پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف یکسوئی حاصل نہیں کر سکا: قمرالزماں کائرہ


قومی سیاسی رہنما اور پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمرالزماں کائرہ 5 جنوری 1960 کو لالاموسیٰ  میں پیدا ہوئے۔ کھاریاں سے ابتدائی تعلیم پانے کے بعد فارمن کرسچیئن یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل تھی ۔ ان کے مضامین فلسفہ اور سیاسیات تھے۔ فروری 2008 کے عام انتخابات میں قمرالزماں کائرہ اپنے آبائی علاقے سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ابتدائی طور پر انہیں کشمیر اور شمالی علاقہ جات کا وفاق وزیر بنایا گیا۔ مارچ 2009 میں انہیں وفاقی وزیر اطلاعات کا اضافی قلمدان بھی سونپ دیا گیا۔ اس دوران وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات بھی رہے۔ 2016ء میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قمرالزماں کائرہ کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر نامزد کیا۔

ہم سب کے ارکان عدنان خان کاکڑ اور وجاہت مسعود نے قمرالزماں کائرہ سے یہ ملاقات 24 اپریل 2017 کی صبح پیپلز پارٹی کے صوبائی سیکرٹیریٹ واقع ماڈل ٹاؤں لاہور میں کی۔ قمرالزماں کائرہ نے اپنی شہرت کے عین مطابق سب سوالات کے جواب نہایت تحمل سے اور تفصیل کے ساتھ دیے۔ تاریخ کے اتار چڑھاؤ اور سیاست کی حرکیات پر کائرہ صاحب کی آنکھ گہری ہے۔ ان کی سوچ جمہوری ہے جب کہ ان کا زاویہ نگاہ انسان دوست اور ترقی پسند ہے۔ ذیل میں ان سے گفتگو کا پہلا حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

                                                               ٭٭٭   ٭٭٭

س: آپ کے خیال میں ہمارے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

قمر الزمان کائرہ: معاشرے میں مذہب اور قومیت وغیرہ کئی طرح کے تعصبات ہوتے ہیں، بنیادی طور پہ مذہب کا بھی اپنا ایک تعصب ہے۔ اب اس تعصب کو جتنے زور سے آپ ابھاریں گے، اپنے فرقے کے تعصب کوجتنے زور سے آپ ابھاریں گے، دوسرے مذاہب یا فرقوں کو ماننے والوں میں قدرتی طور پر رد عمل پیدا ہو گا۔ یہ رد عمل سوسائٹی میں بیلنس ہوتا رہتا ہے۔ معاشرتی رویوں سے بیلنس ہوتا ہے۔ ریاست کے رویے سے بیلنس ہوتا ہے۔ یہ سب عوامل ہمیں اپنی اپنی حدود میں رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ معاشرے میں بھی اگر کوئی روایتی اقدار کی حدود پار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو روکا جاتا ہے۔ اس طرح یہ توازن اپنی جگہ پہ قائم رہتا ہے۔ ہمارے ہاں اس (تعصب) کی بنیاد بڑی حد تک اس وقت پڑی جب ہندوستان میں ہندو مہا سبھا سامنے آئی اور اس کے جواب میں مسلم ایلیٹ (اشرافیہ) نے مسلمان کو اور مذہب کو مسلمانوں کے حقوق کے نام پر استعمال کیا۔ یہ بات مسلمانوں کے حقوق سے کہیں زیادہ مسلم اشرافیہ کے حقوق کی تھی۔ اس کی ایک اپنی تاریخ تھی لیکن اس میں ایک توازن باقی رہا۔ پاکستان بن گیا۔ جب ہندو مسلم فساد ہوا۔ فساد کی وجہ بظاہر تو مذہبی نفرت تھی لیکن اس کے پیچھے اور بہت سے عوامل تھے جن سے ہندوستان اور پاکستان میں تناﺅ بہت بڑھ گیا۔ ان دونوں ملکوں کا آپس میں ایک عجیب سا رشتہ بھی بن گیا معاشرتی سطح پر۔ جب جب وہاں مسلمانوں کے خلاف کچھ ہوا تو اسے سیاستدانوں نے بھی استعمال کیا۔ مذہبی لیڈرشپ نے بھی اس جذباتی معاملے کو استعمال کیا۔ ادھر بھی اور ادھر بھی۔ جب وہاں کچھ ہوا تو اس کا ری ایکشن یہاں آیا اور یہاں کچھ ہوا تو اس کا ری ایکشن وہاں گیا۔ بالآخر یہ تلخی بڑھتے بڑھتے پاکستان دولخت ہونے پہ جا کے منتج ہوئی۔

ہمارا المیہ یہ بنا کہ انگریز سامراج کے جانے کے بعد جو آزادی ہم نے حاصل کی، اس آزادی سے جو ثمرات ہمیں ملنے چاہیے تھے۔ ہونا تو
یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں جمہوری ریاست قائم ہو جاتی جس کا خواب قائداعظم اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا تھا۔ وہ ہم نہیں قائم کر سکے۔ جو پہلے سے موجود رول اینڈ لا تھا، انگریز کا قانون ہم نے خراب کر دیا، اس قانون پر عمل درآمد ہم نے خراب کر دیا۔ اور اوپر سے ہم نے یہ روایت بنا دی کہ طاقت جس کے ہاتھ میں ہے وہ جو چاہے کر لے۔ فوجی سربراہان نے ملک میں ٹیک اوور کر لیا۔ قانون نہیں تھا۔ قانون کو، آئین کو بلائے طاق رکھ کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس میں یہ پیغام تھا کہ بندوق والا، طاقت والا، ڈنڈے والا اگر اختیار استعمال کر لیتا ہے تو اس کا جواز پیدا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ عدالتوں نے اور معاشرے نے اس کو قبول کر لیا۔ یہ عمل آگے چلتا چلا گیا۔ 1979ء میں یا شاید 79ء سے پہلے بھی پاکستان میں اس کی بنیاد تو رکھ دی گئی، مذہبی جماعتوں کی بنیاد ہی مذہب پہ ہوتی ہے، وہ ایک سیکولر نظریے یا ڈیموکریٹک نظریے پر کھڑے نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کے نعرے زیادہ جوشیلے تھے۔ جب پاکستانی ریاست اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوئی، لوگوں کو تحفظ، روزگار، تعلیم، صحت کی سہولتیں دینے میں ناکام ہوئی تو ناگزیر طور پر مذہبی جماعتوں کے ہاتھ میں استحصال کا بہانہ آ گیا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس مسائل کا حل نہیں، ہمارے پاس ہے۔ یہ بھی ایک رویہ پیدا ہوا جو کہ درست نہیں تھا جو کہ بنیادی طور پر پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی کی بنیاد بنا۔

79ء میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا اس کے بعد پاکستانی ریاست نے اور دنیا بھر کی وہ اقوام (جو آج پاکستانی ریاست کے اوپر الزام
لگا رہی ہیں اور ہمیں دبا رہے ہیں۔ وہ امریکا ہو یا یورپ ہو، برطانیہ ہو، سعودی عرب ہو، کویت ہو یا کوئی اور ملک ہو)۔ سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اور پاکستانی ریاست کو امریکیوں کا ایک پرانا نظریہ کہ روس کو روکنے کے لیے افغانستان کے بعد انڈیا میں ایک بفر مذہبی ریاست قائم کر دی جائے، اس کو استعمال کیا انہوں نے۔ یہ پرانا نظریہ استعمال ہوا۔ اور اس نے پاکستان میں اس سارے عمل کو خوفناک حد تک شدید کر دیا۔ خاص طور پر ایک فقہ کے ماننے والوں کو ریاستی حمایت دی گئی۔ اس ریاستی حمایت سے وہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ پاکستان کا کلچر اور تشخص تبدیل ہو گیا۔ پاکستان کی فلم، ڈرامہ، ہمارا پورا نظام بدلا گیااور ایک نسبتاً روادار سوسائٹی کو انتہا پسند معاشرے میں بدل دیا گیا کیونکہ انتہا پسندی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ سو پاکستانی ریاست کو ہر کسی نے اپنے اپنے طور پہ استعمال کیا یعنی ریاستی ادارے پیچھے ہٹ گئے اور غیر ریاستی عناصر کو، جتھوں کو اور گروہوں کو مسلح کیا گیا۔ ان کو نظریاتی طور پہ بھی مسلح کیا گیا۔ مالی طور پر بھی سپورٹ کیا گیا۔ نئے مدارس کھولے گئے انتہا پسندی کا یہ نظریہ بالآخر ریاست کے ساتھ لڑائی پر منتج ہوا۔

پھر یہ سوچ پورے پاکستانی نظام میں یعنی تعلیم میں اور میڈیا میں پیدا ہو گئی۔ ہر جگہ ان لوگوں کو مضبوط بنانے کے لئے پوری طاقت استعمال کی گئی۔ اربوں ڈالر لگے اس جنگ میں۔ ریاست کی فکری اور عملی توانائی استعمال کر کے معاشرے کو تبدیل کیا گیا۔ اب اس کے نتیجے میں انتہا پسندی ہی فروغ پا سکتی تھی۔ ہوا یہ کہ ایک خاص فرقے کے ماننے والے لوگ بہت طاقتور ہو گئے۔ ان کو کسی لائسنس کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کو کسی گاڑی کے پرمٹ کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ مسلح جتھے جگہ جگہ ہتھیار لئے پھرتے تھے اور ان کو کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ یہ رویہ دوسرے فرقوں کو بھی متاثر کرنے لگا۔ اس کے رد عمل میں دوسرے فرقے بھی تگڑے ہو گئے۔ انہوں نے بھی مسلح جتھے بنانے شروع کر دیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس عمل کو ممکنہ طور پر سیاسی عمل کے ذریعے روکا جا سکتا تھا لیکن سیاست کا راستہ روک دیا گیا۔ غیر اصولی سیاست کی بنا ڈالی گئی۔ سیاسی جماعتیں ان جتھوں کا متبادل ہو سکتی تھیں، سیاسی جماعتوں کو ممنوع کر دیا گیا اور سیاسی جماعتوں میں بے شمار خامیاں پیدا کر دی گئیں اور کچھ وقت کے ساتھ پیدا ہو گئیں۔ اس عمل نے پاکستانی ریاست اور سوسائٹی کو کھدیڑ کے رکھ دیا۔ آج ہر جگہ طاقت والا اپنا قانون استعمال کرتا ہے۔ پیسے والا بھی طاقت استعمال کرتا ہے۔ پیسا کمانے کے لیے کرپشن کرتے ہوئے، رشوت دیتے ہوئے نہیں جھجھکتا کیونکہ اسے قانون کی پرواہ نہیں۔ انصاف کرنے والا انصاف نہیں کر پاتا۔ اس کے اپنے بے شمار مسائل ہیں۔ سیاست دان بہت سی لغویات کا شکار ہو گیا۔ اس کے اپنے مفادات سامنے آ گئے۔ ایسے لوگ معتبر ہو گئے جن کے پاس وسائل اور طاقت ہیں یا جو چکمہ دینے کے ماہر ہی۔ عام شہری غیر معتبر ہو گئے۔ معاشرے میں انصاف، میرٹ اور دیانت باتوں تک تو رہ گئے، عملاً ان اصولوں کا احترام باقی نہیں رہا۔ معاشرہ بانجھ پن کا شکار ہو گیا ہے۔ اسی لیے نہ کوئی بڑا مفکر پیدا ہو رہا ہے، نہ کوئی بڑا مصور، کوئی بڑا شاعر یا بڑا گلوکار پیدا ہو رہا ہے۔ ہم ڈگری ہولڈرز پیدا کرتے جا رہے ہیں۔ ڈگری ہولڈرز کو بھی جاب نہیں دے رہے۔ بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے۔ آبادی کا عفریت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستانی ریاست اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام ہے۔ پاکستانی ریاست کے ذمہ دار اداروں پر بہت سے سوال ہیں۔ سیاست دانوں کے اوپر بے شمار الزامات ہیں اور لوگ سیاست دانوں کو اچھا نہیں سمجھتے۔ میں ایک سیاست دان ہوتے ہوئے یہ کہہ رہا ہوں کہ لوگ سیاست دانوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ اسی طرح باقی ریاستی اداروں کے بارے میں بھی لوگوں کی رائے اچھی نہیں لیکن جب تقابلی تجزیہ کیا جاتا ہے تو کبھی کسی کو بہتر نمبر مل جاتے ہیں، کبھی کسی کو۔ یہ پاکستانی ریاست کا بنیادی مسئلہ ہے۔ اور ہم نئے نئے قوانین بنا کر اس معاشرے کو درست کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہم چھوٹے چھوٹے قوانین مثلاً کریمنل جسٹس، سول لا، میونسپل لاز (جو عام زندگی کے قوانین ہیں جن معاشرہ تشکیل پاتا ہے، معاشرے میں سدھار پیدا ہوتا ہے) ان پہ عمل درآمد نہیں کر رہے۔ ہم نئے نئے قوانین بنا کے معاشرے کو سدھارنے کی کوشش میں ہیں جو ممکن نہیں ہے۔

س: دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے ریاست اور معاشرے کے مختلف حصوں میں جو یکسوئی درکار ہے، کیا پاکستان نے فیصلہ سازی کی سطح پر وہ یکسوئی حاصل کر لی ہے؟

کائرہ : ایسا نہیں ہے۔ میں بڑی تکلیف سے یہ کہہ رہا ہوں۔ میں فیصلہ سازی کے اس عمل میں شریک بھی رہا ہوں اور اب بھی میری رسائی بہت حد تک ہے، کیونکہ ہم ان لوگوں میں اٹھتے بیٹھے ہیں۔ ریاستی اداروں کے ایک دوسرے کو مجبور کرنے پر کچھ ہو رہا ہے۔ بیرونی عوامل اس میں زیادہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارا داخلی فکری محاذ نہیں ہے۔ ہمارا داخلی رد عمل نہیں ہے۔ پاکستان انتہا پسندی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والا ملک ہے لیکن جب دنیا میں انتہا پسندی زیادہ بڑھی تو ہمیں دنیا نے کہا کہ تم اپنے آپ کو درست کرو، ورنہ ہم درست کریں گے، تو ہم نے درست کرنا شروع کیا۔ پھر جب ہمارے اپنے وجود کو انتہا پسندی کھانے لگی تو ہمیں تکلیف ہوئی۔ جب تک ہمارے ہاں پشاور کا حادثہ نہیں ہوتا، ہم رد عمل دینے پر تیار نہیں ہوئے۔ جب تک ہمارے ہاں کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوتا، بڑی مقدار میں خون نہیں گرتا، ہم بطور ریاست ردعمل نہیں دیتے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سوات میں ایک بڑا آپریشن لانچ کیا گیا ، لیکن سوات میں یہ آپریشن تب کیا گیا جب باتیں بڑھتے بڑھتے مالاکنڈ پر قبضے تک آگئیں۔ اور اس کا جواب بھی مالاکنڈ سے انخلا تھا یا ان کو باقی جگہوں سے پیچھے دھکیلنا تھا۔ لوگوں کو واپس آباد کرنا تھا۔ اس فکر کے خلاف جدوجہد نہیں کی گئی۔ یہ صرف مادی مسئلہ نہیں، خالی تنظیموں اور اسلحے کا سوال نہیں، یہ بڑی خوفناک فکر ہے، یہ سوچ بچے پیدا کر رہی ہے۔ ہم جتنے افراد کو مار رہے ہیں، اس سے زیادہ تعداد میں پیدا ہو رہے ہیں۔ جب تک ہم اس فکر کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے، سوچ کا جہاد نہیں کرتے، ہہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ ہماری فوجی اور سیاسی قیادت نے حالات کے تقاضے کے تحت ہی ان جتھوں کو پیچھے دھکیلا ہے تو اس سے بہتری آئی ہے۔ لیکن اصل بہتری آنا ابھی باقی ہے۔ وہ اس وقت آئے گی جب ریاست اس فکر کے خلاف کھڑی ہو گی۔

س: کیا ہمارے نصاب تعلیم میں، خاص طور پر ہماری یونیورسٹیز کے نصاب میں، قومی یکجہتی کے لیے، رواداری اور ہم آہنگی کے لیے اور سب سے بڑھ کے جمہوری ریاست کے لیے تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے؟ اگر ہے تو کیا تبدیلی؟

(عدنان کاکڑ: اس وقت انتہا پسندی مدارس سے زیادہ یونیورسٹیز میں نظر آرہی ہے۔ صفورا گوٹھ کا سانحہ، داعش کے حوالے سے گرفتار ہونے والی نوجوان طالبہ، جو ابھی مشال کا قتل ہوا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایک کلچرل شو کو برداشت نہیں کیا گیا۔  تو اگر یونیورسٹیز مدرسوں سے بڑھ کر انتہا پسندی دے رہی ہیں تو یہ فکر کہاں سے آئی ہے؟)

کائرہ: پنجاب یونیورسٹی میں ایک واقعہ ہوا۔ اس کو میڈیا میں بہت سنجیدگی سے لیا گیا۔ بہت اچھی بات ہے۔ میں یونیورسٹی میں 80 ء کی دہائی میں پڑھتا تھا۔ اسی یونیورسٹی میں۔ ہمارے ہاں جو جدید فکر کے حامل لوگ تھے یا جو جدت پسند تھے ان کے لیے جگہ بہت تھوڑی تھی۔ نہ ان کو ہاسٹلوں میں رہنے کی آزادی تھی، نہ ان کو گفتگو کرنے کی آزادی تھی، نہ ان کو فنکشن کرنے کی آزادی تھی۔ باقاعدہ ان یونیورسٹیز میں قتل ہوتے تھے۔ ڈنڈے مارے جاتے تھے۔ جب کوئی معاشرہ کسی فکری بیماری کا شکار ہوتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ اس میں سے صرف نوجوان طبقہ خراب ہو جاتا ہے۔ یا پھر لاہور والے خراب ہو گئے ہیں یا کسی گاؤں کے چند لوگ خراب ہو گئے ہیں، پھر معاشرے میں سرطان ہر جگہ پھیلتا ہے۔ جب پڑھنے والا اور علم دینے والا استاد اس نظریے کے حامل ہو جائیں گے تو ببول کے پودے سے ببول ہی اگے گا ناں۔ آپ ذرا غور کریں، خالص سائنس پڑھنے والے لوگوں سے بھی بات کریں تو جو فکری مغالطے ہیں یا ان کے ذہنوں میں جو فکری واہمے ہیں، آپ حیران ہو جاتے ہیں۔ اس وقت میں پوری ریاست کی بات کر رہا ہوں کسی ایک ادارے کی نہیں۔ ہمیں توقع یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے عالم فاضل پیدا کریں گے۔ ہمارے یہاں ڈگری ہولڈر پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ، اسے دنیا نے، بڑی فکری قوت سے، علمی طاقت سے، آلات کی مدد سے اور دولت کی طاقت سے تبدیل کیا تھا۔ یہ بات میں دنیا کے مختلف فورمز پہ کہہ چکا ہوں کہ ہمارے درمیان یہ جو تباہ کن عفریت تخلیق کیا گیا تھا یہ ہماری استعداد سے بڑا تھا اور آج بھی بڑا ہے۔  ہم آج اس کے خلاف لڑ رہے ہیں کہ یہ اچھا ہے، یہ برا ہے۔۔۔ اُس مدرسے والے بہتر ہیں، اِس مدرسے والے ٹھیک نہیں ہیں۔ ہم ڈرے ہوئے لوگ ہیں۔ جس معاشرے کا تھانیدار اس محلے کے ملا سے پوچھ کے اپنی پالیسی بنائے گا وہاں ریاست کچھ نہیں کر پائے گی۔

عدنان کاکڑ: یہ ریاست کی کمزوری ہے یا سیاست دانوں کی یا اسٹیبلشمنٹ کی؟

کائرہ صاحب : سیاست دان تو ایک طبقہ ہے۔ پاکستان میں سیاست دان حتمی طاقت کے حامل نہیں ہوتے۔ آج میاں صاحب بیٹھے ہیں، بڑے طاقتور ہیں، ان کے پاس وفاق میں اور پنجاب میں بہت بڑی اکثریت ہے، لیکن وہ سارے فیصلے کرنے میں مکمل طور پہ آزاد نہیں ہیں۔ کئی داخلی عوامل ہیں، کئی خارجی عوامل ہیں۔ ان کی اپنی جماعت کے مسائل ہیں، ریاستی اداروں کے معاملات ہیں، پاکستانی ریاست کی دنیا کے ساتھ کئی سطح پر کشمکش ہے، ہمارے جو مسلمان برادر ملک ہیں، پاکستان تو ان کی بھی تجربہ گاہ رہی ہے۔ اس لیے ہماری حکومتیں بہت حد تک منقسم ہوتی ہیں، ڈری ہوئی اور سہمی ہوئی ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں سدھار پیدا کرنے والا رویہ پیچھے رہ گیا۔ جس معاشرے میں اہلیت، علم  اور فکر کی ساکھ بگڑ جائے، وہاں بڑی مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پہ کوئی ایک اچھا اور اہل افسر ہو جو غلط کام نہ کرتا ہو، اس کے ساتھ لوگ دوستی نہیں کرتے، کہتے ہیں یہ کسی کام کا نہیں۔ یہ غلط کام ہی نہیں کرتا۔ جو سیاست دان کہے کہ جی میں بالکل غلط کام نہیں کروں گا، نوکری میرٹ پہ دوں گا، باتیں اصول کی کروں گا، وہ کہتے ہیں بھائی جان، کوئی اور کام کرو۔ اسی طرح اگر بڑی گاڑی نہیں، بڑا دفتر نہیں، بڑا دستر خوان نہیں تو لوگ کہتے ہیں چھوڑو یار اس نے کیا سیاست کرنی ہے۔ یہ لوگوں کے اور سماج کے رویے ہیں۔ اب اس میں بہتری کی طرف سفر شروع ہوا ہے لیکن سست ہے۔ اس میں بہت رکاوٹیں ہیں، اس سفر میں بار بار کوئی نہ کوئی حادثہ ہو جاتا ہے، واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہےجس طرح کچھ ریاستی ادارے اب انتظامی سطح پہ بہتری لانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، حکومت کو بھی فیصلے کرنے میں مجبور ہونا پڑا۔ یہ رضاکارانہ طور پر نہیں ہو رہا۔ جس دن فکری طور پر اور شعوری طور پر گورنمنٹ یہ فیصلے کرے گی، اس دن ہم پش بیک کریں گے۔ یہ بہت بڑی لڑائی ہے۔ یہ کوئی چھوٹی لڑائی نہیں ہے۔

عدنان : اس معاملے میں کون سا لیڈر آپ کو نظر آرہا ہے جو کہ رہنمائی کرے۔ سلمان تاثیرصاحب کے معاملے پہ ہم نے دیکھا تھا کہ کوئی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے تیار نہیں تھا جبکہ مشال کے معاملے میں سیاست دانوں نے زیادہ جرات دکھائی ہے۔ قومی اسمبلی میں مقتول کے لئے فاتحہ خوانی ہوئی ہے۔ کیا یہ ایک بڑی تبدیلی نہیں ہے؟

کائرہ صاحب : یقیناً یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ میں نے پہلے عرض کیا ناں کہ تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کا سانحہ ہوا تو قوم پھر جاگی، ریاستی اداروں کو بھی ہوش آیا، سب بھاگے۔ ہم نے اس پر اچھا زور دار ری ایکشن دیا۔ ضرب عضب شروع ہوا۔ ابھی پھر ایک اور حادثہ ہوا، پھر ایک اور ری ایکشن شروع ہو گیا۔ لاہور میں، پشاور میں، کوئٹہ میں بم دھماکے ہوئے تو پھر دوبارہ ایک ری ایکشن آیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نی جرک (knee Jerk)  ری ایکشن کرتے ہیں۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ریاست اور معاشرہ ہر وقت تبدیلی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ روکنے اور بدلنے والے دونوں دھارے ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں، بعض اوقات آخری تنکا اونٹ کو گرا دیتا ہے۔ کوئی ایک چھوٹا حادثہ، ایک سانحہ، ایک واقعہ جوہری تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔ مجھے بالکل یاد ہے سلمان تاثیر صاحب کی شہادت کے بعد ہم گورنر ہاﺅس میں تھے اور بے بسی میں کھڑے تھے کہ گورنر ہاﺅس کا امام بھاگ گیا تھا، اس نے جنازہ نہیں پڑھایا تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میں خود سوچ رہا تھا کہ میں آگے جاتا ہوں اور جنازہ پڑھاتا ہوں۔ پھر ہمارے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین آگے بڑھے اور انہوں نے جنازہ پڑھایا۔ آج مشال خان کے قتل پر جو رد عمل آیا ہے اس میں سیاست دانوں نے، پاکستان کے ہر طبقہ نے، مذہبی جماعتوں سمیت حصہ ڈالا ہے۔ وہ مذہبی لوگ جو کل سلمان تاثیر صاحب کے وقت متحرک نہیں ہوئے تھے، کیونکہ سوسائٹی اس وقت اتنی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں تھی، آج وہ مذہبی جماعتیں، وہ مذہبی لیڈر خود گلا پھاڑ پھاڑ کے مشال خان کے حق میں بیان دے رہے ہیں۔اس لیے کہ اب ان کو اپنی بقا کا مسئلہ ہے۔

(جاری ہے)

اگلا حصہ: پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زماں کائرہ کی دو ٹوک باتیں (آخری حصہ) 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).