شدت پسندی: مکالمہ کر کے حل نکالا جائے یا بائیکاٹ؟


مولانا محمد احمد لدھیانوی کا انٹرویو ’ہم سب‘ پر شائع ہونے کے بعد ایک نئی بحث کی شروعات ہوگئی ہے۔ لگتا ہے کہ بائیں بازو اور دائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں آمنے سامنے آ چکی ہیں۔ تاثر یہ مل رہا ہے کہ ’ہم سب‘ نے یہ انٹرویو شائع کر کے دیوار برلن کو گرا دیا ہے۔ اگر پاکستان کی صحافتی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہاں پر اسامہ بن لادن سے لے کر ملا عمر اور مولانا فضل اللہ، مولانا عبدالعزیر اور سیکڑوں شدت پسندوں کے انٹرویوز دکھائے اور چھاپے جاتے رہے ہیں۔ آج کل کے لبرل صحافیوں، تجزیہ کاروں نے ماضی قریب میں ان شدت پسندوں کے نام پر قصیدے اور تحریریں لکھ کر ان کو ہمارا ہیرو بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شاید اتنا شور اس وقت بھی نہیں ہوا تھا جب مولانا محمد احمد لدھیانوی کو لبرل کہلانے والی جماعتوں نے الیکشن میں مدد فراہم کر کے پارلیمنٹ تک پہنچایا۔ شور تو اس طرح مچ رہا ہے کہ جیسے ’ہم سب‘کے انٹرویو کے بعد ہی مولانا لدھیانوی دنیا میں جانے اور پہچانے جا رہے ہیں اور اس سے پہلے مولانا لدھیانوی کے فکر و فلسفے کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ خیر جمہوریت میں اختلاف رائے ہونا چاہیے اور دونوں رائے عامہ کو شائع کر کے ’ہم سب‘ اپنا یہ فرض بخوبی سرانجام دے رہی ہے۔ اور میرے خیال میں ’ہم سب‘ کسی تعریف کی محتاج نہیں۔ ’ہم سب‘ نے ہمیشہ مذہب، مسلک، رنگ و نسل قوم اور امتیاز سے بالاتر ہو کر ہر کسی کو اپنی آرا اور دل کی بات کرنے کا موقع دیا ہے۔ جو ایک قابل تحسین بات ہے۔

جہاں تک بات ہے لبرل اور شدت پسندانہ خیالات اور فلسفے کی، میرے خیال میں آپ کسی پر بھی اپنے خیالات اور فلسفے کو مسلط نہیں کر سکتے۔ آپ کو یاد ہوگا جب طالبان زبردستی لبرل لوگوں کے خیالات اور سوچ پر پابندی لگا کر اپنی سوچ ٹھونس رہے تھے۔ اس وقت بھی یہی کہا جاتا تھا کہ وہ کون ہوتے ہیں زبردستی اپنی سوچ اور نظریہ نافذ کرنے والے۔ کیا دنیا میں لبرل اور شدت پسند ساتھ نہیں رہ رہے ہیں؟ اگر انتہاپسندانہ سو چ و فکر پر پابندی ہوتی تو ہم نریندرا مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شدت پسندانہ سوچ کے حامل افراد کے انٹرویوز اور خبریں کبھی بھی سن نہ پاتے۔ اور پھر تہذیبوں کے تصادم والے نظریات دنیا کبھی بھی رد نہ کرتی۔ یہاں پر سوال تو یہ ہے کہ کیا شدت پسندانہ سوچ اور فکر سے الگ رہنا، اور ان سے سوشل بائیکاٹ کرنا ہی مسئلے کا حل ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کو کسیے ختم کیا جائے۔ اور کیا صرف طاقت کے زور پر ان انتہا پسندوں کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیوں ایک دہائی سے زائد عرصے سے اس خطے میں امریکا بہادر ان انتہا پسندوں کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اور پھر کیوں بار بار طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنا چاہتا ہے۔ اور دنیا کے دانشور کہنے پر مجبور ہیں کہ اگر انتہاپسندانہ سوچ کا خاتمہ کرنا چاہتے ہو تو بات چیت کے ذریعے ان لوگوں کو قومی دھارے میں لاؤ۔

اگر لڑائی جھگڑے سے مسئلے حل ہوتے تو پھر اب تک مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو بھی حل ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر دنیا کے طویل تنازعات اور جنگوں کو دیکھا جائے تو وہ بھی بات چیت کے ذریعے حل ہوئے ہیں، اور حل ہوں گے۔ ہم کیوں گاندھی، قائد اعظم اور نیلسن منڈیلا اور ان کی امن پسندانہ سوچ و فکر کو یاد کرتے ہیں کیوں کہ انہوں نے ان تنازعات اور جھگڑوں کو صرف اور صرف بات چیت اور عدم تشدد اور برداشت سے حل کیا تھا۔ اس لئے جاپان اور امریکا نے پرل ہاربر اور ناگا ساکی، ہیرو شیما کو بھلا کر باہمی تعلقات پر زور دیا۔ اور ساوتھ افریقہ نے بھی ٹرتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن قائم کر کے اپنے بھیانک ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کو ترجیح دی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہٹلر، بسمارک اور چرچل ،سٹالن، روزویلٹ کی شدت پسندانہ سوچ سے کچھ سبق سیکھیں جنہوں نے 20 ویں صدی کا آدھا حصہ تباہی اور نفرتوں کے نام کر دیا تھا۔ اور ہم خود کو اور اپنے مستقبل کے معماروں کو 21ویں صدی کی تباہی سے ہم کنارنہ کریں اور لبرل ازم اور شدت پسندی کے اختلاف کو مکالمے اور بات چیت کے ذریعے حل کریں تاکہ ہم اپنے خیالات اور فلسفے کو منطق کے ساتھ منوا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).