عمران خان پھر سندھ جائیں گے؟


اشرف بہت اچھا لڑکا ہے۔ محلے کے سب لوگ اس کی شرافت اور اچھے کاموں کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ بڑوں کا ادب کرتا ہے۔ ماں باپ کا حکم نہیں ٹالتا۔ غریبوں کی مدد کرتا ہے۔ انتہائی نیک اور زاہد انسان ہے۔ وہ جانوروں تک پر ظلم نہیں کرتا۔ ہمیشہ ہر کسی کی مدد کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اپنے جیب خرچ سے کئی ساتھیوں کی سکول فیس ادا کرتا ہے۔ جہاں غلط بات ہوتے دیکھتا ہے اس کے خلاف ڈٹ جاتا ہے اور جب تک وہ معاملہ ختم نہ ہو جائے، حق پرستی پر جما وہیں موجود رہتا ہے۔ انتہائی سادہ طبیعت ہے اور فضول خرچی کا بالکل قائل نہیں ہے۔

کل صبح اس کا پرچہ ہے۔ وہ اپنی پڑھائی اور اپنے مستقبل کے ساتھ بہت مخلص ہے لیکن پورے دو برس وہ خدمت خلق میں اس قدر مصروف رہا کہ ایک لفظ بھی پڑھ نہ پایا۔ اسے اپنے خلوص اور نیک نیتی پر مکمل یقین ہے۔ اس کا ایمان ہے کہ اگر وہ اچھے کام کرتا رہے تو کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی اسے کسی میدان میں ناکام نہیں کر سکتی۔ رات سر پہ آ چکی ہے اور اشرف کو ابھی تک پڑھنے کا وقت نہیں ملا ہے۔ صبح ریاضی کا پرچہ ہے، کیا اشرف پاس ہو جائے گا؟

موجودہ حالات کی روشنی میں اشرف کا پاس ہو جانا ممکن نہیں ہے۔ ریاضی کے سوال مسلسل مشق مانگتے ہیں۔ بلکہ باقاعدہ کانسپٹس کلئیر ہونے چاہیئیں۔ اس کے تمام نیک اعمال اپنی جگہ لیکن بغیر پڑھے پرچہ پاس کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اب یا تو وہ کسی سے نقل کرے، یا کچھ دے دلا کے پرچہ آؤٹ کروائے گا اور یا پھر پیپر دینے کے بعد چیک کرنے والوں کو ٹریس کرتا رہے گا کہ ان کی کچھ سیوا کر سکے۔ پاس ہونے کا سیدھا راستہ پڑھائی ہے۔ اپنی ذاتی زندگی میں کوئی طالب علم جتنا مرضی برا ہے لیکن اگر وہ مشق کرتا رہتا ہے اور پوری کتاب تیار کر لیتا ہے تو اس کی کامیابی یقینی ہے۔ یہی معاملہ زندگی کا ہے۔ یہی معاملہ سیاست کا ہے۔ اچھے کام اور بلند ارادے سب اپنی جگہ قابل احترام ہیں لیکن ہر چیز کا ایک راستہ ہوتا ہے اور بنیادی قابلیت یا تیاری کے بغیر اس تک پہنچ جانا بہت مشکل یا تقریباً ناممکن ہے۔

عمران خان ایک مرتبہ پھر سندھ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا بیان آیا کہ نواز شریف کے بعد اب آصف زرداری کا پیچھا کروں گا۔ مولانا فضل الرحمن کو شاطر کہا، منتخب وزیر اعظم کے لیے لومڑی کا لفظ استعمال کیا، زرداری صاحب پر ڈاکو پن کا فقرہ کسا اور پھر فرمایا کہ ملک ان دو بڑے سیاست دانوں کے درمیان بندر بانٹ کا شکار ہے۔ سندھ کے عوام کو مخاطب کیا اور بتایا کہ وہ کرپشن سے تباہ ہو چکے ہیں نیز پینے کا صاف پانی انہیں میسر نہیں ہے۔ ملکی قرضوں کی بات ہوئی، چند زیر سماعت کیسوں کا تذکرہ کیا اور تقریر ختم ہو گئی۔

عمران خان پہلے بھی سندھ گئے، کراچی گئے، ایم کیو ایم سے کچھ مسائل ہوئے، اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ اب دوبارہ آصف زرداری کے پیچھے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بہت مناسب بات ہے۔ سیاسی میدان میں رہتے ہوئے تیسری طاقت کے طور پر ابھرنے والی سیاسی جماعت اگر اس طرح اپنا مومینٹم حاصل کر لیتی ہے تو کیا ہی کہنے، لیکن ایک مسئلہ ہے۔ نیک نیتی اپنی جگہ پر اور زمینی حقائق اپنی جگہ! کیا تحریک انصاف کے پاس سندھ میں کوئی الیکشن سیل موجود ہے؟ اگر ہے تو اس کی تیاریاں کیا ہیں؟ مدمقابل ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی کو دیکھا جائے تو کس یونٹ میں کتنا ووٹر ہے اور پولنگ بوتھ کہاں بنانا ہے یہ سب کچھ ان کے فنگر ٹپس پر ہے اور ہمیشہ ہوتا ہے یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے پاس بھی کراچی میں خاصا متحرک الیکشن سیل ہے۔ اگر اس سارے احتجاج، دھرنوں، جلسوں، جلوسوں کی تان انتخابات پر ہی ٹوٹنی ہے تو اس کی تیاری کیا ہے؟ تحریک انصاف کی ویب سائیٹ پر دیکھا جائے تو عام لوگوں کی رکنیت سے متعلق بنیادی معلومات والے صفحے پر بھی صرف خیبر پختون خواہ اور پنجاب کی حد تک معلومات نظر آتی ہیں، سندھ، بلوچستان اور فاٹا والے خانے انتظار کا مژدہ سناتے ہیں۔ یہ لسٹ ec.insaf.pk پر جا کے دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح پانی کا پرابلم بھی مخصوص علاقوں میں ہے۔ مختلف حلقوں میں ووٹر کیا چاہتا ہے، اردو سپیکنگ اور سندھی ووٹر کی ڈیمانڈز میں کیا فرق ہے، ان کا مسئلہ کرپشن ہے بھی یا نہیں ہے، یہ کون دیکھے گا؟

یہ بنیادی مسئلے ہیں۔ اگر تحریک انصاف الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہتی ہے تو اسے سنجیدگی سے کم از کم الیکشن پلاننگ کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ جہاں ایک طرف ایسے ایسے ماہر الیکشن سیلوں میں موجود ہوں جو پولنگ بوتھ کی جگہ حساب کتاب سے مقرر کروانے پر الیکشن جیت جائیں، پریزائیڈنگ آفیسرز کے شجروں تک سے واقف ہوں، سرکاری الیکشن کمیشن سے زیادہ انہیں ایریا کوڈ یاد ہوں اور دوسری طرف خان صاحب جیسا پرجوش لیڈر ہو لیکن کوئی الیکشن لڑنے والا نہ ہو تو افسوس ہوتا ہے۔ اگلے پانچ سال پھر اسی طرح گلی کوچے کی سیاست گردی کرنا پڑے، اس سے کہیں بہتر ہو گا کہ مائیکرو لیول پر الیکشن کی منصوبہ بندی کر لی جائے یا کم از کم ایم کیو ایم کے الیکشن سیل کا ہی جائزہ لے لیا جائے۔ موجودہ سیاسی حالات میں ایم کیو ایم کا ووٹ بڑی تعداد میں ٹوٹنے کا امکان ہے لیکن وہ گھوم گھام کے وہیں جائے گا جن کے پیچھے عمران خان جانا چاہتے ہیں۔ ضرور جائیں مگر تیاری کے ساتھ جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔

ورلڈ کپ کے دنوں میں عمران خان کا چمکتا دمکتا روشن چہرہ کسے بھول سکتا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کے لیے پتہ نہیں کتنے ہی ڈونیشن ٹکٹ اس نسل نے بیچے جو اب ووٹر بنی بیٹھی ہے۔ خوشی خوشی آج بھی یہ کام ہر کوئی کرے گا۔ نمل یونیورسٹی بلا شک و شبہ ایک میگا پراجیکٹ ہے اور اسے کامیابی سے چلتے دیکھ کر دل جھومتا ہے۔ لیکن، سیاسی حرکیات ان سب سے بالا ہوتی ہیں۔ اس میدان میں کودنے سے پہلے وہ تیاری ضروری ہے جو اٹھارہ بیس سال کی یہ جماعت اب تک نہیں کر پائی۔ جب یہ سب نہیں ہوتا تو دھرنوں، امپائروں اور ایسی دوسری چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں باوجود ہر جھگڑے کے، یہ طے کر چکی ہیں کہ غیر سیاسی عنصر کی آمد ان کے لیے ہمیشہ نقصان دہ ہو گی۔ یہ نکتہ تحریک انصاف جس دن سمجھ گئی وہ دن یوم تاسیس ہو گا۔

ملکی قرضوں کی ادائی اور ان کے نتیجے میں دیوالیہ ہونے کی بات ہوئی۔ یہ اقساط تو ہر منتخب یا غیر منتخب حکومت ادا کرنے پر مجبور ہوتی ہے، وہ نہیں کرے گی تو ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا۔ صرف پانامہ فیصلے کے بعد سٹاک مارکیٹ ایک ہزار پوائنٹس کی برتری پر تھی، سیدھی بات ہے سرمایہ دار بہرحال محفوظ جگہ پر پیسہ لگانا چاہتا ہے، ملک ڈیفالٹ کر بیٹھنے کی صورت میں ہونے والے نقصانوں کا اندازہ کوئی لگا سکتا ہے؟ ایسے بیانات تھوڑی سی کیلکولیشن مانگتے ہیں!

عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف بات کرنا اور پھر وہیں پیٹیشن دائر کرنا، دوبارہ ریویو پیٹیشن کرانا، الیکشن کمیشن پاکستان پر اعتراضات اٹھانا، شاطر، لومڑی، ڈاکو، اوئے وغیرہ جیسے غیر پارلیمانی لفظوں کا استعمال کرنا، یہ سب چیزیں وقتی طور پر ہیڈ لائنز میں آنے کا سبب بن سکتی ہیں لیکن تحریک انصاف کو یہ سمجھنا ہو گا کہ دھرنوں یا فیس بک کی سیاست اور عملی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مشال کیس میں سنجیدگی سے بات کرنے پر ساری قوم نے عمران خان کی تعریف کی، خیبر پولیس ان کی ہدایات کی روشنی میں تندہی سے کام کر رہی ہے یہ بھی نظر آتا ہے لیکن یہ ساری کوششیں اگر الیکشن والے دن مل کر ایک اچھا رزلٹ بنا سکیں تو ہی بات بنے گی۔ اب بھی وقت ہاتھ میں ہے۔ خود بے شک خان صاحب جلسے جلوس کرتے رہیں لیکن اپنے زیرنگرانی سینیر اور قابل سیاست دانوں کی ایسی ٹیم ضرور بنا دیں جو پاکستان بھر میں متحرک ہو کر اندازہ لگائے کہ ووٹر کہاں کہاں واقع ہیں، ان کے مسئلے فی الحقیقت کیا ہیں اور الیکشن کے دنوں میں انہیں حرکت میں لانا کس طرح ممکن ہو گا۔

 (بشکریہ روز نامہ دنیا)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain