میں نے ہم سب پر لکھنا کیوں پسند کیا؟


میں ایک عام قاری اور لکھاری ہوں۔ ’ہم سب‘ پر جب تک میری تحریر شایع نہیں ہوئی تھی۔ میں اس وقت بھی ’ہم سب‘ کی تحریریں ذوق و شوق سے پڑھتا تھا اور دل میں ارمان لیے پھرتا تھا کہ ہم سب پر میری بھی تحریر شایع ہو۔ ’ہم سب‘ پر ہی لکھنے کی کیوں خواہش تھی؟ و جہ اس کی صرف یہ ہے کہ ’ہم سب‘ پر ہر لکھاری اپنا موقف بلا کم و کاست تحریر کرسکتا ہے اور ادارتی پالیسی کے تحت اس کو شایع بھی کردیا جاتا ہے۔ میں نے کافی تحریریں بھیجیں لیکن شایع نہ ہوسکیں۔ محترم عدنان خان کاکڑ صاحب سے رابطہ کیا اور ہم سب پر تحریر شایع نہ ہونے کا شکوہ کیا۔ انہوں نے نے نہایت تحمل سے ناچیز کے گلے و شکوے سنے اور ’ہم سب‘ پر تحریر کی اشاعت کے تقاضوں سے آگاہ کیا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہی لگی کہ نوآموز لکھاریوں کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور وقت و بے وقت تنگ کرنے پر بھی تنگ نہیں ہوتے بلکہ رہنمائی فرماتے ہیں۔ محترم عدنان خان کاکڑ صاحب سنجیدہ طنز لکھتے ہیں لیکن ان کے یہ طنز مہلک نہیں ہوتے بلکہ گدگداتے ہیں یا یوں کہہ لیں میٹھی چبھن پیدا کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں مولانا محمداحمد لدھیانوی کے ساتھ نشست کی روداد اور ان کا نقطہ نظر شایع ہوا تو ایک عام قاری کی طرح میں نے بھی اس کو پڑھااور ان کے تازہ موقف کو جان کر حیرت بھی ہوئی کہ بے شمار انسانی جانوں سے کھیلنے کے بعد راہ راست پر آنے کی نوید سنا رہے ہیں۔ ذہن میں مولانا کے متعلق تو بے شمار سوال ابھرے لیکن ہم سب کی ادارتی پالیسی کے حوالے سے کوئی سوال نہیں ابھرا۔ صحافی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ کسی بھی مکتب فکر کے رہنما سے ملاقات کرے اس کا موقف پیش کرے اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دے۔ صحافی کی ذمہ داری یہیں تک ہے۔ امید ہے کہ ’ہم سب‘ پر ہر مکتب فکر کی شخصیات کے بارے میں پڑھنے کو ملتا رہے گا۔

ادارتی ٹیم کا کوئی بھی رکن یا عام قاری کسی بھی تحریر سے اختلاف، حمایت یا تائید کا حق رکھتا ہے۔ اس اختلاف، حمایت یا تائید پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنا مکالمہ کہلاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مکالمہ کی روایت کیونکہ مستحکم نہیں ہے اس وجہ سے دوران مکالمہ پڑھے لکھے افراد بھی اختلاف کی صورت میں انتہا پسندی کا رویہ اپنا لیتے ہیں اور دوران مکالمہ غیر جانبدار شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ شاید ان افراد میں کوئی ذاتی رنجش ہے۔ انتہا پسندی کسی بھی طبقے یا مکتب فکر میں ہو، معاشرے میں انتشار پیدا کرتی ہے۔ اختلاف کی صورت میں کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کسی بندے کی ذات سے نفرت کا تاثر نہ ابھرے بلکہ یہ محسوس ہو کہ ہم آپ کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھتے ہیں، آپ کی ذات سے نہیں۔

مولانا کے انٹرویو کی مخالفت میں بھی تحریریں شایع ہوئی ہیں۔ اگر یہ تحریریں بھی انتہا پسند جذبات لیے ہوئے ہوں تو کسی بھی مکتب فکر کی شخصیت کو انتہا پسند کہنے کا حق، ہم خود کھو بیٹھیں گے۔ اختلاف کیجیے، اپنا نقطہ نظر پیش کیجیے، اپنے موقف کومنوانے کی کوشش کیجیے کہ یہ آپ کا بنیادی حق ہے۔ لیکن اپنے خیالات کسی پر ٹھونسنا بھی انتہا پسندی کہلائے گا۔ ادارتی ٹیم کا کوئی رکن ہو یا لکھاری و قاری سب اپنا نقطہ نظر پیش کریں لیکن خدارا خود پر انتہا پسند ہونے کی تہمت نہ لگوائیں۔ میں نے ’ہم سب‘ پر لکھنا اسی لیے پسند کیا کہ یہاں سب کے نقطہ نظر کا احترام کیے جانے کی ریت ہے۔ اس ریت کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ دعا ہے کہ ’ہم سب‘ کی ترقی کا یہ سفر ہموار خطوط پر آگے کی طرف بڑھتا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).