چترال کے خطیب کو لاجواب مت کرو!


یہ 2001 کے اوائل کی ایک صبح تھی ، مدرسہ میں صبح پڑھائی کا آغاز ہوچکا تھا ، پہلا پیریڈ شروع تھاکہ ایک مشتعل ہجوم ایک شخص کودبوچے مدرسہ لے آیا ۔ صاف ستھرے کپڑے ، بالوں میں کنگھی تیل اور داڑھی ترشی ہوئی ، اس پر الزام تھا کہ وہ خدائی کا دعویدار ہے ۔ اس نے اپنا ایک آفس بناررکھا تھا جس پر بینر آویزاں کیا گیا تھا ۔ بینر پڑھ کر خلق خدا حملہ آور ہوئی ، کسی کے ہاتھ ٹیبل پر رکھا نیوز پیپر آیا اور کسی کے ہاتھوں اس کے اوپر رکھا پیپر ویٹ ، چھوٹی چھوٹی چیزوں میں سے جو جس کے ہاتھ لگا وہ مال غنیمت سمجھا گیا ، کسی نے اپنا زور ایمانی شیشے کی ٹیبل پر آزمایا اور اسے کرچیوں میں بدل دیا ،غرض لوٹ مار یا توڑ پھوڑ جتنا ہونا تھا سو ہوا ،اب یہ ہجوم علاقے کا سب سے بڑا مدرسہ اور مسجد ہونے کی وجہ سے اسے مدرسہ لے آیا ۔ اساتذہ کرام نے لوگوں کے مضبوط پنجوں میں جھکڑے اس شخص کو چھڑایا اور اسے ایڈمن آفس میں لے جاکر بٹھادیا۔ وہ پورے اعتماد سے اساتذہ کے سوالات کے جوابات دیتا رہا ، نہ گھبراہٹ نہ کوئی بے چینی، اپنے دعوے پر دلائل بھی دینے لگا ، ایک طرف بپھرا ہجوم ، دوسری طرف اس کی ہٹ دھرمی ، مجبورا انتظامیہ نے پولیس اسٹیشن کو اطلاع کرائی جو مدرسے کی گیٹ کے بالکل ہی سامنے سڑک کی دوسری طرف تھا ۔ پولیس آئی اور اسے اپنے ساتھ لے کر چلی گئی ، خلق خدا کو مدرسہ والوں کی دینی حمیت میں بھی کچھ نہ کچھ کالا نظر آنے لگا اسی لیے چہ میگوئیاں کرتے ہوئے سب رخصت ہوگئے ۔ جس استاد نے اس کا انٹرویو کیا ان کا کہنا تھا کہ یہ شخص ذہنی طورپر پوری طرح سے صحت مند نہیں تھا ۔ اب حقیقت کیا تھی اور پولیس اس شخص کو لے کر کہاں گئی ، اسے کب چھوڑا گیا، اس کا کچھ پتہ نہیں چلا ۔
چترال کا واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ خلق خدا شعلہ بداماں ہے اور ان کے غیظ وغضب کا شکار اہل مذہب ہیں۔ خطیب مسجد مولانا قمرالزمان صاحب گاڑی کی قربانی دینے کے بعد بھی لوگوں کے نشانے پر ہیں ۔ برائی کی مذمت جس طرح ضروری ہے اس سے زیادہ اچھائی کی تعریف اور حوصلہ افزائی ضروری ہے ۔ مشال خان کے قتل پر مذمتی بہت کچھ لکھا گیا ، اور کہا گیا، وزیراعظم تک نے ایکشن لیا۔ چترال کے خطیب صاحب کے لیے وہ گرم جوشی مگر نظر نہیں آرہی ۔ خطیب صاحب کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا پر ان کے حق میں بہترین مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ ایک سلام چترال کے اس عارف کے نام بھی ہونی چاہیے ۔ مردان کے ان خطیب صاحب کی مذمت میں لفظوں کی کیا کیا گل کاریاں کی گئیں جنہوں نے سرخ لشکریوں کے خوف سے مشال کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا تھا ،چترال کے خطیب صاحب کی ویسی ہی پرجوش حمایت نہ کرنے کا مطلب مردان کے مولوی صاحب کے خدشات اور خوف کو درست ثابت کرنا ہے ۔ کتاب اللہ کہتی ہے ” جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی “۔ انسانیت کو جو لوگ بطور مذہب پوجتے ہیں انہیں تو امام صاحب کے ہاتھ پاوں چومنے چاہییں ، انہوں نے کیا برا کیا کہ بالفاظ کتاب پوری انسانیت کی جان بچائی ؟ ایک نامناسب روایت کو توڑا؟ بپھرے لوگوں کا اشتعال اپنے سر لے کر ایک علانیہ مجرم کو قانون کے ہاتھوں تک محفوظ پہنچایا ؟یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ اچھے اقدامات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور برائی کی مذمت میں ہر ایک کا لہجہ دوسرے سے تلخ تر ہوتا ہے ۔ چترال کا واقعہ میڈیا اور حکومت دونوں کے لیے آزمائشی مرحلہ ہے ، دیکھتے ہیں یہ دونوں ،دینی طبقہ اور علماء کا اعتماد بحال کریں گے یا رہا سہا اعتمادبھی ختم کردیں گے ۔
ایک بحث قانون کی الجھائی جارہی ہے ، قانون ، قانون کی کتابوں میں کہیں ہوگا زمین پر تو کبھی اس کی پرچھائیں بھی نہیں پڑی، اس کے باوجود لوگوں کے بے جا اشتعال کا علاج یہ ڈھونڈا گیا ہے کہ قانون ہی کو کتابوں سے مٹاڈالو۔ شاید کسی ظریف نے ٹھیک کہا تھا کہ “جب قانون ہی نہیں رہے گا تو لوگ ہاتھ میں کیا لیں گے ؟” مگر یہ لاقانونیت کی ایسی شکل ہوگی جس کا کوئی علاج بھی نہیں ہوگا ، چترال کے خطیب کے پاس مشتعل ہجوم کا جواب بھی کوئی نہیں رہے گا ۔ وہ نہیں بتا سکے گا لوگوں کو کہ یہ تمھارا نہیں قانون کا کام ہے ۔ قانون نہ ہوتا تو 2001 کی اس صبح مدرسہ کی انتظامیہ کے پاس بھی خلق خدا کا کوئی جواب نہ ہوتا ۔ مشال خان کی طرح ایک برہنہ لاش کے گرد رقص ابلیس اس دن ہی برپا ہوجاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).