سلامتی کا گیت گانے کے لئے ملنے والی مہلت کے دوران لکھی یادداشت


 اس سڑک کا نام شاہراہِ پاکستان ہے۔ گلشن اقبال سے اس چوک کی طرف آتے ہوئے جو واٹر پمپ کہلاتا ہے، میں اُلٹے ہاتھ کی طرف مُڑ جاتا ہوں۔ یوسف پلازہ میرے پیچھے رہ گیا ہے اور میں فلیٹوں کی قطار کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک گلی کے اندر داخل ہو جاتا ہوں جہاں اس عمارت میں داخلے کا راستہ ہے جس کا سامنے کا حصہ سڑک کے رخ پر ہے۔ دور سے یہ عمارت بھی مستطیل، چوکور گھروں کا مجموعہ نظر آتی ہے جس کی تیسری منزل پر اسد بھائی رہتے ہیں۔ ہم سب اسد محمد خان کو محبّت اور عقیدت کے ساتھ اسد بھائی کہتے ہیں اور انھوں نے اپنے فلیٹ کے نمبر کو اس طرح لکھ دیا ہے جیسے ’’سیفوریٹن‘‘ کوئی بین الاقوامی ادارہ ہو۔ یہ 1982ء ہے اور اپنے الفاظ میں ’’بڑے انکسار اور کمال رعونت‘‘ کے ساتھ اپنی نظموں، کہانیوں کا مجموعہ خود چھاپ کر اسی گھر سے شائع کررہے ہیں۔ میں بہت باقاعدگی سے ان کے گھر جاتا رہتا ہوں اور وہ کمال مہربانی سے اس کتاب کی تیاری کے مرحلے اپنے مخصوص سحرانگیز طرز گفتگو میں بتاتے رہتے ہیں۔ اگست 1982ء کی ایک شام ’’کھڑکی بھر آسمان‘‘ کا نسخہ دستخط کرکے وہ میرے حوالے کرتے ہیں۔ زیادہ تر نظمیں اور کہانیاں ان کی زبانی سُن چکا ہوں مگر ایک نظم پر اٹک جاتا ہوں جس کا نام ہے ’’سلامتی کا گیت‘‘۔ مجھے اب بھی وہ نظم اسد بھائی کی کھنکتی ہوئی آواز سے سنائی دیتی ہے۔

میں کہتا ہوں سلامتی، اور کورس بھی دہراتا ہے__ سلامتی سلامتی سلامتی۔ اس کے بعد آواز آتی ہے۔ لِنچ مین کا کام ہی لِنچ کرنا ہے۔ کورس بھی یہی دہراتا ہے۔

لنچ__ اس لفظ پر میں اس وقت بھی اٹکا تھا۔ (مجھے یاد ہے اسد بھائی نے بتایا تھا کہ انھوں نے احتیاط کے ساتھ کاتب سے ل کے نیچے زیر لگوایا تھا کہ قتل کا ارادہ دوپہر کے کھانے میں تبدیل نہ ہو جائے!)

لیکن اسد بھائی کی پڑھنت کا انداز ایسا تھا کہ جیسے میں، وہ صوفہ، وہ کمرہ، وہ محلہ، پورا علاقہ بہتا چلا جارہا ہے لفظوں کی روانی کے ساتھ۔

’’یا وہ یوں کرتے

کہ کسی ایک درخت کی افقی شاخ پر

میرے ہی کمر بند سے پھانسی کا پھندا ڈالتے

اور مجھے لٹکا دیتے

یا

مجھے آرے سے چیر دیتے

یا

کسی ستون سے باندھ کر جلا دیتے

یا

میری کھال اتار کر مجھ پر نمک چھڑکتے

تو یہ سب ہی باتیں سمجھ میں آنے والی تھیں۔۔۔‘‘

پھر کورس دہراتا ہے کہ وہ کون تھے اور ان کا کام ہی ایسا کرنا تھا۔

لِنچ مین __ مَیں نے اسٹیج کی سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔ اس کے لیے کوئی اور لفظ ہوسکتا ہے؟ اس کا کوئی اردو مترادف؟ پھر خود ہی جواب دیا، ہمارے ہاں لِنچ مین ہوتے ہیں نہ یہ کام تو اس کے لیے لفظ کہاں سے آئے گا؟ نظم کا پڑھنا ختم کر کے اسد بھائی مسکرانے لگے تو مجھے خیال آیا کہ اگر کبھی ضرورت پڑی تو اسد بھائی سے پوچھ لیں گے۔

پھر مسکرانے کے پیچھے ہمارا یہ اطمینان بھی تو تھا کہ کون سا یہ صورت حال یہاں ہو گی، اور اس کے لیے لفظ بھلا کیوں تلاش کرنا پڑے گا۔

اس نظم کے آخر میں بھی تو انتہائی سزا یہی ہے__ لِنچ مین نے ہمیں زندہ رکھا۔ اب ہم ہچکیاں لے لے کر سلامتی کا گیت گا رہے ہیں اور اپنی سلامتی کی معیاد تک یہی گیت گاتے رہیں گے۔

یہ نظم اور ایک کہانی مجھے بے طرح یاد آئے۔ اس بار اسلام آباد میں ایک خاصے طویل عرصے کے بعد خالدہ حسین سے ملاقات ہوئی، جو میری انتہائی پسندیدہ لکھنے والی ہیں۔ میں بہت خوشی کے عالم میں ان سے باتیں کررہا تھا مگر میرا دھیان کسی اور جانب بھی تھا__ مردان یونیورسٹی کی سڑکوں پر دوڑتا ہوا ہجوم جو لِنچ مین میں تبدیل ہوچکا تھا اور ان کا ہدف جسے بالآخر انھوں نے آلیا اور اس پر پل پڑے۔ خالدہ حسین سے باتیں کرتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ انھوں نے امریکی مصنّفہ شرلی جیکسن کے افسانے ’’لاٹری‘‘ کا ترجمہ کرکے مجھے بھیجا تھا اور میں نے بڑے افتخار کے ساتھ ’’دنیا زاد‘‘ میں شامل کیا تھا۔ پھر اس منظر میں سے برآمد ہو کر وہ کہانی ہماری گفتگو میں شامل ہوگئی__ کیا ہم اس کے باہر زندہ تھے اور سلامتی کا گیت گا رہے تھے؟

امریکا کے ایک چھوٹے شہر کی رسوم ایک خون آشام قدیم رچوئل Ritual میں ڈھل جاتی ہیں۔ مجھے اس وقت بھی یہ خیال آیا تھا کہ اپنے آپ میں مکمل یہ افسانہ حیرت کا کسی قدر سامان سمیٹے ہوئے ہے۔ لیکن کیا یہ کہانی اپنے علاوہ کچھ اور بھی ہمیں بتا رہی ہے، کسی گمبھیر سچ کی جانب اشارہ کررہی ہے۔ شرلی جیکسن سے خود اس کہانی کے ’’اصل مطلب‘‘ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے وہی جواب دیا جو ان کو دینا چاہیے تھا۔ یہ محض ایک کہانی ہے جو میں نے لکھ دی ہے انھوں نے کہا۔

اس کہانی کا یہ اردو ترجمہ بھی اپنی جگہ ترشا ترشایا ہے۔ میرے لیے پہلی بات یہ تھی کہ ’’لاٹری‘‘ کا ترجمہ ’’سواری‘‘ کی مصنّفہ نے کیا ہے۔ خالدہ حسین سے میں نے ان کہانی کا اصل مطلب تو کبھی دریافت نہیں کیا لیکن یہ ضرور پوچھا کہ کیا ان کو اس کہانی کی دور رس معنویت اور ہمہ گیری کا اندازہ تھا۔ ’’میں نے اس کہانی کو جس طرح سوچا تھا، اسی طرح لکھ دیا۔۔۔‘‘ انھوں نے بہت متانت سے جواب دیا۔ ’’یہ ساری تفصیلات بہت دنوں سے میرے ذہن میں تھیں۔ جس طرح سوچا تھا، اسی طرح لکھ دیا۔۔۔‘‘

جو کچھ دیکھا تھا، اس سے زیادہ خوف ناک وہ جملے ہیں جو ’’سواری‘‘ کے آخر میں گونجتے ہیں۔ ’’اب تم دیکھو گے، اب تم دیکھو گے۔۔۔۔‘‘ گویا فیصلہ سنایا جارہا ہے، سزا دی جارہی ہے۔ ہم جو ابھی تک زندہ رہ گئے ہیں اور سلامتی کے گیت گائے جارہے ہیں۔

شرلی جیکسن کے افسانے کی پیچھے تلخ حقیقت کارفرما تھی کہ معاشرہ ’’قربانی کے بکرے‘‘ کی تلاش میں رہتا ہے__ لنچ مین کی طرح scape goat کے لیے میں کون سا لفظ استعمال کروں؟ لوگ بہت جلد یقین کر لیتے ہیں کہ تمام برائیوں کا الزام کسی ایک شخص کے سر تھوپا جا سکتا ہے، پھر اس شخص کو موت کے گھاٹ اتارنے سے یہ برائیاں رُخصت ہو جائیں گی۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ موت کی مرحلہ وار شرائط کا سرد مہر بیان افسانے میں جس قدر کمال سے آیا ہے، وہ ’’ہجوم کی نفسیات‘‘ کو بھی نمایاں کر دیتا ہے کہ بظاہر بہت معقول اور سیدھے نظر آنے والے لوگ ہجوم کا حصّہ بن کر خونی درندوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعہ کسی بھی جگہ پیش آسکتا ہے۔ امریکی قصبے میں بھی اور ہمارے ملک کی ایک علمی درس گاہ میں بھی۔ لوگوں کو ہجوم میں تبدیل ہوتے ذرا دیر نہیں لگتی اور پھر ان کے عمل کی انتہا ایک ہی ہے__ خون کی پیاس۔

امریکی ادب کی تاریخ میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ یہ مختصر سی کہانی 1948ء میں شائع ہوئی تو طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ لوگوں نے رسالے کے نام خطوں کا ایک انبار لگا دیا۔ ان میں مصنّفہ کی ماں بھی تھی جس نے اپنی بیٹی سے غم و غصّے کا اظہار کیا کہ ہماری بستی کے خدوخال کیوں استعمال کیے۔ شرلی جیکسن نے ایک مضمون میں یہ بھی لکھا کہ اعتراض اور احتجاج کرنے والوں کے علاوہ ان لوگوں کے خطوط بھی اس انبار میں شامل تھے جو یہ معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ لاٹری کا یہ خونی عمل کس شہر میں دہرایا جاتا ہے اور کیا وہ وہاں جاکر یہ عمل دیکھ سکتے ہیں؟ یعنی افسوس اس عمل پر نہیں بلکہ اس میں اپنی شرکت سے محرومی پر ہے۔

پاکستان کے لوگوں کو کوئی سوال پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ گلی گلی اب یہ تماشہ رچا سکتے ہیں۔ بلکہ اس انتظار کی ضرورت بھی نہیں کہ کوئی آئے، رسم کی شرائط پوری کرے، وہ پیچیدہ سلسلہ دہرایا جائے، اب ساری شرطیں پوری ہیں۔ پلک جھپکتے میں ہم تماشہ برپا کر سکتے ہیں اور ہجوم جس پر چاہے پل پڑے۔ آپ دیکھے جائیے کھال کھینچنے کے فن میں ہم کس قدر طاق ہیں باطل سے دینے والے اے آسماں نہیں ہم / سو بار کر چکا ہے تو امتحان ہمارا۔

قرعے میں اب کی بار مشال خان کا نام نکل آیا۔ افسوس سے ہاتھ نہ ملیے۔ اگلی باری ہماری ہے۔ آواز آرہی ہے، اب تم دیکھو گے، اب تمھاری باری ہے۔

اگلی باری تک ہم سلامتی کے گیت گا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments