بھائی ذیشان ہاشم کے کھلے خط پر


کسی ادارے کی اس سے بڑی خوبصورتی کیا ہوگی کہ اس پر کی گئی تنقید کو وہ ادارہ احترام سے شائع کرے۔ برادرم ذیشان ہاشم نے مدیر ہم سب کے نام کھلا خط لکھ کر اور ہم سب نے اسے شائع کرکے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ صحافتی دیانتداری رشتے پڑوس نہیں دیکھتی۔ ویسے تو محترم وجاہت مسعود نے اس کھلے خط کے جواب میں ایک عمدہ مضمون لکھ دیا ہے لیکن میرا بھی جی چاہتا ہے کہ ذیشان ہاشم صاحب کے تحفظات پر کچھ عرض کروں۔

خط کے شروع میں ذیشان ہاشم صاحب نے دو باتوں کا شکوہ کیا ہے۔ پہلا مولانا احمد لدھیانوی کا انٹرویو شائع کرنے کا فیصلہ اور دوسرا ہم سب کے ذریعہ سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ پہنچ بنانے کی کوشش۔ چلئے دوسری بات سے شروع کرتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعہ ریٹنگ کی تگ و دو اور ہم سب کے ذریعہ سوشل میڈیا پر اپنا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش میں ایک بنیادی فرق ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کی ریٹنگ کے لئے جد و جہد کسی اصول پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ جب جو چیز میڈیا کو ریٹنگ دلا دے میڈیا اسے ہی چلانے لگتا ہے دوسرے لفظوں میں کہوں تو ریٹنگ میڈیا کا مواد طے کرتی ہے۔ جس دن قندیل بلوچ سے ریٹنگ ملے اس دن اس کا ذکر ہوگا اور جس دن مولانا طاہر القادری ریٹنگ دیں گے اس دن ان کے رخ انور کو دکھایا جائے گا۔ ہم سب کا معاملہ اس سے بالکل الٹ ہے یہاں یہ بنیاد نہیں ہے کہ کیا چھاپا جائے جسے زیادہ لائک ملیں بلکہ کوشش اس کی ہوتی ہے کہ جو آراء شائع ہوئی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک کیسے پہنچیں۔ کیا اس میں کوئی قباحت ہو سکتی ہے؟ کون نہیں چاہتا کہ اچھی بات زیادہ لوگوں تک پہنچے؟

اب مولانا لدھیانوی صاحب کے انٹرویو کی بات کر لیتے ہیں۔ اس انٹرویو کو دیکھنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں پہلا یہ کہ اس طرح انہیں اپنی بات رکھنے کا موقع ملا اور دوسرا یہ کہ اس طرح ان کے نظریات پر گفتگو کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ مولانا کے خیالات میں سے جن باتوں پر مجھے اعتراض ہوا میں نے اپنے کالم ملفوظات مولانا لدھیانوی پر تبصرہ میں لکھے۔ وجاہت مسعود صاحب کو جو باتیں قابل گرفت لگیں اس پر انہوں نے لکھا۔ کئی اور اصحاب نے بھی رائے دی۔ کیا یہ ایک صحتمند بحث نہیں ہے؟

ذیشان بھائی نے اپنے خط میں محترم عدنان کاکڑ کے ذریعہ لبرل طالبان کی اصطلاح پر بھی شکوہ فرمایا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ نائب مدیر کی طرف سے یہ الفاظ آنا مناسب نہیں۔ اب یہی رک کر اس بات کو دوسرے طریقے سے دیکھنے کی کوشش کیجئے۔ عدنان صاحب کی ایک حیثیت بلاشبہ ہم سب کا نائب مدیر ہونا ہے لیکن ان کی ایک اور کیپیسیٹی بھی ہے اور وہ ہے ایک تجزیہ نگار کی اس لئے کیا ضروری ہے کہ ان کے ہر مضمون کے ہر لفظ کو ادارے کی رائے کے طور پر ہی دیکھا جائے۔ یہ ان کی بطور تجزیہ نگار انفرادی رائے بھی تو ہو سکتی ہے؟ بات کو اور زیادہ سمجھنے کے لئے خود ذیشان بھائی کی ہی مثال لیتے ہیں انہوں نے جو کھلا خط ہے وہ ان کا انفرادی موقف مانا گیا جب کہ وہ ہم سب کے ادارتی بورڈ کے رکن ہیں۔

ذیشان صاحب کے کھلے خط میں لبرل فکر پر بھی بات کی گئی۔ اب یہاں مجھے اختلاف ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے یہاں ہر شخص پر کسی نہ کسی چیز کا ٹھپہ لگنا کیوں ضروری ہے؟ مثلا میں میانہ روی اختیار کرتا ہوں تو مجھے لبرل کہلانا ہوگا۔ تمام مذاہب کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہوں تو سیکولر کے زمرے میں آ جاوں گا۔ مذہبی رسوم کو غلط کہوں گا ایتھیسٹ بن جاوں گا۔ یہ سب صفتیں انسان پر چپکانی کیوں ضروری ہیں؟ مجھے سخت اختلاف ہے اگر کوئی کہے کہ ہم سب لبرل لکھاریوں کا پلیٹ فارم ہے۔ جی نہیں، انصاف کی بات کہنا، میانہ روی اختیار کرنا، صلح جوئی کی بات کرنا انسان کی فطرت کا حصہ ہے اور اگر اس مزاج کی ترجمانی ہم سب پر ہوتی ہے تو آپ ان لکھاریوں کو لبرل کے ڈبے میں ڈال کر کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ کیا میں بنا لبرزم کی تعریف جانے معتدل اور میانہ روئی پسند نہیں ہو سکتا؟ اعتدال تو انسان کی فطرت ہے۔ اس لئے معتدل کو لبرل مت کہئے کیونکہ وہ جو کر رہا ہے وہی نارمل انسان کا مزاج ہے۔ ہاں افراط و تفریط، شدت پسندی، نفرت اور جدال کی فطرت پر انسان کو پیدا نہیں کیا گیا اد لئے ان صفات والے افراد کو آپ جو چاہے نام دیں آپ کی مرضی ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter