انور مسعود کی نظم، شان(دار) بریانی اور اچھی چینی ہمسائی۔۔۔


انور مسعود صاحب کی  شہرہ آفاق نظم ‘اج کیہ پکائیے’ سے کون واقف نہیں. تمام مرد و زن، بچوں بڑوں، جوان بوڑھوں میں یکساں مقبول. اور کیوں نہ ہو اس میں ایک بہت اہم قومی نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے. وہ مسئلہ جس نے ملک کی نصف سے زائد آبادی کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے. ایسا عفریت جس نے اسی نصف جہاں کو کسی اور کام جوگا نہیں رہنے دیا.

لیکن اب نہیں… بدل گئی پورے ملک کی تقدیر. دودھ بازار سے لینے کی بجائے اب نہروں سے پینے کی مشق شروع کر دیجئے. شہد کے لئے بھی زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا. اوور فلو کیا کرے گا دودھ اور شہد… جی ہاں. تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ چکی ہے. جی آپ کا اشارہ بالکل صحیح ہے. خدا ہمارے چینی نا خداؤں کا اقبال بلند کرے جنہوں نے ہم جیسے گنہگاروں کو CPEC سے نوازا.

بھاگ لگے رہن!

‘اج کیہ پکائیے ‘ کے مسئلے کو کہئے ٹا ٹا اور بائے بائے. دودھ اور شہد کی نہروں کے علاوہ اب ہمیں چینی ہمسائے بھی فراوانی سے ملیں گے. بھئی یہ اس پڑوس والی خالہ رقیہ اور ہمسایوں کے پتنگ باز لونڈے شکور سے تو جان چھٹی. گورے چٹے، چھوٹی آنکھوں اور چپٹی ناکوں والے چینی گڑیا گڈے ہوں گے ہمارے ہمسایے ماں جائے، کھانا تو اب ہوم ڈیلیورہوا کرے گا، جی چاؤ ماؤ نہیں بلکہ بریانی اور قورمے. ہمارا یقین تو آپ کیوں کرنے لگے شان مصالحے کا اشتہار ہی مان  لیجئے، ہمارے تاباں مستقبل کا  آئینہ دار. مرشد، ہن  اوہ گلاں نئیں رہنیاں.

 ماشااللہ اشتہار کیا ہے، جذبات کا امڈا سیلاب ہے. اسی سے شان مصالحے کا پچھلی عید والا اشتہار بھی یاد آ گیا جس میں ایک بھی نے دوسرے کے لئے بریانی بنی تھی. تف، بریانی کے علاوہ کسی پیکٹ کو لفٹ کیوں نہیں کرائی جاتی؟ واللہ اعلم … خیر اس شاہکار کی طرف واپس آتے ہیں. ایک چینی شہر اپنی بیوی سے (جو ناشتے میں ایک بد ہیئت سا سوپ پینے میں مگن ہے… جی جس طرح پاکستانی صرف بریانی کھاتے ہیں، چینی صرف سوپ پیتے ہیں) کہتا ہے ‘بیگم تمہیں نئے دوست بنانے چاہئیں .’ بیگم اپنی شیشے جیسی آنکھوں میں نادیدہ  آنسو بھر کر کہتی ہیں ‘ہمارے تو کھانے  بھی ایک جیسے نہیں.’  یانی بھولیئے مجھیں توں کیہ جانیں… ایک دم سے انہی اداس آنکھوں میں ایک چمک بیدار ہوتی ہے اور خاتوں سوچتی ہیں کہ کیوں نہ سپر مارکیٹ کا دورہ کیا جائے اور ہمسایوں کو بریانی بنا کر گھیرا جائے. انہیں کیسے معلوم ہوا کہ ہم قیمے والے نان اور بریانی  کے پیچھے تو ووٹ جیسا قیمتی چیز بھی کسی کے حوالے  کر دیتے ہیں. اسمارٹ گرل۔۔۔

یہ کہانی ہے لاہور شہر کی. ہر جگہ کا راستہ بادشاہی مسجد ہی سے تو ہو کر گزرتا ہے. نہر کی حیثیت رکھتی ہے یہ، کم از کم اس اشتہار میں. گاڑی  راوی کے پل کی جانب گامزن ہے سپر مارکیٹ کی تلاش میں.  یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے جانے کے بعد لاہور کے نقشے میں کوئی تبدیلی آ گئی ہو. پس منظر میں مسمات میشا شفیع بھی کوئی راگ الاپ رہی ہیں اور وہ بھی بڑے ہی ڈائریکٹ انداز میں. سیدھی بات، نو بکواس سٹائل. خیر بی بی شان بریانی  مصالحے کا پیکٹ اٹھاتی ہیں اور دکاندار ، جس کو غالبا یہ امید تھی کہ آسکر تو اسی پرفارمنس سے ملے گا)  یوں انگشت بدنداں رہ جا نے کی ایکٹنگ کرتا ہے جیسے ان کے ہاتھ میں مصالحے کا پیکٹ نہیں بلکہ ایٹم بم کا نسخہ ہو. یہی خاتون گھر واپس آ کر ایسی شاندار بریانی بناتی ہیں جو پورے لاہور کو شرمانے کے لئے کافی ہے.

ٹرے قرینے سے سجا کے اور دوپٹہ  سلیقے سے جما کر رخ کرتی ہیں ان ہمسائیوں کا جن کے گھر پر ان کی پہلے ہی نظر تھی. پاکستان سے اس قدر محبت ہے کہ سڑک  پر کرکٹ کھیلتے بچوں کی گیند کا بھی کوئی ڈر نہیں. الٹا ستر کی دہائی میں بننے والی پاکستانی فلموں کی ہیروئن طرح مسکراتی ہیں اور اپنی منزل کی جانب گامزن ہو جاتی ہیں.  ان کو یہ نہیں پتہ کہ ہمارے ہاں کی اڑتی گیندیں تو کھڑکیاں توڑ دیتی ہیں یہ تو پھر ایک نازک سی ٹرے ہے. لگ گئی نہ بریانی رہے گی نہ دوستی. لگ پتہ جاتا بچو!

خیر ان کی چینی زبان میں سلام سنتے ہی ہمسائیوں کے گھر کی پہلی خاتون ان کو سر تا پا ایک لالی پاپ کی طرح دیکھتی ہیں اور پھر بریانی چکھتی ہیں. اگر بریانی میں ذرا سی اونچ نیچ ہی تو گھر نہ گھسنے دیں گی. لیکن ہماری گنہگار آنکھیں خدا کا کیا معجزہ دیکھتی ہیں کہ بریانی کھاتے ہی یہ حال سے بے حال ہو جاتی ہیں اور دروازے پر ہی صائمہ، امی، دادی وغیرہ وغیرہ کو  دیوانہ وار آوازیں دینے لگتی ہیں.  کہ خدا نے ہمارے گھر چینی فرشتہ بھیجا ہے بریانی دے کر. آؤ  بھئی آؤ .

وہ سب بھی شاید تیار بیٹھی تھیں. جھٹ شہد پر مکھیوں کی طرح آئیں کہ عید کا دن تو آج ہی ہے. کھانا پکانے سے تو جان چھٹی. معلوم  کہ سب ہی CPEC  اوہ معاف  کیجئے گا بریانی کے انتظار میں تھے. مہمان سے سلام دعا کی کیسی فکر، سب لپکے چیتے کی طرح بریانی کی منی دیگ پر جیسے دیر  ہو گئی تو ملنا مشکل ہے. ویسے کیا خبر ملے بھی نہ.

بریانی کھاتے ہی اس حیران پریشان چینی دوشیزہ  کی وہ آؤ بھگت کی جاتی کی کہ پوچھیے ہی مت. دو دو گلاسوں میں بیک وقت پانی پلایا جاتا ہے. کسی کے ذہن میں ایک لمحے کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ اس بریانی میں گوشت مرغے کا ہے یا ۔۔۔۔ کا؟ چلو کوئی بات نہیں.  دادی جان ہاتھ چوم لیتی ہیں. اب پتہ نہیں زبردستی کے پانی کا  اعجاز ہے یا اس خاندان کے ندیدے پن کا ، محترمہ کی آنکھیں ٹپ ٹپ برسنے لگتی ہیں. دادی حضور پنجابی زبان میں جو دلاسہ دیتی ہیں وہ ان خاتون کو فوراً سمجھ آ جاتا ہے اور یہ اپنے آنسو پونچھ لیتی ہیں. جی، بریانی نے دل کے راستوں کے علاوہ زبان کے فاصلے بھی مٹا دئے . کچھ بعید نہیں کہ ہماری چینی دوست اگلے اشتہار میں چٹا ککڑ بنیرے تے گاتی نظر آئیں .

ایک اجتماعی سیلفی پر اس دل ہلا دینے والے اشتہار کا خاتمہ ہوتا ہے. خدا کا شکر ہے محبت کا یہ دریا کسی کوزے میں تو بند ہوا.

ہم حکومت چین  کے بے حد شکرگزار  ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنا کچرا ہمیں سستے داموں بیچا بلکہ ہمارے دل میں بھی یوں گھر کر لیا جیسے کارنر پلاٹ انہی کی ملکیت ہو. یہ احسان ہم کبھی بھلا نہ پائیں گے. آتے جاتے رہیے گا. بلکہ جانا کہاں ہے،  اپنی ایسٹ انڈیا کمپنی سمیت یہیں رہئے گا۔

اور ہاں جی، اب کسی پاکستانی خاتون خانہ کو کھانا پکانے کی فکر کی ضرورت نہیں. اپنے چینی ہمسائے روز بریانی بنا کر بھیجیں گے نا. لہذا مودبانہ گزارش ہے کہ نظم کا عنوان ‘اج کیہ پکائیے ‘ سے ‘اج کیہ کھائیے ‘کر لیا جائے. شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).