احمد لدھیانوی، عدنان کاکڑ اور “ہم سب” کا امتحان


“ہم سب” ابھی ڈیڑہ سال کا بھی نہیں ہوا ہے کہ اس پر امتحان آن پڑا ہے! لیکن میرے نزدیک فکر کی کوئی بات نہیں، “ہم سب” اس امتحان میں پاس ہو گیا ہے۔ بس ہمیں احتیاط سے مکالمے کے بنیادی اصولوں کو دیکھنے کے لئے کتاب کی جانب واپس جانے کی ضرورت ہے (we need to go back to basics) تاکہ ہم دنیا کو مکالمہ سکھاتے سکھاتے خود کہیں مات نہ ہو جائیں۔

میں ذاتی طور پر کسی بھی موضوع کو مکالمے سے باہر نہیں سمجھتا اور کسی بھی شخصیت سے بات چیت کرنے کو غلط نہیں سمجھتا۔ لہذا اصولاً اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ “ہم سب” کی ٹیم مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں کو ملے اور پھر “ہم سب” کے قارئین کو ان ملاقاتوں سے حاصل شدہ معلومات سے غیر جانبداری سے آگاہ بھی کرے۔ میرے خیال میں یہ صرف دلچسپ اور مفید ہی نہیں بلکہ اشد ضرور بھی ہے۔ ہاں البتہ اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

“ہم سب” ایک لبرل فورم ہے اور اس کے ہر کام اور مضمون سے لبرل ازم کا پرچار ہی ہونا چاہیئے۔ اس لئے جب ہم احمد لدھیانوی صاحب، حافظ سعید صاحب اور اوریا مقبول جان صاحب یا ان جیسے دوسرے لوگ جن کے خیالات بدامنی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی ترویج کرتے ہیں سے ملیں تو ان سے وہ سوال ضرور پوچھیں جو مین سٹریم میڈیا ان سے نہیں پوچھتا۔ اور اگر ہم وہ سوال نہ پوچھ سکیں تو پھر لدھیانوی صاحب کے خیالات کو مثبت پیرائے میں لکھ کر “ہم سب” کی زینت نہیں بنانا چاہیئے۔ کیونکہ یہ بات امن اور انسانی آزادیوں کے خلاف ہو گی۔

احمد لدھیانوی صاحب کی ساری گفتگو سننی چاہیئے تھی کیونکہ سننا بہت ہی اہم ہے۔ اب ان کی اس گفتگو سے بہت ہی اہم نقطے نکلتے ہیں۔ جن کے متعلق ان سے سوالات بنتے تھے اور پھر اس بحث کو قارئین تک پہنچانا بنتا تھا۔ وہ سوالات بہت سیدھے سادھے اور واضع ہیں کیونکہ لدھیانوی صاحب نے بہت ہی لوز بالیں پھینکی ہوئی ہیں۔ ان باتوں پر چھکے بنتے ہیں، بولڈ ہونا نہیں بنتا۔

احمد لدھیانوی صاحب سے یہ پوچھنے کی ضرورت تھی کہ؛

کیا وہ شیعہ کو کافر سمجھتے ہیں اور ان کو واجب القتل سمجھتے ہیں؟ اگر وہ اس بات کا جواب نہ میں دیتے تو یہ بات بہت اہم ہوتی۔ کیونکہ اپنے پیروکاروں میں بیٹھ کر وہ کچھ اور کہتے ہیں اور “ہم سب” کی ٹیم کو کچھ اور بتاتے ہیں تو یہ بات ان کے پیروکاروں کے لئے لمحہ فکریہ ہو سکتی تھی۔

دوسری بات جب وہ کہتے کہ وہ شیعوں کو کافر اور واجب القتل نہیں سمجھتے تو پھر آج تک انہوں نے اپنی جن تقریروں میں شیعوں کو کافر قرار دیا ہے کیا اپنی ان باتوں کو اب وہ غلط سمجھتے ہیں اور ان غلطیوں کی معافی مانگتے ہیں۔

جب انہوں نے کہا کہ جھنگ میں شیعہ سنی کا جھگڑا جاگیرداروں نے کروایا تھا تو اس پر بھی سوال بنتے تھے کہ اس کا مطلب لشکر جھنگوی جاگیرداروں کے کہنے پر بنی تھی اس کا مطلب ہے کہ وہ غلط تھی۔ اور لشکر جھنگوی کے لیڈر جاگیرداروں کو خوش کرنے کے لئے اہل تشیع کو قتل کر رہے تھے۔ یہ اعتراف بھی اچھا ہوتا۔

اگر وہ اس سوال کا جواب کہ کیا شیعہ واجب القتل ہیں ہاں میں دیتے تو بھی یہ بات بڑی اہم تھی اور ہم شور کرتے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نوٹس لیا جائے۔

اسی طرح سے ان سے یہ سوال بھی بنتا تھا کہ وہ ناموس صحابہ پر قانون بنانے کا کہہ رہے ہیں تو کیا انہوں نے غور کیا ہے کہ بلاسفیمی کے متعلق ڈکٹیٹر ضیاالحق کے بنائے ہوئے قانوں کو لوگوں نے غلط استعمال کر کے اسلام کو کتنا نقصان پہنچایا ہے بلکہ پہنچا رہے ہیں۔ اسی طرح سے سوالات کا لمبا سلسلہ ممکن ہے۔

یوٹیوب لدھیانوی صاحب کے انسانیت کے خلاف بیانات اور تقاریر سے بھرا پڑا ہے اگر “ہم سب” کی ٹیم ان سے مشکل سوالات پوچھتی اور ان کے جوابات سے قارئین کو آگاہ کرتی تو لدھیانوی صاحب کو انٹرویو کرنا بالکل بھی قابل اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا جس کی وجہ سے اعتراضات کی گنجائش پیدا ہوئی۔

جب اعتراضات پیدا ہو گئے اور سامنے لائے گئے تو ان کا جواب “لبرل طالبان” جیسی طعنہ زنی نہیں بنتا تھا۔ اس کا جواب سنجیدگی سے یہ بتانا بنتا تھا کہ یہ سلسلہ کیوں شروع کیا گیا ہے اور اس سے ایک لبرل پاکستان بنانے کے لئے ہماری کوششوں کو کیا فائدہ ہو گا۔

“ہم سب” پر شائع ہونے والے ایک مضمون پر اعتراض کرنے والوں کا موازنہ طالبان کے طریقہ واردات سے کرنا نامناسب ہے۔ یہ تو اپنی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے برابر ہے۔ ہم لبرل لوگوں کو پہلے بھی طعنوں کی کچھ کمی نہیں۔ لوگ جب سوال اٹھانے کو گولی مارنے کے برابر قرار دیتے ہیں تو اصل سوال پیچھے رہ جاتا ہے اور ایک لبرل بے چارے کو پھر زیرو سے شروع کرنا پڑتا ہے کہ جناب میں آپ کو یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اپنا عقیدہ تبدیل کر لیں۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ جن کا عقیدہ آپ سے مختلف ہے انہیں بھی آپ کے برابر زندگی جینے کا حق ہے۔

میری رائے میں احمد لدھیانوی صاحب یا ان جیسے باقی لوگوں کے انٹرویو کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ان انٹرویوز سے انسانیت اور امن کے خلاف ان کے جرائم سے پردہ ہٹنا چاہیئے نہ کہ ان کے جرائم پر پردہ ڈال کر ان کے نظریات کو مثبت رنگ دینا چاہیئے۔

جہاں تک “ہم سب” کا معاملہ ہے تو استاذی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ “ہم سب” ہم سب کا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اختلافی مضامین دھڑا دھڑ چھپ رہے ہیں۔ استاذی نے عدنان خان کاکڑ صاحب کی صلاحیتوں کے بارے میں بھی جو کہا ہے اس سے ہمیں سو فیصد اتفاق ہے اور ہم خوش ہیں کہ ہم کاکڑ صاحب جیسے با صلاحیت شخص کو جانتے ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik