عربن سے عشق اور ہکا بکا یار دلدار


اُن دنوں ایک اسائنمنٹ تھی، مزاروں پر گھومتا پھر رہا تھا۔ ملنگوں سے باتیں کرتا، ان کی سنتا تھا وہ زندگی کو کیا سمجھتے ہیں کیسے دیکھتے ہیں۔ شام ہونے کو آتی تو ڈیرے پر پہنچ جاتا کہ نانا کے بے قابو ہو جانے کا اندیشہ رہتا تھا۔ مجھے تو خیر انہوں نے کیا کہنا تھا سارے گھر کی شامت آ جایا کرتی تھے کہ اس کو ڈھونڈ کر لاؤ کدھر چلا گیا، ابھی تک آیا کیوں نہیں۔

پنڈ میں بھا ہوتا ہے، ننھیالی کزن ہیں اور کچھ دوست ہیں۔ پنجاب کے اصل باشندوں کو کچھ لوگ شاید انھیں کم تر ظاہر کرنے کے لیے جانگلی کہتے ہیں۔ میرے لیے ”جانگلی“ محبت کا، پختہ تعلق کا دھرتی سے جڑے ہوئے فرد کا حوالہ ہے اور پکی یاری کا بھی۔

پاکپتن میں ڈیرہ تھا انٹرنیٹ سے دور تھا سو خوش تھا۔ کھلی ہوا میں سوتا تھا، ڈیرے پر بجلی نہیں تھی تو درختوں تلے سونے کا، راتوں کو تارے دیکھنے کا مزہ ہی الگ ہوتا تھا۔ زندگی مست گذر رہی تھی اپنی مستی میں یہ بھول گیا تھا کہ میں نے سائبر ورلڈ میں بہت دوست بنائے ہوئے ہیں، وہ بھی یاد کرتے ہوں گے۔

ڈیرے پر موبائل فون کے سگنل اپنی مرضی سے ہی آتے تھے، کہیں سگنل آ جاتے اکثر ڈوبے ہی رہتے۔ ایک دن پیدل ہی قریبی بس سٹاپ جا رہا تھا کہ ایک فون آیا کہ کدھر غائب ہو گئے ہو؟ پوچھا کون؟ وہ عربن تھی۔ ہے تو پاکستانی پر ایک عرب ملک میں رہتی تھی، اور سائبر ورلڈ پر اُس نے اپنا نام عربن رکھا ہوا تھا۔ کبھی کبھار فون پر بھی بات ہو جاتی تھی۔ ان دنوں اپنے نئے جانگلی دوستوں کے ساتھ کزنوں کے ساتھ وقت گذر رہا تھا۔ مزے ضرور تھے لیکن ایک کھردرے پن کا احساس بھی تھا۔ ایسے میں عربن کا فون ویسے ہی محسوس کرایا جیسے فیض نے کہا تھا جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم۔

عربن کا فون بند ہوا تو مجھ سے رہا نہ گیا اسے خود فون کر لیا سگنل ڈھونڈنے کے لیے ایک دیوار پر چڑھنا پڑا۔ عربن نے شکوہ کیا، ”یار تمھیں شرم نہیں آتی، کدھر غائب ہو کوئی اتا پتا ہی نہیں؟ “ اب کیا کہوں کہ کتنی کمینی سی خوشی ہوئی تھی۔ اس سے کہا کہ سگنل نہیں ہے بجلی نہیں ہے، اس لیے کال نہیں ہوسکتی، تو اس نے پوچھا، ایس ایم ایس تو ہو سکتا ہے کہ وہ بھی نہیں؟ او تیری! ہاں ایس ایم ایس ہو سکتا ہے، بس پھر کیا، ہم میسجو میسجی ہونے لگے۔

تاروں بھری راتیں ہوتی تھیں، پہلے ان تاروں کو تکتے ہوئے سو جایا کرتا تھا۔ اب تاروں تلے چھت پر چارپائی پر لیٹا میسج کا انتظار کیا کرتا تھا۔ ہم ایک دوسرے کو میسج کرتے تھے۔ کوئی جادو ہی تھا کہ رات کو سگنل پورے آتے تھے میسج بہت آرام سے آتے جاتے تھے۔ کال کرنا رسک ہی تھا تین کلومیٹر دور مین روڈ پر بس گذرنے کی آوازبھی صاف سنائی دیتی تھی۔ ایسے میں فون کر کے نانا کے ہاتھوں پھڑے جانے کا پورا امکان تھا۔

کزن کو تو پتہ تھا وہ ڈھیٹ ہو کر اگنور مارتا رہا۔ البتہ دوستوں نے بلکہ عامی نے تاڑ لیا کہ اب موبائل کا استعمال بہت ہی بڑھ گیا۔ سارا دن تو میں اسی کو لے کر آتا جاتا رہتا تھا فون چارج کرانے کے لیے پنڈ یا اڈے پر۔ ہمارا ڈیرہ اپنی زرعی زمین پر ہی تھا وہاں بجلی ہی نہیں تھی۔ عامی سے کہا کہ یار کوئی حال نہیں ہے ادھر سگنل بھی نہیں آتے۔ عامی بولا کیا بات کرتے ہو فل سگنل آتے ہیں اوپر۔ اس سے پوچھا کدھر اوپر اس نے کہا درخت پر۔ اسے بولا تمھارا دماغ ٹھیک ہے تو بولا چل اوپر چڑھ کر دیکھ۔ وہ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔

عامی سے کہا کہ یار سگنل کامسئلہ تو حل ہو گیا یہ موبائل کی چارجنگ کا کیسے سسٹم بنے گا کوئی بیٹری نہیں مل سکتی۔ عامی بولا کیوں نہیں مل سکتی۔ اُس نے تسلی دی، اُسی شام کو اس کا چچا کسی کو گالیاں دیتا پھر رہا تھا، کہ اس کی ٹیپ کی بیٹری کڈھ (نکال) کے لے گیا ہے۔ عامی نے الیکٹریشن سے مل کر انتظام کیا تھا، بیٹری نیچے فٹ کی اور اس کی تار درخت پر پہنچائی، یوں موبائل فون درخت ہی پر چارج ہونے لگا۔ فون درخت تلے بھی چارج ہو سکتا تھا، لیکن مصیبت یہ تھی کہ طاقتور سگنل درخت پر ہی آتے تھے۔

میں عامی اور دیگر لوگ باری باری درخت کےگرد ڈیوٹی دیتے کہ پتا نہیں کب فون آ جائے۔ اس انتظار میں کبھی سروس پروائڈر کے نمایندے کی کال آ جاتی، تو عامی اس کو جانگلی لہجے میں ایسی ایسی نادر و نایاب گالیاں بکتا کہ اس کی طبیعت صاف ہو جاتی، بہت ہی مہذب انداز اپنائے تو یہ کہہ دیتا، کہ ”او بند کر فون تیری اپنی بہن دا فون آن والا۔ پھر وہ نمائندہ جب عامی کو اگے سے جواب دیتا تو عامی بہت خوش ہوتا کہ کوئی نسلی نمائندہ ہی رکھا ہوا۔ ٓجب فون کال آتی تو وسی بابے کو بہت اہتمام سے درخت پر چڑھایا جاتا۔

جس سے بات کرنے کے لیے اتنے جتن کیے، اُس نے ایک دن پھر کہہ ہی دیا، ”کل میں تمھیں سرپرائز دوں گی۔ “ کل تو بہت دور تھی، وسی بابے سے ایک منٹ گزارنا مشکل ہو گیا۔ وسی بابے نے اس کی امدادی پارٹی نے بہت غور فکر کر کے یہ اندازہ لگایا کہ کوئی پارسل عرب شریف آتا ہی ہو گا۔ اس میں پتہ نہیں کیا ہو گا ہمارے اک جانگلی مشیر کا کہنا تھا کہ پارسل میں ایک ڈرم ڈیزل ہو تو ہم لوگ کئی دن ٹیوب ویل چلا کر نہا سکتے ہیں۔

پیار مستانہ زیادہ ہوتا یا دیوانہ زیادہ ہوتا ہے مت ضرور ماری ہی جاتی ہے۔ وسی بابے کی بے چینی دیکھ کر ایک بزرگ نے کہا چل تمھاری گاڑی میں بہاول پور چلتے ہیں۔ وقت گزارنے کو نکل پڑے۔ بہاول پور پہنچے ہی تھے، کہ عربن کی کال آ گئی، ”سرپرائز! میں پاکستان آ گئی ہوں۔ سانوں ملن تے آ ماہیا یعنی ملنے آ اور ابھی یعنی اج کی رات ہی آ۔ ساہیوال پاس ہی ہے دو تین گھنٹے لگیں گے شام تک پہنچ جا۔ اسے بتایا کہ یار عربن میں تو بہاولپور ہوں مجھے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ میں یہاں آیا کیوں ہوں۔ یہ تو تقریبا آٹھ گھنٹے لگ جانے ہیں۔ عربن اتنی اچھی اردو بولتی تھی لیکن اس نے پھر پنجابی میں چھلانگ مار کر ایسے خطاب کیا جیسے دو جانگلی لڑ پڑ ہوں۔ اس نے کہا مجھے نہیں پتہ کیسے اب پہنچو رات آٹھ بجے تک۔

پشاور میں مشر کو کال ملا کے رہنمائی لی، ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ ہم نے کوئی الٹا کام سوچا ہو اور مشر نے آگے بڑھ کے قیادت نہ سنبھالی ہو کہ یہ کام فوری کرنا بہت ضروری ہے۔

ہر الٹے کام کے لیے پہلی حمایت ہمیشہ ہمارا مشر ہی فراہم کرتا تھا۔ کسی کی کسی سے لڑائی ہو جاتی تو وہ اپنے بڑے ہونے کا ثبوت دیتا اور لڑنے والوں کو چھڑانے سے گریز کرتا اور باقیوں کو بھی منع کرتا کہ ”پریدا لگ اے ستڑے شی“ یعنی چھوڑو کے ذرا تھک جائیں، یا کبھی یہ بھی کہتا کہ ”پریدا چہ لگ اے وے ٹکئی“ مطلب یہ کہ چھوڑو کہ ذرا چھتر ہی کھا لے۔ اس نے پشتو میں ہمارے بزرگ کے لیے ایک بہت برا لفظ استعمال کیا جو ایسے نازک موقع پر ہمیں بہاولپور لے گیا۔ تاکید کی کہ اس بزرگ کو وہیں رل جانے دوں۔ گاڑی موڑوں اور لاہور چلا جاؤں یہ اب اس کی عزت کا سوال ہے۔ وقت کی پابندی لازم ہے ناک نہیں کٹوانی گاڑی ایسے چلانی ہے جیسا تازہ خان خالی ٹرالر چلاتا ہے۔

بزرگ کو بتائے بغیر بہاول پور چھوڑا، یا حماقت تیرا ہی آسرا کا نعرہ لگایا گڈی موڑ کر عربن کے دربار کو روانہ ہوا۔ راستے میں خیال آیا کہ بحرحال یہ ایک ڈیٹ ہو سکتی ہے۔ نہائے ہوئے دو دن گذر چکے ہیں۔ کپڑوں کا ایک ہی جوڑا ہے گندا ہو چکا۔ عامی کو فون کیا کہ نس کے ساہیوال پہنچے کوئی جوڑا خریدے گھر سے کوئی جوڑا لے جائے۔ کسی درزی کی منت کرے اور نیا جوڑا اس کے پاس بیٹھ کر سلوائے۔

عامی نے کہا منت تو اساں اج تک کسے دی کائی نہیں کیتی یعنی منت تو اج تک کبھی کسی کی نہیں کی۔ اُس نے کنک (گندم) بیچ کے کپڑا خریدا اور اور نجانے درزی کو لما پایا یا معاملے کی نوعیت سمجھائی، ساہیوال پہنچا تو عامی جوڑا سلوا کرروڈ پر تیار کھڑا تھا۔ پٹرول پمپ پر تیار ہوا دوبارہ گاڑی میں بیٹھے۔ جتنے ہو سکتے تھے عامی نے اپنی طرف سے وسی بابے کے بال چلتی گاڑی میں سیٹ کیے۔ اسی سیٹنگ کے چکر میں اک کھڑاک کی آواز آئی دیکھا تو اک موٹر سائکل والا الٹا پڑا سڑک سے دور۔ گاڑی روکی عامی بھاگ کر گیا اس کا پتہ کرنے موٹر سائکل والا ٹھیک تھا وہ عامی کو جڑ گیا عامی کو پہلا گھونسہ پڑا تو اس نے پلٹ کر کہا وسی تو جا اے کم لمبا لگدا اے۔

لاہور اینٹری پر پولیس مقابلہ کیا پچاس روپئے والا مقابلہ بارہ سو روپئے میں خریدا۔ عربن کے گھر داخل ہوا تو آگے وہ تیار ہوئی کھڑی تھی۔ یار حد ہوتی ہے اتنی دیر ایک گھنٹے سے گیٹ پر آ جا رہی ہوں۔ کہاں رہ گئے تھے ہاتھ سا ملایا گلے سا ملی۔ دل میں کیا کیا ارمان جاگے تھے۔ اسے بولا عربن تم بلاؤ میں نہ آؤں ایسا ہرجائی نہیں پتہ نہیں کس فلم کا گانا تھا سنا دیا۔

عربن بولی بک بک بند کر یار آ میرے منگیتر سے مل۔ دل ایسی چیک مار کر رویا تھا۔ مشر کو اتنی موٹی گالی دی عامی کو یاد کیا کہ بچ گیا ہو گا یا ہڈی تڑوا بیٹھا ہے کوئی۔ اس کے چاچے کی بیٹری یاد آئی درخت سے کیسے کیسے گرا تھا اور کس مصیبت سے چڑھتا تھا سب اک لمحے میں یاد آ گیا۔

یار تھے یاد آرہے تھے دلدار تھی سامنے کھڑی تھی وسی بابا ہکا بکا الگ کھڑا تھا۔ اس دن اس ساری تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان جب دو پیس ہوتا ہے نہ تو تب اس کے اندر سے ہکا بکا الگ الگ ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے بس لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا کہ ہکا بکا الگ الگ ہیں اور اک دوجے کو جڑ گئے ہیں کہ یہ کیا ہوا ہے یہ کیا کیا ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi