پاکستان پیرس نہیں بن سکا لیکن فرانس بن گیا ہے


مجھے ایک حالیہ سفر کے دوران چند پرانی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ان میں ایک فرانسیسی ناول بھی تھا۔ میں نے بہت عرصہ پہلے اس ناول کے بارے میں کسی کا تبصرہ پڑھا تھا۔اس تبصرے کی وجہ سے میں نے یہ ناول پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ’سرخ اور کالا‘ نامی یہ ناول 1831 میں فرانس میں چھپا۔ اس ناول میں قدیم رومانوی روایت میں کہانی بیان کی گئی ہے۔ ناول کے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ناول کا مرکزی کردار فرانسیسی فوج اور رومن کیتھولک چرچ میں سے کسی ایک کو اپنی ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سرخ فرانسیسی فوج کا رنگ ہے اور کالا چرچ کا۔ کہانی کا پس منظر انیسویں صدی کے پہلے نصف کا فرانسیسی سماج ہے۔ اور یہ سماجی تشکیل جنوبی ایشا کی موجودہ سماجی اور ثقافتی تشکیل سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔ ناول کے مرکزی کردار کا تعلق نچلے طبقے سے ہے۔ اس کا باپ بڑھئی ہے۔ مگر یہ کردار اپنا طبقہ بدل کر اونچے طبقات میں شامل ہونے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ فرانسیسی فوج میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوکر سماج میں عزت دار مقام حاصل کرے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ متبادل کے طور پر وہ مذہب کا سہارا لیتا ہے اور پادری بننے کی کوشش کرتا ہے۔ کئی ایک مشکلات اور ناکامیوں کے بعد وہ پادری بننے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد وہ مارکوس دیلامول کا پرسنل سیکرٹری بن جاتا ہے۔ اس طرح ایک لحاظ سے وہ فرانسیسی اشرافیہ کا حصہ بن جاتا ہے۔ مگر اس کا اپنا طبقاتی پس منظر اس کا پیچھا کرتا ہے۔ اشرافیہ اسے اپنے طبقے کا آدمی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔وہ مارکوس کی بیٹی سے پیار کا ڈھونگ رچاتا ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ اس طبقے میں جگہ بنا سکے مگر وہ لڑکی اس کے طبقاتی پس منظر کی وجہ سے اس کے ساتھ پیار کرنے سے کتراتی ہے۔ حالانکہ وہ اس کی شخصیت اور قابلیت سے بہت متاثر ہے۔ بالآخر وہ جب اسے رام کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کی ایک سابقہ محبوبہ ایک خط کے ذریعے اس کو فراڈ ثابت کر دیتی ہے۔ اس طرح اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور وہ اشرافیہ سے نکال دیا جاتا ہے۔ ناول میں فرانسیسی اشرافیہ کی منافقت کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رومن کیتھولک چرچ کے کردار پر سے بھی پردہ اٹھایا گیا۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو جس قسم کا کلچر اور سوچ اس وقت کے فرانس میں تھی وہ ہوبہو آج ہمارے ہاں موجود ہے۔ نچلے طبقے سے نکل کر اونچے طبقے میں شامل ہونے کی خواہش تو انسان میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ چنانچہ یہ خواہش اگر آج ہمارے نوجوانوں میں موجود ہے تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے سماج کی اشرافیہ کا کردار ہوبہو وہی ہے جو تب فرانسیسی اشرافیہ کا تھا۔ اس کردار میں دو چیزیں نمایاں تھیں۔ ایک حد سے بڑی ہوئی مادہ پرستی۔ اور دوسری منافقت۔ اس طرح ہمارے ہاں آج بھی نچلے طبقے کے افراد کی بڑی تعداد ترقی اور محفوط مستقبل کے لیے فوج کی نوکری کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ فوجی نوکری نہ صرف ان کے لیے معاشی اعتبار سے منافع بخش ہوتی ہے بلکہ سماجی رتبے میں بلندی کے لیے بھی بہترین راستہ مانا جاتا ہے۔ اس وقت کا رومن کیتھولک چرچ کا کردار بھی ہمارے زمانے کی ملائیت سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔

اس وقت کے فرانس کی طرح آج ہمارے ہاں مذہب کو معاشی مقاصد کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے ہی مذہبی لوگ مذہب کے ذریعے غربت سے نکل کر کروڑ پتی بن گئے۔ اسی طرح مذہب کو سماجی رتبے میںاضافے کے لیے بھی ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہبی پیشوائی۔ امامت، مذہبی جماعتوں کی رہنمائی سے لے کر مدارس تک کتنے ہی لوگ مذہب کی سیڑھی پر چڑھ کر اپنے سماجی رتبے میں اضافہ کرتے ہیں۔ مذہب کا سیاسی استعمال توخیر ہمارے ہاں ایک باقاعدہ روگ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی سے لے کر توہین مذہب کے نام پر خون خرابہ اس افسوسناک صورت حال کا اظہار ہیں۔ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خاطر ہی جہاد کے نام پر دہشت گرد تنظیموں کا قیام عمل میں ایا۔ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خاطر ہی اسلامی نظام کے نفاز کے نام پر مذہبی سیاسی جماعتوں کی تشکیل ہوئی، توہین مذہب کے نام پر قانون سازی ہوئی۔ اور توہین مذہب و رسالت کے نام پر بے گناہ لوگوں کو زندہ جلایا گیا۔سلمان تاثیر اور مشعال خان جیسے لوگ قتل ہوئے۔ مذہب کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ہی قائد اعظم کے تصورات کے بر عکس مذہب کو سرکاری سطح پر اپنا کر ملک کو تھیو کریٹک ریاست بنانے کی مسلسل کوشش ہوتی رہی۔ کالا اور سرخ حیرت انگیز طور پر ہمارے آج کے حالات اور درپیش مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے ملک مین ایک نعرہ بہت مقبول رہا ہے کہ پاکستان کو پیرس بنا دیں گے۔ پاکستان پیرس تو نہیں بن سکا، انیسویں صدی کا فرانس بن گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).