فرزانہ ناز: کچھ قافیہ بند خوابوں کا خون ہوا ہے


میں رائٹرز ہاؤس سے اپنے خیالوں میں گم نکل رہا تھا۔ وہ اپنی سہیلی کا ہاتھ تھامے رائٹرز ہاؤس کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ عین سامنے آکر رکیں، استفسارانہ لہجے میں کہا، فرنود؟ میں نے کہا، جی فرنود۔ مگراب آپ چپ رہیئے آپ کا نام میں بتاوں گا۔ جی جی بتایئے آج آپ کی ذہانت کا امتحان ہے۔ دماغ پہ قدرے زور دے کر میں نے کہا، فرح ناز؟ قہقہاتی ہوئی بولیں، ارے نہیں بھئی میرا حسین حقانی سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ میں فرزانہ ناز۔ ایک مشترکہ قہقہہ بلند ہوا اور کہا، ارے اہم چیز تو ناز ہے، ناز باقی رہے، اس کے دائیں بائیں فرح ہو کہ فرزانہ ہو کیا فرق پڑتا ہے۔

ساتھ کھڑی اپنی سہیلی کے ہاتھ سے اپنی شاعری کے مجموعے کی کتاب لی، ماتھے پر متفکرانہ بل ڈال کر مجھے دیکھنے لگیں۔ آنکھوں میں تذبذب دیکھ کر میں نے ازراہ تفنن کہا، یقین جانیے میرے پاس خریدنے کے لیے ایک ٹکہ بھی نہیں ہے۔ پھر سے قہقہہ چھوٹا۔ کتاب سامنے کرکے اعتذارانہ بولیں، ارے نہیں بھئی یہ میں آپ کو دینا چاہ رہی ہوں مگر اس پر کسی کا نام لکھ  دیا ہے میں نے۔ عرض کیا، کوئی بات نہیں۔ کتاب کتاب پہ لکھا ہے پڑھنے والے کا نام۔ آپ کے کسی نسخے کی لکیروں میں ہمارا نام ہوا تو ہم تک پہنچ جائے گی۔ نہ بھی پہنچی تو ہم کتاب تک پہنچ جائیں گے۔ یہ سرِ راہ کھڑے کھڑے ملاقات اس وعدے کے ساتھ ختم ہوئی کہ پھر ملاقات ہوگی۔

دو ہفتے قبل اسلام آباد میں آکسفورڈ کتب میلہ لگا۔ ہوٹل کے ایک ہال میں ناصرہ زبیری صاحبہ کی کتاب ”تیسرا قدم“ کی تقریب رونمائی تھی۔ میں برکت سمیٹنے ساعت بھر کو ہال میں آیا تھا۔ ہال کے دروازے سے نکل ہی رہا تھا کہ فرزانہ صاحبہ ٹکرا گئیں۔ دیکھتے ہی بے ساختہ بولیں، ارے سلام علیکوووووم کیسے ہیں آپ۔ آداب بجالاتے ہوئے میں نے کہا، یہ ہم دروازوں پر ہی کیوں ٹکرتے ہیں۔ فوراً کہا، کتنی اچھی بات ہے کہ ہم دروازوں پہ ہی ٹکراتے ہیں، بازاروں میں ٹکراتے تو اچھی بات ہوتی کیا۔ وہی بردبار قہقہہ۔ یہ لمحہ بھر کی ملاقات بھی اس وعدے پر ختم ہوئی کہ پھر ملاقات ہوگی۔
ابھی دو روز قبل اسلام آباد ہی میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام آٹھواں قومی کتب میلہ سجا۔ میلے میں اپنے حصے کے جھمیلے سے فارغ ہوکر واپسی کے لیے قدم تول رہا تھا۔ عین دروازے پرپہنچا ہی تھا کہ سامنے سے فرزانہ صاحبہ چلی آرہی ہیں۔ ایک جملہ میری زبان پر تھا کہ، ہیلو دروازوں پر ہی نظر آںا ہمیشہ آپ۔ وہ بہت جلدی میں دوڑی جارہی تھیں۔ شاید انہوں نے مشاعرہ پڑھنا تھا۔ میں نے خلل نہیں ڈالا۔ لحظہ بھر کو خیال آیا کہ یہاں کسی اسٹال پر فرزانہ کا مجموعہ کلام ”ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے“ دیکھ لوں۔ لیکن یہ بس خیال ہی تھا جو آیا اور گزر گیا۔ یوں بھی ان دنوں جہاں کتابوں کا ڈھیر دیکھوں ایک وحشت سی ہونے لگتی ہے۔ گھر کی راہ لینا ہی مناسب ٹھہرا، سو لے لی۔

گھر کے لیے ابھی رستے میں ہی تھا کہ فون پر پیغام موصول ہوا کہ فرزانہ ناز عین مشاعرے کے دوران اسٹیج سے گرگئی ہیں، بہت زیادہ چوٹیں آئی ہیں، دعا کیجیے۔ کچھ دیر کو ایک سکتہ طاری ہوا، پھر خود کو تسلی دی کہ چلو اسٹیج سے ہی گری ہیں، اتنی زیادہ چوٹیں بھی نہیں آئی ہوں گیں، خدا خیر کرے گا۔ مگر لمحہ بہ لمحہ ملنے والی خبروں سے اندیشہ ہونے لگا کہ جو تسلی خود کو دی تھی، تسلی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

دل کٹ سا گیا جب یہ خبر ملی کہ ہجرت فرزانہ سے چمٹ گئی ہے۔ وہ اگلے جہاں کوچ کرگئی ہیں۔ بے بسی کی سی ایک کیفیت تھی۔ ایک سوال مسلسل سامنے تھا کہ اسٹیج خود نہ گرے تو اسٹیج سے کوئی کیسے گرسکتا ہے۔ سوال کے ساتھ ہی کتب میلے کے انتظامات ایک نظر میں سامنے سے گذر گئے۔ اسی میلے میں ہمیں ایک سیشن میں شرکت کا موقع ملا۔ پیارے دوست اور استاد یاسرچٹھہ صاحب نے کہا، اپنی دیوار پہ اشتہار چسپاں کردیجیے۔ کرنا تو ویسے بھی تھا، سو کر دیا۔ گلگت کا ایک روشن دماغ جوانِ رعنا علی احمد جان ساتھ تھا۔ ہال میں پہنچے تو ہم اپنے حصے کی نشست ڈھونڈنے لگے۔ ایک نشست جس پر ڈاکٹر عرفان شہزاد کے چاند سے فرزند بیٹھے تھے وہ مجھے مل گئی۔ اب حیران وپریشان کھڑا ہوں۔ ایک طرف یہ صدمہ کہ ڈاکٹر صاحب کے فرزند سے نشست چھن گئی دوسری طرف یہ فکر کہ علی احمد جان کہاں بیٹھے گا؟ علی نے میری مشکل کو بھانپ لیا، فورا زمین پر آلتی پالتی مار کے بیٹھ گیا۔ ابھی سیشن کے مہمان خصوصی اور صدرِ مجلس بھی نہیں پہنچے تھے۔ احمد فراز کے فرزند شبلی فراز نے بھی ابھی پہنچنا تھا۔ گفتگو جاری تھی، شرکت کے خواہشمند دوست آتے، دروازہ کھولتے، ہاؤس فل دیکھتے، انہی قدموں لوٹ جاتے۔

ایک خاتون اٹھ کر نہ گئی ہوتیں تو شبلی فراز صاحب نشست ڈھونڈتے رہ جاتے۔ سیشن میں مدعو مہمان سفیراللہ خان آئے، دائیں بائیں گردن گھمائی، اپنی جگہ نہ پا کر پلٹ گئے۔ دوبارہ آئے تو ایک خاتون کی چھوڑی ہوئی نشسست ان کے حصے میں آگئی۔ خاتون آئیں تو نشست نہ پاکر پلٹ جانے میں عافیت جانی۔ صدرِ مجلس ڈاکٹر شاہد صدیقی پہلے پہنچے ان کی نشست بعد میں پہنچی۔ حمید شاہد صاحب کسی حاجت سے باہر گئے تو واپسی پر مسند غائب تھی۔ ان کی خوش قسمتی کہ زیف سید صاحب کو دوبارہ کام پڑگیا۔ وہ نکلے تو حمید شاہد صاحب بیٹھے۔ سیشن انجام کو پہنچنے لگا تو انتظامیہ نے ہال میں کچھ اضافی نشستیں لگوائیں۔ اس کے باوجود ہمارے نہایت محترم دوست اور سرپرست ڈاکٹر عامر عبداللہ، ندیم اعظم صاحب اور دیگر کچھ قابل احترام احباب کو ایک کونے میں کھڑے ہو کر کارروائی سماعت کرنی پڑی۔ دو بار میں نے اپنی نشست ڈاکٹر عامرعبداللہ کے لیے چھوڑی، مگر کرسی کی لالچ سے پاک آدمی نے اشارے سے کہا، اگر ایسا کروگے تو لوٹ جاؤں گا۔ حکم کی تعمیل میں بیٹھ گیا مگر تابکہ؟ علما کو یوں سامنے کھڑا دیکھ کر طبعیت میں مسلسل ایک گستاخی سی محسوس ہورہا تھی۔ طبعیت میں حجاب ایسا بڑھا کہ بیٹھنا محال ہو گیا۔ لیت اور لعل کی صورت حال سے خود کو نکالنے کے لیے میں ہال سے نکل آیا۔ تاکہ میری نشست کسی معتبر شخصیت کے حصے میں آجائے۔ نکل تو آیا لیکن ایک نشست پہ کتنے لوگ بیٹھ سکتے تھے۔ عقیل عباس جعفری صاحب نے کہا، آپ کے سیشن میں شامل ہونے کا پورا ارادہ تھا، مگر کہیں الجھ گیا۔ جی ہی جی میں کہا، شکر ہے نہ آسکے ورنہ شرم سے ہم پانی پانی ہوجاتے۔

دیگر ہالوں میں جہاں مشاعرے اور مکالمے ہورہے تھے، اس کا احوال آپ تصویروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک حال میں جھانکا تانکی کی تو ادیب و شعرا جس طرح ٹھونس کر بٹھائے گئے تھے وہ ایک مسافر وین کا منظر پیش کررہا تھا۔ یہی ہال جس میں فرزانہ ناز ایک حادثے سے دوچار ہوئیں، اس ہال کا حال جاننے کے لیے اردو کی استاد اور مصنفہ شمائلہ حسین کا ایک شذرہ پڑھیے

”نیشنل بک فاونڈیشن کے کتاب میلہ پر دو دن میں بھی جاتی رہی، اور ہر سیشن میں مقررین اور سامعین و حاضرین کی نشست و برخاست کا کوئی منظم ضابطہ میری نظر سے نہیں گذرا، یہاں تک کہ ’ پاکستانی زبانوں کا ادب اور ان کا مستقبل‘ کے موضوع پر ہونے والے سیشن میں اسٹیج پر کم جگہ ہونے کے باعث کرسیاں پھنسا کے رکھنے کے عمل پر ایک بار مجھے لگا کہ جو صاحب آخری کرسی پر بیٹھے ہیں وہ یقینا گر جائیں گے۔ اس وقت تو کوئی نہ گرا، لیکن فرزانہ ناز اس بدنظمی کا شکار ہو گئیں۔ میں آخری وقت تک اس خبر کا انتظار کرتی رہی کہ کوئی بتا دے وہ زندہ جاوید ہیں۔ لیکن۔ ۔ ۔“

عزت بڑی چیز ہے جہانِ تگ وتاز میں۔ ہم اگر کتاب سے نسبت رکھنے والے میلوں میں مہمانوں کی سہولیات کا خیال نہ رکھ سکیں تو یہ کتاب کی بے توقیری ہے۔ میلے تو بھکر اور وہاڑی کے اکناف میں بھی سجتے ہیں، معاملہ مگر نسبت کا ہے۔ جس میلے میں ہزاروں کتابیں فروخت ہوئی ہیں بیسیوں مکالمے ہوئے ہیں اسی میلے میں غفلت کے سبب قافیہ بند خوابوں کا خون ہوا ہے۔ جو پایا سو پایا، اندازہ ہے کہ اس میلے میں ہم نے کیا کھو دیا ہے سراسر بد انتظامی کے سبب؟ کامیاب میلہ تھا، مگرنغمہ شادی کو رہنے دیجیے۔ ہم نے نقصان اٹھایا ہے، اس لیے نوحہ غم پہ دھیان دیجیے۔ بات یہ ہے کہ میلے تو پھر بھی سج جائیں گے۔ خون ہوجانے والے خواب پھر نہیں ملیں گے۔

سوچتا ہوں میلے کے دروازے پر برق رفتاری سے گزرتی فرزانہ کو آواز دے لی ہوتی۔ زبان کی نوک پر رکھا جملہ ارزاں کردیا ہوتا۔ وقت نے شاید اس لیے ساتھ نہیں دیا کہ اس بار اس ملاقات کا انجام انہی رسمی الفاظ ”پھر ملاقات ہوگی“ پر ہوتا تو بے معنی ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).