یونس خان تم امر ہو


‘میری ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر منٹ کو لے کے بہت کچھ کہا جا رہا ہے کہ شاید یونس خان نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ آگے بھی کھیلنا چاہ رہے ہیں اس میں کو ئی صداقت نہیں ہے۔ میں نے اپنی ریٹائر منٹ اپنی خواہش سے اپنی سوچ سے آنر سے صحیح طریقے سے اور پلا ن سےکی ہےمجھ سے کیا سوال ہو امیں نے اس کا کیا جواب دیا اورآپ کے سامنے اس کا کیا ورژن آیا اس کی Details میں نہیں جاؤں گایونس خان اگر ویسٹ انڈیز کے خلاف ہر میچ کی ہر اننگ میں بھی سو کریں گے تو ان شاء اللہ پھر بھی یونس خان ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہے اورایسی کوئی بات میر ے ذہن میں ہو تی بھی تو میں پاکستانی ہی تو ہوں پاکستان ٹیم کے لیے ہی تو کھیلتا ہوں پڑوسی ملک انڈیا کے لیے تو نہیں کھیلتا ہوں کہ اس کو لے کے اتنی بڑی Controversy بنا دی جائے۔ خدارا یونس خان کی Credibility پر شک نہ کریں پاکستان ٹیم کو سپورٹ کریں یونس خان کے لیے دعا کریں کہ ہم کافی عرصہ بعد ویسٹ انڈیز میں کو ئی ٹیسٹ سیریز جیتیں۔ تھینک یو۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کےسابق کپتان یونس خان کے اس مختصر بیان میں وضاحت ہے، التجا ہے، واسطہ ہے اور شکوہ ہے۔ ایک ایسے انسان کا شکوہ جس کا شمار دور حاضر کے ان کھلاڑیوں میں ہو تا ہے جن کا دامن فکسنگ کی آلائشوں سے پاک ہے۔ جو وطن سے وفادار ہے جس نے اپنی ذات کے لیے یا ٹیم میں جگہ بنانے کے لئے نہیں بلکہ وطن کے لیے کرکٹ کے کھیل کو ایک فرض سمجھ کر کھیلا۔ وطن عزیز میں کسی عہدہ پر رہتے ہوئے اس سے الگ ہونا ہماراقومی مزاج نہیں ہے اور یہ مزاج قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں کرکٹ سے ازخود ریٹائرمنٹ لینے کا رواج بہت کم ہے بالخصوص ایسے کھلاڑیوں میں جو فٹ ہوں اور ان کی فارم بھی اچھی ہو۔ دنیائے کرکٹ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ بعض کھلاڑیوں نے ایسے وقت میں کرکٹ سے سنیاس لے لیا جب وہ اپنے کریئر کے عروج پر تھے ۔ یہی بہتر طریق ہے بجائے اس کے کہ جب قویٰ میں انحطاط ہو فارم نہ ہو لیکن ٹیم میں محض سابقہ کارکردگی یا چند ایک اچھی اننگ کے بل بوتے پر وقتاً فوقتاً ٹیم کا حصہ بنتے ہوں، اچھا نہ کھیل سکیں اور اپنی تمام تر سابقہ محنت اور نیک نامی پر پانی پھیر دیں۔

فروری سن 2000 میں سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ اورایک روزہ کرکٹ سے کریئر کا آغاز کیا۔ اپنے پہلے ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں سینچری بنا کر ان کھلاڑیوں کی صف میں بھی شامل ہو گئے جنہوں نے اپنے پہلے میچ سینچری کی۔ یہ آج سے سترہ سال قبل شروع ہو نے والے ان کے کیرئر کا شاندار آغاز تھا اور ایک گونہ اپنی کرکٹ کی دنیا میں دبنگ آمد کا اعلان، جس کے بعد یونس خان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آج جب وہ اپنے کیریئر کا آخری ٹیسٹ کھیل رہے ہیں توعالمی کرکٹ کی تاریخ کے صفحات پر ان کا نام جگہ جگہ موجود ہے۔ جس میں کئی ملکی و بین الاقوامی ریکارڈ ان کے نام ہو چکے ہیں۔ اپنے اس آخری ٹیسٹ میں انہوں دس ہزار رنز مکمل کیئے اور ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار رن بنانے والوں میں تیرہویں نمبر پر کھڑے ہیں اور پہلے پاکستانی ہیں جس نے یہ سنگ میل عبور کیا۔

ان کے کھاتے میں اب 34 ٹیسٹ سیچریاں ہیں جو کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کی طرف سے سب سے زیادہ ہیں۔

یونس اور مصباح کے درمیان پاکستان کی طرف سے سب سے بڑی شراکت ہوئی۔

انہوں نے 6 دفعہ 200 کا انفرادی اسکور کیا۔

یہ تیسرے پاکستانی ہیں جنہوں نے 300 کا انفرادی اسکور کا ہندسہ پار کیا۔

یہ واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں جس نے ٹیسٹ کھیلنے والے تمام 9 ممالک کے خلاف سینچیر ی کی ہوئی ہے۔

جب انہوں نے ٹیسٹ میں 8500 رنز مکمل کیے تو یہ تیسرے پاکستانی اور دنیائے کرکٹ کے اٹھائیس ویں کھلاڑی تھے۔

یونس خان تیز ترین 7500 رنز بنانے والے دنیائے کرکٹ کے پانچویں کھلاڑی ہیں انہوں نے یہ سنگ میل 90 میچوں میں عبور کیا۔

یونس خان پاکستان سے باہر سب زیادہ 23 سینچریاں بنانے والے واحد پاکستانی ہیں۔

یونس خان واحد پاکستانی ہیں جس نے ٹیسٹ میں سو کیچ کیے۔

تیسرے نمبر پر کھیلتے ہوئے پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنائے ہیں۔

یونس خان واحد پاکستانی ہیں جس نے 34 سال کی عمر ہونے کے بعد سب سے زیادہ سینچریاں بنائیں جن کی تعداد 14 ہے۔

یونس خان واحد پاکستانی کھلاڑی ہے جس نے آسٹریلیا کے خلاف مسلسل تین سینچریاں بنائی ہیں اس سے پہلے 1924۔ 25 میں ہربرٹ اسٹکلیف یہ کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں۔

یونس خان چوتھی اننگ میں پانچ سینچریاں بنانے والے دنیائے کرکٹ کے واحد بیٹسمین ہیں۔

یہ واحد بیٹس مین ہیں جنہوں نے 39 سال کی عمر میں دس ہزار رنز بنانے کا سنگل میل عبور کیا ہے۔

یونس خان کے نام 2009 کا ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ بھی ہے جو 1992 کے بعد کرکٹ کے سب سے بڑے ایونٹ میں پاکستان کی کامیابی تھی۔

اپنے سترہ سالہ کرکٹ کیریئر میں یونس خان اس قدر کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود کبھی بھی کرکٹ بورڈ کے منظور نظر نہ رہے جس کی ایک وجہ شاید ان کا صاف گو ہونا ہے۔ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کر دینا یونس خان کا خاصہ رہا ہے جس کی وجہ سے ان پر ڈسپلن کی خلاف ورزی کے الزامات لگے ۔ خراب فارم کی وجہ سے متعدد بار ٹیم سے باہر بھی ہو ئے لیکن جب بھی لوٹے ناقدین کو اپنے بلے سے جواب دیا اور بھر پو ر جواب دیا۔ اپنی مستقل مزاجی اور محنت کی بدولت یونس خان نے اپنے سے کئی گنا بہتر اسٹائل اور ٹیکنیک رکھنے والے جاوید میانداد، انضام الحق، سعید انور، محمد یوسف جیسے بڑے کھلاڑیوں کہیں پیچھے چھوڑ دیا اور کرکٹ کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ ان کی شاندار کا کردگی پر انہیں 2010 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ حال ہی میں انہیں وزڈن کرکٹرآف دی ائیر کے لیے نامزد کیا گیا۔

اپنی ریٹائر منٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہو ئے ان کے الفاظ میں تاسف کا پہلو نمایاں تھا جس کا اظہار انہوں ان الفاظ میں کیا کہ بفرض محال اگر میں کھیلوں بھی تو پاکستا ن ہی کے لیے کھیلوں گا۔ بحر حال یونس خان ایک اچھی روایت قائم کرنے جا رہے ہیں کیونکہ ہمارے سابقہ کرکٹر کی یہ روایت نہیں رہی، اگر وہ اپنے اس فیصلہ پر قائم رہتے ہیں تو بلا شبہ یہ ایک قابل تقلید نمونہ ہو گا۔

شاید ان کے جانے کے بعد ہم انہیں وہ مقام دے سکیں جو ان کو ان کے کیریئر کے دوران ان کی بے شمار خدمات کے عوض ملنا چاہیے تھا۔ الوداع یونس خان، دنیا تمھیں ریکارڈ ساز، باکردار اور دھیما مزاج رکھنے والے کرکٹر کی حیثیت سے بھی دیا دکھے گی۔ یونس خان تم امر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).