ایم اے راحت کے ساتھ کچھ یادیں


ہم سب کیلئے کہانیاں لکھنے والے ، ہمیں دوست رکھنے والے ، عمر میں بڑے ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ مل کر شرارتیں کرنے والے ، ڈائجسٹ پڑھنے والوں کے ہردلعزیز قلم کار ایم اے راحت بھی چل بسے ۔

اس عہد میں جبکہ نقدی لوٹ کر کمانے والوں کی بہتات ہے ایم اے راحت کو میں نے کہانی جوڑ جوڑ کر کماتے دیکھا ۔ راحت صاحب سے میری پہلی ملاقات میرے دوست فیصل ملک نے کروائی تھی۔ تب میں بھی طالب علم تھا اور کچھ کچھ لکھنا شروع کیا تھا ۔ فیصل کو راحت صاحب کیسے ملے تھے مجھے یاد نہیں مگر ان دونوں کی دوستی مثالی تھی۔ راحت صاحب اسے بچوں کی طرح عزیز رکھتے تھے اور چونکہ میں فیصل کا دوست تھا تو وہ مجھے بھی عزیز رکھنے لگے ۔

میں اکثر ان کے گھر جاتا تھا ۔ وہ ان دنوں ایک ماہ میں سات آٹھ قسط وار ناول لکھا کرتے تھے جو کئی ڈائجسٹوں میں چھپتے تھے۔ میں حیرانی سے ان سے پوچھا کرتا کہ آپ بیک وقت اتنی کہانیاں کیسے لکھ لیتے ہیں؟ ان کا لکھنے کا طریقہ کار عام مروج طریقے سے بہت مختلف تھا۔. وہ کسی بھی ڈائجسٹ کو کھول کر اپنی قسط وارکہانی نکالتے ، اس پر ایک سرسری نظر ڈالتے ، اپنا چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر نکالتے ، نئی کیسٹ ڈالتے اور اگلی قسط یوں بولنا شروع کردیتے جیسے کہیں لکھا پڑھ رہے ہوں۔ یوں چند گھنٹوں میں نئی طویل قسط تیار ہوجاتی ۔ ان کے پاس پانچ چھ چھوٹے ریکارڈر ہر وقت تیار رہتے۔. وہ باری باری کئی قسط وار ناول بولتے جاتے ۔ ایسا لگتا تھا جیسے ناول اور ان کے کرداروں کی قسمت لکھنا ایم اے راحت کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ہر کردار کی جزئیات، عادات، گفتگو کا انداز انہیں یوں ازبر تھا کہ کہیں کہانی میں جھول محسوس ہوتا تھا نہ کردار اپنی سرشت سے ہٹ کر کوئی کام کرتے تھے۔ بعدازاں شام کو چند طالب علم آتے اور کیسٹ سن کر سب کچھ کاغذ پر منتقل کر دیتے ۔ ان کے ناول نگار ہونے کا فائدہ نہ صرف ڈائجسٹ کے مالکان کو ہوتا بلکہ درجن بھر بچے بھی ان کے ساتھ اپنی روزی روٹی کماتے تھے ۔

وہ بچوں جیسی معصومیت کے ساتھ باتیں کرتے تھے . قہقہے لگانا ، کھانا پینا اور کہانیاں لکھنا یہی ان کی زندگی تھی۔ میں نے کبھی ان میں گھمنڈ اور اتنے بڑے کہانی کار ہونے کا زعم یا نشہ نہیں دیکھا ۔ وہ اپنی کہانیوں پر بہت کم بات کرتے ۔ کبھی کسی سے یہ نہیں پوچھتے کہ تم نے میری کہانی پڑھی؟

میں انہی دنوں ہانگ کانگ کے سفر پر نکلا تو جہاز پر مجھے ائیرہوسٹس نے ایک ڈائجسٹ دیا ۔ اس میں راحت صاحب کی ایک طویل مکمل کہانی بھی تھی۔ میں نے پڑھنا شروع کی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا ایک کردار فیصل ملک جیسا تھا۔ فیصل کا چلبلاپن ، گپ بازی ، نئے آئیڈیاز کا جوش وخروش سب کچھ کہانی میں جذب ہوکر پراثر رنگ جمارہا تھا ۔ میں جہاز میں بیٹھے بیٹھے اپنے آپ کو راحت صاحب کی گھر کی چھت پر جمی محفل میں موجود محسوس کررہا تھا ۔

راحت صاحب کی دوسری بیگم بھی کہانیاں لکھتی تھیں اور کھانے پکاتی تھیں ۔ ان سے شادی دو کہانی کاروں کی ذہنی ہم آہنگی کا نتیجہ تھی۔ میں نے ان کی دونوں بیگمات کو بڑے سکون کے ساتھ اکٹھے وقت گزارتے دیکھا ۔ فیصل کے طفیل میں بھی راحت صاحب کے گھر کا فرد بن گیا تھا ۔ میں قدرے شرمیلا تھا مگر فیصل ان سے ہر طرح کی باتیں کرلیتا تھا اور میرا کام ان کی باتوں میں شریک رہنا تھا۔ وہ اکثر اپنے بچوں اور ہم دونوں کو آئس کریم کھلانے بھی لے جاتے ۔ میں ان کے گھر فیصل کے ساتھ جاتا تھا۔ ہم دونوں مل کر فیصل سے خوب مذاق کرتے۔ فیصل بلاجھجھک راحت صاحب پر چڑھائی کردیتا مگر وہ کبھی برا نہ مناتے۔ ہم سب رات گئے ان کی گھر کی چھت پر خوب غل غپاڑا کرتے ۔

رفتہ رفتہ میرے اور راحت صاحب کے درمیان ایک نئی د وستی کا آغاز ہوا۔ ہم اپنے دکھ سکھ شیئر کرنے لگے ۔ میں ان دنوں غیرشادی شدہ تھا ۔ میرے کچھ گھریلو مسائل تھے۔ مجھے ایک شدید جذباتی کیفیت سے گزرنا پڑا۔ میں اسے کسی بڑے کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا تھا جو مجھے اپنے تجربے سے صحیح مشورہ دیتا اور گائیڈ کرتا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے راحت صاحب سے معاملہ بیان کیا ۔ انہوں نے انتہائی خوبصورتی سے ایک ہمدرد دوست کا فریضہ انجام دیا اور اس کی کانوں کان کسی کو خبر نہ ہونے دی یہاں تک کہ فیصل کو بھی کچھ پتا نہ چلا۔ یوں راحت صاحب نے بھی اپنی زندگی کے کچھ دکھ مجھ سے شیئر کئے ۔ میں حیران تھا کہ اتنے غم چھپا کر بھی یہ شخص کیسے دن رات لکھتا اور قہقہے لگاتا رہتا ہے ۔

انہیں قدرت نے کہانی کار بننے کی خداداد صلاحیت ودیعت کی تھی ۔ صدیوں کا بیٹا، کالا جادو، ناگ دیوتا، کمند، کالے گھاٹ والی، کفن پوش، صندل کے تابوت، شہر وحشت، جھرنے، سایہ، کالے راستے سمیت ان کے کریڈٹ پر آٹھ سو سے زائد ناول اور کئی ہزار کہانیاں شامل ہیں ۔ انہوں نے بچوں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ انھوں نے بےشمار قلمی ناموں سے لکھا۔ کئی ایسے لکھنے والے بھی ہیں جو ان سے کہانیاں لکھواکر اپنے نام سے چھپواتے رہتے رہے ۔ وہ کمرشل کہانی کار کی عمدہ مثال تھے۔ وہ ان دنوں اپنے قلم سے ہزاروں روپے ماہوار کماتے تھے ۔ انھوں نے کہانیاں بیچ بیچ کر ہی اپنے خاندان کی پرورش کی ۔ ان کے ناولوں کو ہندوستان کے پبلشرز نے ہندی ترجمہ کرکے چھاپا ۔ کچھ نے پیسے دئیے اور کچھ نے فراڈ کیا ۔

ان کی خاص عادت مکان تبدیل کرنا تھا ۔ میں نے انہیں ہمیشہ کرائے کے مکان ہی میں دیکھا ۔ ان کے ڈائجسٹوں کے مالکان ان کے لکھے ناولوں کے ذریعے اپنے ڈائجسٹ بیچ بیچ کر ارب پتی ہوگئے۔ میں نے ایک بار کہا بھی کہ آپ اپنا ڈائجسٹ نکالیں مگر وہ کہتے تھے کہ میرا کہانی کار ہونا ہی میرا وصف ہے ۔ میں کہانیاں لکھ کر ہی شانت رہتا ہوں ۔

شادی کے بعد میری ان سے ملاقاتیں بہت محدود ہو گئیں۔ پھر وہ لاہور چلے گئے۔ ایک دو بار فون پر بات ہوئی ۔ وہی جوان اونچا قہقہہ ۔ پھر میں کینیڈا آ گیا۔ فیصل کی زبانی ان کی زندگی کے چند غمگین لمحات مجھ تک پہنچتے رہے ۔ ہر بڑا آدمی اپنے گھریلو معاملات میں اکثر دکھی پایاجاتا ہے ۔ لکھنے والے ایک الگ ذہن اور شخصیت رکھتے ہیں جسے اولاد سمجھ پاتی ہے ، شریک حیات نہ رشتے دار۔ میں نے یہ بھی سنا تھا کہ ان کی کے ناول پر ٹیلی ڈرامہ تیار ہونے والا تھا۔ کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہوا؟ میں پچھلے پندرہ برس سے ان کی خیرخبر سے دور تھا ۔

ایم اے راحت ایسے ادیب تھے جو اپنے دوستوں کو کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ بڑے ادیب ہیں ۔ ان کی قدروقیمت کا اندازہ بھی شاید اب ان کے مرنے کے بعد لگایا جائے گا۔. وہ میرے نزدیک ابن صفی ثانی تھے۔ ان کے ساتھ گزارے لمحات مجھے آج بھی یاد آتے ہیں۔ میں ان کے انتقال سے صرف تین دن پہلے ان کا ذکر اپنے بچوں سے کررہا تھا کہ اچانک خبر آگئی کہ وہ چھ دن سے کومے میں ہیں ۔ شاید یہی وہ دن تھے جب وہ سانس لیتے ہوئے بھی

اپنے کسی ناول کے کرداروں کی بابت نہ سوچ رہے ہوں۔
نوٹ: یہ تصویر میرے ولیمے کے دن کی ہے جس میں فیصل ملک ، جاوید اعجاز اور فیصل و میرے مشترکہ دوست بیٹھے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).