عمران خان کا دعویٰ سیاسی ماحول خراب کرے گا


پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت پر دباؤ بڑھانے اور وزیراعظم نواز شریف کو بدترین بدعنوان باور کروانے کے لئے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں پاناما کیس سے دستبردار ہونے کے لئے دس ارب روپے دینے کی پیش کش کی گئی تھی۔ پشاور میں پارٹی کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر نواز شریف صرف ایک آدمی کو خاموش کروانے کے لئے اتنی بڑی رقم دے سکتا ہے تو وہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں شامل افسروں کو خریدنے کے لئے کیا نہیں کرسکتا‘۔ عمران خان کے اس دعویٰ کی کسی طرح بھی تصدیق ممکن نہیں ہے۔ اور یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ حکومت یا نواز شریف نے انہیں یہ پیشکش کب کی تھی۔ تاہم ان کے بیان سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ انہیں یہ مفروضہ پیشکش پاناما کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے کی گئی۔ اس قسم کی الزام تراشی سے ملک کا پہلے سے کشیدہ ماحول خراب ہوگا اور الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ میں اپنی بیرون ملک دولت کے ذرائع ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اسی لئے دو ججوں نے انہیں جھوٹا کہتے ہوئے نااہل قراردینے کا فیصلہ دیا ہے جبکہ تین ججوں نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے معاملہ کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ عدالت تمام حقائق کی روشنی میں حتمی فیصلہ کرسکے۔ اکثریتی فیصلہ کرنے والے تین جج بھی اس شبہ کا شکار ہیں کہ شریف خاندان کے پاس بیرون ملک وسائل کہاں سے آئے تھے اور وہ کیسے برطانیہ پہنچے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ عمران خان یا ان کے ساتھی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے والے شیخ رشید اور جماعت اسلامی اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف فیصلہ کی بنیادی وجہ ان کے بیانات میں پایا جانے والا تضاد اور وسائل کی منتقلی کے حوالے سے مناسب شواہد کی عدم موجودگی ہے۔ خاص طور سے جس طرح ایک قطری شہزادے کا خط پیش کرکے عدالت میں ڈرامہ رچانے کی کوشش کی گئی، اس نے عدالت کے بعض ججوں کو شبہ میں مبتلا کیا ۔ تاہم مدعی کے طور پر عمران خان کا سارا انحصار پاناما پیپرزمیں شائع ہونے والی معلومات پر تھا۔ وہ ان الزامات کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس ثبوت عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

نواز شریف کو پاناما کیس کے ذریعے نااہل قرار دینے کی خواہش رکھنے والے سارے سیاسی لیڈر نعرے بازی، الزام تراشی اور سیاسی ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاتے رہے ہیں۔ وہ عدالت میں مقدمہ لے جانے کے باوجود کوئی واضح شواہد اور ثبوت سامنے لانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ان کا سارا زور اس بات پر تھا کہ سیاسی اور عوامی دباؤ کے ذریعے سپریم کورٹ کو اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اب جبکہ عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کو اپنی حکمت عملی کے ذریعے من چاہا فیصلہ کرنے پر ’مجبور‘ کرچکے ہیں تو ان کا خیال ہے کہ اب اس دباؤ کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی میں شامل ہونے والے ارکان کو بھی ایسی رپورٹ تیار کرنے پر مجبور کیا جا سکے جو سپریم کورٹ کو نوازشریف کو ناہل قرار دینے پر مجبور کردے۔

اس حکمت عملی کا مقصد اس ملک میں نظام کی تبدیلی، بد عنوانی کا خاتمہ یا عدل و انصاف کا بول بالا نہیں بلکہ کسی بھی طریقہ سے نوازشریف کو اقتدار سے محروم کرکے آئندہ انتخابات میں ان کی پوزیشن کمزور کرنا ہے ۔ تاکہ تحریک انصاف خود اقتدار میں آسکے۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے منشور پر عمل کروانے کے لئے اقتدار میں آنے کی خواہش کرنا اور اس کے لئے کوشش کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ جد و جہد مسلمہ سیاسی اخلاقیات کے اندر رہ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی کشمکش میں تمام بنیادی اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے گا تو عوام کا جمہوریت اور سیاسی لیڈروں پر اعتماد کمزور پڑتا جائے گا۔ اسی صورت حال کی وجہ سے ملک میں فوج کو قومی سیاست میں برتری حاصل رہی ہے۔

عمران خان خود اس صورت حال کا شکار رہے ہیں کہ سیاسی مخالفین تمام اخلاقی اقدار کو بھلا کران پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ لیکن ملکی سیاست میں بدزبانی اور جھوٹی الزام تراشی کے جس چلن کو عمران خان نے فروغ دیا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی رویہ کا نتیجہ ہے کہ اب وہ نواز شریف پر انہیں رشوت کی پیشکش کرنے کا الزام بھی عائد کررہے ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنے لیڈروں کی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور اس قسم کے الزامات افواہیں بن کر گشت کرنے لگتی ہیں۔ اس لئے عمران خان جیسے قومی لیڈر کو ایسا ’انکشاف‘ کرکے افواہ سازی کے لئے ماحول سازگار بنانے کی بجائے، ان کے پاس یہ پیشکش لے کر آنے والے افراد کے نام سامنے لانے چاہئیں تھے۔ بلکہ یہ ’راز‘ کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے فاش کرنے سے پہلے، اسی وقت پولیس اور میڈیا کو مطلع کرنا چاہئے تھا، جب یہ انہیں یہ پیشکش کی گئی تھی۔ اب بھی ان پر لازم ہے کہ وہ اس الزام کے حوالے سے شواہد سامنے لائیں تاکہ نواز شریف کا یہ خفیہ چہرہ سامنے آسکے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اسے سوائے جھوٹ اور بہتان کے کچھ نہیں سمجھا جائے گا۔

ملک کے وزیر اعظم کی طرف سے ایک سیاسی لیڈر کو خاموش کروانے کے لئے رشوت کی پیشکش سنگین اور خطرناک الزام ہے۔ اصولی طور پر حکومت کو اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے عمران خان کو عدالت میں طلب کرنا چاہئے تاکہ وہ ثابت کریں کہ انہیں یہ پیشکش کیسے اور کب ہوئی تھی یا وہ اپنے جھوٹ کی معافی مانگیں۔ لیکن پاکستان کے سیاست دان قانون اور اصول و ضوابط کو خاطر میں نہیں لاتے اور خود اپنے کسی عمل کے لئے کسی قانونی ادارے کے سامنے جوابدہی کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی بھی اس حوالے سے عدالتوں کے احکامات کی پرواہ نہیں کرتے۔ جب تک ملک میں قانون سب پر یکساں لاگو نہیں ہوگا اور چھوٹے بڑے، ہر جرم پر سزا نہیں دی جا سکے گی، اس وقت تک قانون کی حکمرانی کی باتیں عوام کو گمراہ کرنے کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali