اگر مذہبی معاشرہ یہی ہے تو ہمیں سیکولرازم کی ضرورت ہے


مشال خان کے دل دوز واقعے کی کچھ تفصیلات سوشل میڈیا پر دیکھیں، لیکن ویڈیو دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ گزشتہ دنوں ایک مجلس میں جناب افراسیاب خٹک، ڈاکٹر قبلہ ایاز، وسعت اللہ خان اور حسن خان (خیبر ٹی وی) جیسے باخبر حضرات کی زبانی صورت حال کے جو پہلو معلوم ہوئے، ان کی روشنی میں، واقعہ یہ ہے کہ اس قوم کی اجتماعی اخلاقی پستی بالکل ننگی ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ چند پہلو ملاحظہ ہوں:

یہ تو اب سب کو معلوم ہے کہ یہ قتل مشتعل طلبہ کے کسی ہجوم نے کسی heat of the moment کے زیر اثر نہیں کیا، بلکہ اس میں یونیورسٹی کے اساتذہ، انتظامیہ اور اس سے بھی بڑھ کر مقامی پولیس ملوث ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے یہ اقدام کیا گیا۔ یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ توہین مذہب کا الزام بے بنیاد تھا۔ قتل کے اصل محرک کے متعلق بعض واقفان حال کی رائے یہ ہے کہ مشال خان متعلقہ یونیورسٹی کے نظام، تعلیم کے معیار، اساتذہ وانتظامی عملہ کی تقرری میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی اقربا نوازی کا ناقد تھا اور انتظامیہ واساتذہ اس کے سوالوں کا جواب دینے سے خود کو عاجز پاتی تھی، چنانچہ اس سے نمٹنے کے لیے توہین مذہب کے الزام کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔

واقعے کے بعد میڈیا کی طرف سے خیبر پختون خوا کی ذمہ دار سیاسی قیادت سے (جس میں نہ صرف مذہبی بلکہ سیکولر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں) تبصرے کے لیے رجوع کیا گیا تو سب کا ابتدائی رد عمل، تبصرے سے اعراض کا تھا بلکہ بعض نے رابطہ کرنے والے رپورٹر کو بھی یہ ناصحانہ مشورہ دیا کہ بہتر ہے، آپ اس معاملے سے دور رہیں۔ وزیر اعلیٰ کو اس کی مذمت پر آمادہ ہونے میں بارہ گھنٹے لگے، جبکہ جناب وزیر اعظم کو (اطلاعات کے مطابق) کوئی تین دن کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ملک میں اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا ہے۔

میڈیا پر واقعہ کی اطلاع آنے کے ساتھ ہی مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے فوری طور پر اس قسم کی بے محل بیان بازی شروع کر دی گئی کہ توہین مذہب کے قانون میں کوئی تبدیلی قبول نہیں کی جائے گی، جو دراصل دوسری طرف کے دباو کو تحلیل کرنے اور واقعے کی سنگینی کو ہلکا کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ مزید یہ کہ مقامی طور پر تمام مذہبی جماعتوں نے ایک مشترکہ فورم تشکیل دیا اور انتظامیہ پر دباو ڈالا کہ مشال کے قاتلوں نے چونکہ محبت رسول میں یہ اقدام کیا ہے، اس لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ کی جائے۔

اور اب واقعے کی ناقابل بیان وحشت ناکی کے تناظر میں رائے عامہ کے دباو کے تحت بظاہر انتظامی وقانونی کارروائی تو کی جا رہی ہے، لیکن چونکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نیز مقامی پولیس کی سطح پر ملوث تمام افراد ایسے ہیں جنھیں کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی پشت پناہی میسر ہے، اس لیے درون خانہ تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کی ترجیح یہی ہے کہ ان افراد کو کیفر کردار تک پہنچنے سے بچایا جائے۔

وسعت اللہ خان نے کہا کہ اس سارے معاملے میں امید کا ایک ہی پہلو سامنے آیا ہے، اور وہ یہ کہ جب قتل کے بعد مشال خان کے گاوں کی مساجد میں مولوی حضرات نے یہ اعلان کروا دیا کہ مقتول کی نماز جنازہ پڑھنا حرام ہے تو مقتول کے والد کے چند دوستوں نے، جن کا تعلق اس گاوں سے نہیں تھا، یہ طے کیا کہ جنازہ ہر حال میں پڑھا جائے گا اور اس کے لیے وہ اپنے گاوں سے جنازہ پڑھنے کے لیے افراد کو لے کر آئے اور ان کی جرات اور حوصلے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نماز جنازہ پڑھی گئی، بلکہ لوگوں کو اصل حقیقت حال سے باخبر کرنے کی راہ بھی ہموار ہوئی، ورنہ شاید پہلے مرحلے پر ہی یہ بات ہمیشہ کے لیے طے ہو جاتی کہ مقتول واقعی توہین مذہب کا مرتکب تھا اور یہ کہ اسے قتل کرنے والوں نے، ایسے ہر واقعے کی طرح، مذہبی حمیت میں یہ کار خیر انجام دیا ہے۔

جیسا کہ عرض کیا گیا، اس نوعیت کا ہر واقعہ ہماری اجتماعی اخلاقی صورت حال کے حوالے سے آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہوتا ہے، لیکن اس واقعے نے تو اتمام حجت میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی۔ اس کا سب سے افسوس ناک پہلو، ہمارے معاشرے میں پست اخلاقیات اور غیر انسانی بلکہ حیوانی رویوں کے ساتھ نام نہاد مذہبی جذبات کا مل جانا ہے۔ ہمیں سیکولر ریاست اور سیکولر معاشرے سے اصولی اور نظریاتی طور پر شدید اختلاف ہے، لیکن اگر ’’مذہبی معاشرے’’ کا نقشہ یہی ہے تو خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اب سیکولرازم کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).