آپ آ گئے ہیں یہی تو فکر کی بات ہے


مشعال خان کے قتل کے بعد سے دل بجھا بجھا سا ہے۔ کچھ لکھنے کو دل ہی نہیں چاہتا اور رہی سہی کسر ہم سب پر مولانا محمد احمد لدھیانوی کا انٹرویو دیکھ کر نکل گئی۔ غالباً مقصد تو وہی تھا جو مدیر نے لکھا تھا کہ “بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور رواداری میں کمی کے بارے میں مختلف سیاسی و مذہبی راہنماؤں سے ان کے تاثرات لینے کا ایک سلسلہ” ۔ لیکن یہ سلسلہ ایک ایسے آدمی سے شروع کیا گیا جس کی ذات کہیں سے بھی تنازعات سے پاک نہیں ہے۔

ان کی جماعت اور ان کے نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یقیناً ان کی جماعت کے لوگوں سے بھی ذیاتیاں ہوئی ہیں لیکن آج صاف ہاتھ اٹھا کر یہ کہہ دینا کہ ہم نے تو ہمیشہ امن کی بات کی ہے سرا سر جھوٹ ہے۔ ان کی جماعت کے 30 لوگ پنجاب کی موسٹ وانٹڈ لسٹ میں شامل ہیں۔ ہزارہ میں لوگوں کے مرنے کے بعد جشن منانے والے انہی کی جماعت کے لوگ تھے۔ اب ہاتھ پر فاختہ بٹھا کر معصوم بننے کو میں کیا کہوں؟ معلوم نہیں مولانا نے اپنی جماعت کے کون سے لوگوں کو سمجھایا ہے؟ کیوں کہ پچھلے سال اسلام آباد میں دفع 144 کے موقعے پر ہونے والی ریلی میں کافر کافر کے نعرے لگے۔ اب ان کو بھی کیا کہیں؟ ہماری حکومت دفع 144 کے باوجود کلعدم تنظیموں کو جلسے کی اجازت دیتی ہے۔ خیر مولانا کی باتیں پڑھ کر احساس ہوا کہ یا تو حقیقت میں خوش فہمی کا شکار ہیں یا پھر لوگوں کو سادہ سمجھتے ہیں۔

مولانا کا کہنا ہے ان کے خلاف ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں ہے، جی بڑے فخر کی بات ہے مولانا صاحب۔ کچھ آپ کی جماعت کی بھی بات ہو جائے۔ آپ کی جماعت کے خلاف ایک نہیں کئی ایف آئر آرز درج ہیں۔ ذرا ان کی تفصیل میں جایا جائے تو آپ کو اندازہ ہو گا کیسے کیسے انسانیت سوز جرائم میں ان کی پارٹی کے لوگ اور رہنما ملوث رہے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں “جھنگ میں بدامنی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پہلے مسلک کے نام پر جھنگ کے مقامی سیاستدان شیعہ سنی فسادات کرواتے تھے۔” کوئی پوچھے یہ فسادات کیوں ہوتے ہیں یا تھے؟ اس میں سیاستدانوں کا ہاتھ تو بعد میں پہلے ذرا مولانا اپنی تنظیم کا ہاتھ دیکھ لیں۔ ان کی اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں کی ایک نہیں کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ہیں جس میں یہ کھلم کھلا شیعہ برادری کو کافر قرار دیتے ہیں۔ ایک ویڈیو میں فرماتے ہیں کہ “میں اگر شیعہ کو کافر قرار نہ دے سکا تو مجھے گولی مار دی جائے”۔ ویڈیو کو آپ یہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ سیاستداں فسادات کرواتے ہیں کہ نہیں یہ تو مجھے نہیں پتا لیکن یہ ضرور پتا ہے کہ لوگوں کے جذبات مشتعل کون کرتا ہے۔

ایک اور انٹرویو میں پوچھا گیا کہ “آپ یہ نعرہ کیوں لگاتے ہیں”؟ جواب ملا “یہ تو بس ایک نعرہ ہے جیسے روٹی ، کپڑا اور مکان۔ اس نعرے کا یہ مطلب یہ تو نہیں کہ شیعہ کو مار دیا جائے۔ حق نواز جھنگوی کی ویڈیوز میں دیکھ لیں انھوں نے ساری عمر کہا کہ شیعہ کافر ہے لیکن یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ واجب القتل ہیں”۔ آگے فرماتے ہیں کہ “شیعہ برادری کو یہ لگتا تھا کہ ہم ان کے دشمن ہیں”۔ خیر سے کھلم کھلا ایک فرقے کو کافر قرار دیا جا رہا ہے ان کے قتل کی حمایت کی جا رہی ہے اور فرمایا جا رہا ہے ان کو لگتا تھا ہم ان کے دشمن ہیں۔ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا۔

فرقوں کے نام پر جماعتیں بنانے والے، دوسروں کو کافر کہنے والے، کہیں سے قابل احترام نہیں ہیں۔ مجھے نہ شیعہ جماعتوں اور ان کے رہنماؤں سے کوئی ہمدردی ہے نہ سنی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں سے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ساری قوم کو تفرقے کی بنیاد پر آپس میں الجھا رکھا ہے۔ مجھے سیدھے سادے پاکستانیوں سے، سیدھے سادے مسلمانوں سے ، انسانوں سے ہمدردی ہے۔ مجھے ان کا انٹرویو ہم سب میں دیکھ کر دلی تکلیف ہوئی۔ ہم سب کا پلیٹ فارم ایسے لوگوں کے نظریات کو ترویج دینے کے لئے نہیں بنا تھا۔ اب ایسے انٹرویو چھپیں گے تو “بات دور تلک جائے گی”۔ اس سلسلے میں اگلا انٹرویو مشال کے قاتلوں کا چھپنا چاہیے انھوں نے بھی ملک کی بڑی خدمت کی ہے۔ خیر سے ایک گستاخ کو پھڑکا دیا ہے چار سو امن ہو گیا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں سیالکوٹ کے بھائیوں کے قاتلوں کا بھی انٹرویو لے لیں انھوں نے چوری چکاری ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ہمارے امن کے پیامبر مولانا عبدالعزیز تو رہ ہی گئے، الطاف بھائی کا انٹرویو تو بنتا ہی ہے۔۔ ریاض بسرا، اجمل پہاڑی وغیرہ! سب کا نقطہ نظر چھپنا چاہے۔ آخر ان سب نے امن میں، ملک کی ترقی میں، اہم کردار ادا کیا ہے۔۔ آپ بھی آ جائیں۔۔ ویسے بھی اب فکر کی کوئی بات نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).