مرید پور کا پیر اور بیلی پور کا اختلافی نوٹ


’پطرس کے مضامین‘ 1930 ءمیں شائع ہوئی۔ یہ کتاب جدید اردو مزاح کی بائبل سمجھی جاتی ہے۔ کیمبرج سے انگریزی ادب کی تعلیم پانے والے احمد شاہ بخاری نے جدید مغربی ادب کے اثرات کو ہمعصر ہندوستان میں کچھ ایسے سمویا کہ اردو پڑھنے والوں کی کایا کلپ ہو گئی۔ پطرس کے مضامین میں ’مریدپور کا پیر ‘غالباً واحد تحریر ہے جس میں سیاسی تبصرے کی جھلک ملتی ہے۔ ایک جملہ اس مضمون کا ضرب المثل قرار پایا۔ کانگرس اور خلافت تحریک کے غلغلے کی تصویر کھینچنا تھی۔ بخاری صاحب نے لکھا ۔ ’کچھ عرصے بعد خون کی خرابی کی وجہ سے ملک میں جابجا جلسے نکل آئے جس کسی کو ایک میز، ایک کرسی اور گلدان میسر آیا اسی نے جلسے کا اعلان کردیا۔‘ ان خود ساختہ سیاسی رہنماﺅں کو پطرس بخاری نے مریدپور کے پیر کا استعارہ دیا تھا۔ آج بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں ۔ صرف یہ معلوم کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ مریدپور کا حقیقی پیر کون ہے؟ اب ہمارے ہاں انکسار کا چلن نہیں کہ بخاری صاحب کی طرح صیغہ متکلم میں اپنا ہی پھلکا اڑایا جائے۔ خدا کے خاص فضل و کرم سے ہم سب مالیاتی امور کے ماہر ہو چکے ہیں۔ ہمارا قانون کا علم اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ ہم نرے وکیل نہیں ، باقاعدہ قانون دان بن چکے ہیں۔ تعجب ہے کہ کاروباری سوجھ بوجھ ہماری اس قدر گہری تھی لیکن ملک کی معیشت نے کبھی آنکھ کھول کر نہیں دیکھا۔ انصاف کی تڑپ ہم میں ایسی ہے کہ درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانہ دل کا۔ تو بھائی لاہور کا و ہ نیم مجنون شخص کون تھا جو سڑکوں پر آوازہ بلند کیا کرتا تھا کہ ’ہائیکورٹ دے چھبی جلے، پر انصاف کتے نہیں ‘(ہائیکورٹ کے 26 اضلاع ہیں لیکن انصاف کہیں نہیں)۔واضح رہے کہ اب پنجاب کے اضلاع کی تعداد 36 ہو چکی ہے اور انصاف تک رسائی کا یہ عالم ہے کہ جسے اخبار میں اپنی تصویر اور ٹیلی ویژن پر رونمائی درکار ہو، وہ شاہراہ آئین کا راستہ پکڑتا ہے اور عدالت عظمیٰ تک جا پہنچتا ہے۔

اختیارات کی تقسیم جدید ریاست کا بنیادی اصول ہے۔ مطلق العنان حکمرانی میں ہم فانی انسان حکمران کی اہلیت ، رجحانات اور اشارہ ابرو کے رحم و کرم پر تھے۔ تجربے نے ہمیں بتایا کہ اچھے حکمران کی درازی عمر اور برے حکمران کی ناگہانی موت کی دعائیں مانگتے رہنا مناسب طریقہ کار نہیں۔ اختیار پر جواب دہی نہ ہو تو ناانصافی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ جواب دہی کے لیے بالاتر بصیرت کی توقع رکھنا حقیقت پسندی نہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ اختیار اور جواب دہی کو مجتمع کرنے کی بجائے باہم احتساب کی صورت دے دی جائے۔ ریاست کے تین آئینی ستون سامنے آگئے۔ پارلیمنٹ ، عدالت ، انتظامیہ۔ ان تینوں اداروں میں ایک دوسرے کی جواب دہی کا طریقہ کار موجود ہے۔ اختیارات کی علیحدگی کے باعث کسی ایک ادارے کا ایک خاص حد سے تجاوز کرنا ممکن نہیں۔ اس طریقہ کار سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ اختیارات اور جواب دہی کی اس تقسیم کا مجموعی نقشہ تسلیم کیا جائے۔ اسے آئینی بندوبست کہتے ہیں۔ ریاست کے ادارے اور شہری آئینی بندوبست کے تابع ہیں۔ ہمارے ہاں اس قصے میں کچھ رخنے نمودار ہوئے ہیں۔ آئینی بندوبست شہریوں کے مساوی رتبے اور حقوق کے اصول پر قائم ہے۔ ہم نے اب تک شہریت کی مساوات کا اصول ہی پورے طورپر تسلیم نہیں کیا۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنے ہدف کی جستجو میں اس قدر اتاولے ہو جاتے ہیں کہ آئینی بندوبست کی حد بندیوں سے باہر نکلنے کو برا نہیں جانتے۔ کبھی ہم عدالت کے د روازے پر جا بیٹھتے ہیں ۔ ساٹھ برس پہلے مولوی تمیز الدین کیس کے بعد سے درجنوں آئینی معاملات سامنے آئے۔ کبھی ہمیں مایوسی ہوتی ہے تو کبھی امید بندھ جاتی ہے۔ عدالتوں کے باہر قیدی پرندے خرید کر آزاد کرنے کی رسم بھی موجود ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ عدالت کے احاطے میں حلوائی کی دکان بھی کھل جائے گی۔ کاروبار کا بنیادی اصول ہے کہ جہاں گاہک ہوتے ہیں دکان کھل جاتی ہے۔ کبھی عدالت کے دروازے پر توپ نصب ہو جاتی ہے تو کبھی مشتعل ہجوم کا شور بلند ہوتا ہے۔ کبھی منصف کے جلو میں مغربی عصا نظر آتا ہے تو کبھی انصاف کے چہرے کو تقدیس کا ہالہ گھیرے میں لے لیتا ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سیاسی معاملات عدالتوں میں طے نہیں ہوتے۔ عدالت ایک آئینی ادارہ ہے ۔ فوج ملکی دفاع کی انتظامی خدمت ہے۔ ہماری روایت یہ رہی ہے کہ عدالت کے دروازے سے اٹھتے ہیں تو چھاﺅنی کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ چار دفعہ ہم نے آئینی بندوبست کو کھڑکی سے باہر پھینکا اور دیہاتی کسان کی طرح دو زانو بیٹھ کر تھکی ہوئی آواز میں کہا کہ اب تو جنرل صاحب ہی معاملات ٹھیک کریں گے۔ جنرل صاحب ہمیشہ سے بہت اچھے ہیں۔ تاہم معیشت، سیاست اور معاشرت کے الجھاﺅ دور کرنا جنرل صاحب کا کام نہیں۔ جنرل صاحب کی تربیت مختلف ہوتی ہے۔ وقت گزر جانے کے بعد ایوب خان اور یحییٰ خان پر تنقید کرنا آسان ہے۔ ضیاالحق او رپرویز مشرف سے ہر خرابی منسوب کرنے میں جان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس سوچ کا ماتم کرنا چاہیے جس نے جنرل صاحب سے سدھار کی امید باندھی تھی۔ اب تو مومن ایک دوسرے کو ممکنہ اتحاد کی مبارک دے رہے ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس پر فیصلہ دیتے ہوئے ریاست کے تحقیقاتی اداروں پر مشتمل ایک مشترکہ ٹیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ان تحقیقاتی اداروں میں سول اور عسکری ادارے شامل ہیں۔ بیلی پور کے یار عزیز نے وطن عزیز کو گویا مرید پور سمجھ رکھا ہے۔ بابو صاحب لکھتے ہیں کہ ’ایم آئی اور آئی ایس آئی کو چھوڑ کر کسی دوسرے ادارے پر بھروسہ نہیں۔ ساری ذمہ داری ان پر آن پڑی ہے‘۔ یہی وہ سوچ ہے جو ناک کی سیدھ میں دوڑتے ہوئے لڑھکنی کھا کر کھائی میں گر تی ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی حیات ہوتے تو فرماتے کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ بنی گالہ کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے محترم چیف جسٹس نے کیا اچھی بات کہی کہ قانون کی دنیا میں اختلافی نوٹ پر اس طرح سے بات نہیں کی جاتی ۔ حضور معاملہ یہ ہے کہ عدالت کا اکثریتی فیصلہ درکار کسے تھا ؟ جملہ لال بجھکڑتو اختلافی نوٹ کی کھوج میں تھے۔ جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں…. بیلی پور کے لشکر کے لیے یہ اختلافی نوٹ ہی ہمارا گریبان اور آئندہ معرکے کا علم ٹھہرا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹویٹ کا متن کچھ بھی ہو ، شفاف کردار سے ہماری مراد یہی ہے کہ ہمارے من کی مراد بر آئے۔ کل تک ہم قانون کی بجائے انصاف مانگتے تھے اور اب فیصلے کی بجائے اختلافی نوٹ کا اخلاقی وزن معلوم کر رہے ہیں۔ جمہوریت کا نصب العین حکومت گرانا نہیں، بہتر حکومت تشکیل دینا ہے۔ یک نکاتی سیاست کے نتیجے میں بہتر حکومت تشکیل نہیں پاتی۔ خبر لیجئے کہ ہمارے محترم آصف علی زرداری بھی آندھی کے ساتھ ہیں۔ بھلا ہو عمران خان صاحب کا کہ ڈان کیخوٹے کی طرح سے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ انشااللہ عمران خان حزب اختلاف کو متحد نہیں ہونے دیں گے۔ لطف یہ ہے کہ جو مہربان عدالت میں فریق ہی نہیں بنے، وہ اختلافی نوٹ کی بنیاد پر استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ باسٹھ تریسٹھ کا معاملہ بہت دلچسپ ہے۔ ہمارے آئین کا یہ مختصر حصہ بیلی پور سے بنی گالہ تک پھیلا ہواہے …. اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں۔ اور مشکل یہ ہے کہ اس پر اختلافی نوٹ دینا بھی مشکل ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).