاحب کے بارے میں کچھ معلومات دیتا چلوں۔ لدھیانوی صاحب کالعدم دہشت گرد تنظیم اہلسنت والجماعت کے سربراہ ہے۔ اہلسنت والجماعت وہی تنظیم ہے جس کے رہنما اورنگزیب فاروقی نے کہا تھا کہ وہ ملک میں ایسی فضا قائم کریں گے جس کے بعد کوئی بھی سنی، شیعہ سے ہاتھ نہیں ملائے گا۔ یہ وہی مولانا لدھیانوی ہے جو 2010 میں کامران شاہد کے ایک شو میں کہتے ہیں کہ شیعہ کافر ہے۔ یہی مولانا لدھیانوی 2014 کو کوئٹہ کے ہاکی گراؤنڈ میں ہونے والے جلسے میں ہزارہ برادری کے 200 سے زائد بے گناہوں کو قتل کرنے کے بعد ڈبل سینچری بنانے کی خوشی مناتے ہیں۔ لدھیانوی صاحب کی زیر قیادت اسی جلسے میں مائیک پر ایک شخص گا کر کہہ رہا ہے کہ “شیعہ قرآن کا منکر ہے، اس کو مسلماں کیوں کہتے ہو۔”

بطور قاری میں “ہم سب” کو ایک ترقی پسند، لبرل اور ایک ایسا پلیٹ فارم سمجھتا تھا جو نہ صرف ترقی پسندانہ سوچ کی تشہیر کرتا ہے بلکہ ان نوجوان لکھاریوں کو بھی مواقع فراہم کرتا ہے جو سماجی مسائل پر لکھنا چاہتے ہیں۔ میری بھی تین تحریریں “ہم سب” پر شائع ہوئی اسی لئے میرے بہت سے دوست لدھیانوی والے تحریر کے بارے میں مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔ اگر یہ تحریر امت اور قدرت جیسے اخباروں میں چھپتی یا پھر بول جیسے نیوز چینلز پر چلتی تو ہمیں ہرگز افسوس نہ ہوتا۔ “ہم سب” بطور ایک ادارہ کسی بھی شخص کا انٹرویو یا ملاقات کا احوال چھاپنے کا استحقاق رکھتا ہے لیکن مجھ جیسے ایک ادنیٰ ترین لکھاری اور لبرل خیالات رکھنے والے کو اس ملاقات سے متعلق دو اعتراضات ہیں۔

پہلا اعتراض اس ملاقات کو بیان کرنے کے انداز پر ہے۔ تحریر پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے “ہم سب” کی ٹیم لدھیانوی صاحب سے ملاقات کا احوال بیان کرنے کے بجائے ان کی نمائندگی کررہی ہیں۔ تحریر کے عنوان “میں آگیا ہوں، اب فکر کی کوئی بات نہیں”  کا انتخاب نجانے کن بنیادوں پر کیا گیا ہے؟ یہ بات بھی جواب طلب ہے کہ سوالات کو کیونکر تحریر میں شامل نہیں کیا گیا ہے؟ مولانا کے جوابات پڑھ کر یہی لگتا ہے جیسے ان سے وہ سوالات کئے ہی نہیں گئے ہیں جو انتہا پسندی اور رواداری سے متعلق ہو۔ تحریر کے بقول مولانا صاحب فرقہ واریت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن مولانا کے تقاریر اور اعمال تو اس بیان کے بالکل متضاد ہیں۔ تحریر کے آخری جملے میں درج ہے کہ لدھیانوی صاحب امن کی خاطر ریاست کے ہر اقدام کی تائید کرتے ہیں لیکن وہ شاید بھول گئے ہیں کہ انہوں نے 2013 میں الیکشن ہارنے کے بعد ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا اور کھلم کھلا دھمکی دی کہ اگر مجھے اسمبلی جانے سے کسی نے روکا تو وہ “ریاست” جھنگ میں بد امنی کا ذمہ دار ہوگا۔

میرا دوسرا اور سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ کیا “ہم سب” کی ٹیم کے لئے لازم تھا کہ وہ بطور ادارہ لدھیانوی جیسے شخص سے ملاقات کریں اور تحریر میں اسے ایک امن پسند انسان کی طرح پیش کریں۔ کیا لدھیانوی جیسے منافرت پھیلانے والوں کو مین اسٹریم میں جگہ دینے سے انتہا پسندی کم ہونے کا کوئی امکان ہے؟ مجھے نہ تو لدھیانوی کی نیت کا پتہ ہے اور نہ ہی “ہم سب” کی ٹیم کی نیت کا کیونکہ نیتوں کا حال تو خدا کو معلوم ہے۔ اسی لئے میرے لئے نیتوں سے زیادہ اعمال اہم ہیں۔ لدھیانوی صاحب کے افکار و اعمال سے وہ صرف ایک انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت ہوتے ہیں۔ اور اس تحریر کے چھاپنے کے عمل نے “ہم سب” کی ٹیم پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا لیا ہے۔ کل کلاں اگر کوئی ابو بکر بغدادی اور احسان اللہ احسان کو امن کا داعی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرے گا تو کیا ہم میں اتنی اخلاقی جرات ہوگی کہ ہم اس بات پر اعتراض کرسکیں۔ میرے نزدیک نازی پارٹی کے ہٹلر میں اور اہلسنت والجماعت کے لدھیانوی میں کوئی فرق نہیں۔ اگر “ہم سب” کی یہ غلطی 1924 میں جرمن حکومت کی طرف سے کی گئی غلطی کی طرح منافرت کو کم کرنے کے بجائے منافرت کو بڑھاوا دینے کا سبب بنی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).