لبرل طالبان – برداشت کی جدلیات اور آن لائن صحافت (1)


بھائی عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز سے لیکر مزاح تک تمام کچھ لکھتے رہتے ہیں تاہم بعض نادان اور حق ناشناس قاری اس مخمصے میں پھنس جاتے ہیں کہ وہ کب کیا لکھ رہے ہیں۔ چنانچہ چند ہفتے پہلے ان کا ایک مضمون بعنوان ” سوشل میڈیا میں لبرلوں کو اسلامسٹوں پر برتری کیوں حاصل ہے؟ ” دیکھنے میں آیا جس میں انہوں نے ” ہم سب ” ویب سائٹ کے ناظرین کی تعداد اور عمر کی شماریات کا تجزیہ کرتے ہوئے ناصرف یہ ثابت کردیا کہ سوشل میڈیا پر لبرلز کو ناظرین کی دستیابی میں سبقت حاصل ہے بلکہ بعض لبرل اقدار اور ان کی عملی تاثیر ہی ایسی ہے کہ قوم کی کثیر آبادی بالخصوص جوانوں کا لبرلزم کی طرف مائل ہونا ایک بدیہی امر ہے۔ ہمارا موضوع اس وقت براہ راست یہ تو نہیں کہ شماریاتی تجزیہ جات کا جادو کیا ہے اور کس منتر سے کبوتر تو کس سے سانپ نکلتا ہے بلکہ ہمارا مسئلہ اس وقت وہ ہنگامہ ہے جو گذشتہ تین چار روز سے ایک خاص ملاقات اور اس کے مابعد کے اظہار کے طور پر سامنے آیا ہے۔

کاکڑ صاحب نے اپنے حالیہ مضمون میں لبرل طالبان کی اصطلاح متعارف کراتے ہوئے روشن خیال طالبان کو مذہبی طالبان کا جڑواں ثابت کیا تو ہمیں ان کا پرانا مضمون یاد آ گیا جہاں لبرل اقدار کی سرفرازی اور روایتی احوال کی پائمالی کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ اللہ ہی جانے کون بشر ہے تاہم تازہ مضمون کے مطابق اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک دکھائی گئی ہے اور ایک آن میں ہی وہ شماریاتی حقیقت نامہ ہچکولے کھانے لگا ہے۔ خدا شاہد ہے کہ ہم ان کے حالیہ مضمون سے قبل ہی لبرلزم اور اسلامسٹوں کے چند نظری و اصولی اشتراکات کا احاطہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے جو بوجوہ سپرد قلم نہ کیا جا سکا تھا کہ اسی دوران ہمیں کافر کرنے والے خود مسلمان ہو گئے۔ ہم اُس موضوع کو بھی کسی اور دن پہ اٹھائے رکھتے ہیں تاہم ان کی تازہ معجز نمائی پر چند اور خیالات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں۔

آن لائن صحافت کی عظیم حرکی قوت کا ظہور ابھی حال ہی کی بات ہے اور جہاں اس کے بے بہا فوائد ہیں وہیں کچھ ایسے سنجیدہ مسائل بھی جو اسے صحت مند صحافت سے اسی قدر دور کر دیتے ہیں جس قدر حالیہ امریکی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹر پالیسی سازی کا کسی بھی معقول پالیسی سازی سے فاصلہ ہے۔ مغربی میڈیا میں باقاعدہ اس موضوع کو برتا گیا کہ آخر کیسے ایک ہونے والا امریکی صدر ایک سو چالیس علامات کی بندش میں دنیا بھر کے لاکھوں افراد کے ساتھ ایک تفاعلی روبروئی کی حالت میں اہم ترین مسائل پر پالیسی بیان کا اعلان کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا اردو صحافت کے ساتھ بھی ایک سطح پر اس سے ملتے جلتے مسائل جڑے ہیں جن کا واضح اثر مولانا لدھیانوی ملاقات اور لبرل طالبان کے مضمون تک کے ہنگامے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آن لائن اردو صحافت نے مباحث ، معلومات اور موضوعات کا ایسا غبارہ ایجاد کیا ہے جو سانس کے زور کی مناسبت سے کسی بھی حد تک پھلایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا صحافت کے تمام اداروں کا ظہور ہمارے سامنے کی بات ہے اور یہ امر بھی کہ یہاں لکھنے والے اکثر حضرات پہلےسوشل میڈیا پر بس اپنے پروفائل پر پائے جاتے تھے اور بعد میں سوشل میڈیا صحافت کے مرکزی کردار بن کر سامنے آ گئے۔ میڈیا تھیوری کے بانیان میں شامل Marshall McLuhan کا مشہور مقولہ ہے کہ ‘’ Medium is the message’’ ۔ سوشل میڈیا صحافت پر اس کا اطلاق کئی مسائل کو واضح کرتا ہے کہ کیسے ایک بات محض اس وجہ سے بدل جاتی ہے کہ وہ ایک مخصوص میڈیم کے ذریعے ابلاغ کی جاتی ہے۔ مک لوہن کا خیال ہے کہ ہم اپنی بات کے ابلاغ کے لیے جو میڈیم منتخب کرتے ہیں وہ کم از کم ہماری بات جتنی قدر و اہمیت ضرور رکھتا ہے اگر اس سے زیادہ نہ بھی رکھتا ہو۔

سوشل میڈیا یعنی فیس بک اور ٹوئٹر براہ راست روبروئی کا میڈیم ہے جہاں کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک ہی شخص کے کئی اکاوئٹ ایک ہی وقت میں کئی لوگ بھی چلا سکتے ہیں وہیں ایک ہی شخص بیک وقت کئی مختلف اکاوئنٹ بھی چلاتا رہتا ہے۔ یہاں چہرے اور شخصیت کے درمیان تعلق کی نوعیت کچھ بھی ہو سکتی ہے اور اس تعلق کے جواز کی تفصیلات میں جانے کا وقت کسی کے پاس نہیں۔ کسی بھی موضوع پر ایک بات کیا ہوئی کہ بحث چھڑ گئی اور اس بحث میں کئی دھڑے خود بخود بن گئے کہ ہر بندے کو یہاں بات کرنا لازم ہے کیونکہ جو نہ خود بولتا ہے نہ کسی کا کہا پسند کرتا ہے اس کی یہاں موجودگی و عدم موجودگی برابر ہے۔ ایسے ماحول میں بحث سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ناصرف نظریاتی موقف کو جنم دے گی بلکہ اس کی کلیرٹی کا فریضہ بھی انجام دیتی رہے گی۔ فیس بک اور ٹوئٹر کا ماحول ”جو دم حاضر وہ دم زندہ” کے اصول پر قائم ہے جہاں بیشتر موضوعات ایک تھریڈ کی صورت چلتے ہیں اور فوراً جواب یا تبصرے کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ کوئی پوسٹ ہوئی اور اگر وہاں دھڑا دھڑ ہوتے تبصروں میں آپ وقت پر حاضر نہیں ہو سکے تو عین ممکن ہے کہ آپ کا موقف سامنے ہی نا آ سکے۔ ناظرین کی پسند اور شمولیت اپنی جگہ اہم ہے ہرچند ان کی قابلیت اور رائے کو پرکھ سکنے کی صلاحیت کا کوئی امتحان نہیں۔ شوپنہار کا قول ہے کہ جو شخص احمقوں کے لئے لکھتا ہے ہمیشہ سامعین کی کثیر تعداد پانے پر پریقین رہتا ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے کئی حضرات کی فالونگ میں ہزاروں کا اضافہ اور ان کا سوشل میڈیائی قد محض اس بنیاد پر بڑا ہوتا پایا کہ وہ کثیر تعداد میں موجود قارئین کی پسند کو سامنے رکھ کر لکھنے کی عادت اپنا گئے۔ سوشل میڈیا کا یہ پہلو ابلاغیات کی جدید تحقیقات کا بھی حصہ ہے کہ کیسے یہاں انفرادی رائے ‘ ورچوئل ریکگنیشن ” کے حصول پر مجبور ہوجاتی ہے اور اس سے اس کی صورت کیا سے کیا ہو جاتی ہے۔ اسی میڈیم میں ابتدائی فیس بک دوستیوں اور مباحث سے آہستہ آہستہ وہ ” نظریاتی حریف ” سامنے آئے جو آج لبرل یا اسلامسٹ ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیائی گروہ اپنی پیدائش کی سرزمین کے اثرات سے آزاد نہیں ہیں۔ جس طرح جدیدیت کے بعد قریباً ہر نظریہ حتیٰ کہ مذہب تک جدید کیٹاگریز کے ساتھ دیکھا جانے لگا اسی طرح سوشل میڈیا نے ان موجودہ نظریاتی گروہوں کی صورت گری میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور ‘ سوشل میڈیائی کیٹاگریز’ ان کی تمام تر فعالیت میں جاری و ساری ہیں۔

اس مضمون کا مقصد کسی بھی صاحب کا انفرادی تجزیہ نہیں ہے بلکہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ حالیہ دور میں سامنے آنے والے آن لائن ‘نظریاتی گروہوں’ کے ممبران کی انفرادی ترجیحات اور سوشل میڈیا کے ایک میڈیم کے طور پراپنی مخصوص ابلاغی حدود و حرکیات کے ملنے سے جو منظر نامہ پیدا ہوتا ہے اس کے تناظر میں جنم لینے والے صحافتی و نظریاتی آدرشوں میں کیا کیا تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اس سے ان آرا کی صحت علمی و افادہ عملی میں کیا فرق پڑتا ہے ؟ سوشل میڈیائی لبرلز اور اسلامسٹ دونوں اس غبارے کے اندر موجود ہیں جو سانس کے زور سے جتنا چاہے پھلایا جا سکتا ہے۔ یہ وہ سوشل میڈیائی مظاہر ہیں جن کی سماجی معروضیت قابل بحث امر ہے۔ مندرجہ بالا ماحول میں ہی یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ خالص علمی نوعیت کا نظریاتی موقف بلکہ بیانیہ نا صرف پیدا کیا جاتا ہے بلکہ اس کی تراش خراش بھی کی جا تی ہے۔ ہم دوبارہ کہیں گے کہ تخلیق اور ایجاد کے حوالے سے اس بیانیہ جاتی موقف گری اور پالیسی سازی کی کسی بھی سنجیدہ علمی و نظری کاروائی سے وہی نسبت ہے جو شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹر پالیسی سازی کی ہنری کیسنجر کی ڈپلومیسی سے ہو۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).